اہم ترین خبریںلبنان

لبنانی مسیحی شاعر جرج حنا شکور: کربلا سے مقاومت تک کا سفر

امام حسینؑ اور اہل بیتؑ کے مداح شاعر نے صہیونی قبضے کے خلاف عربی ادب میں بلند کی پہلی صدا

شیعیت نیوز : آج سے ایک سال پہلے اسی دن، لبنان کے مسیحی شاعر جرج حنا شکور اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ اہل قریہ کی محفلوں میں نہج البلاغہ پڑھا کرتے اور نوجوانی ہی سے امام حسینؑ اور امام علیؑ کے گرویدہ تھے۔

جورج شکور نے عربی ادب میں بیروت کی یونیورسٹی سینٹ جوزف سے تعلیم حاصل کی اور وہیں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ انہوں نے جامعۃ الشرق الاوسط کے عربی زبان و ادب کے انجمن کی صدارت اور ادیبوں اور شعراء کی عربی انجمن کی نائب صدارت بھی کی۔ 3 ستمبر 2024 کو 90 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا اور بیروت میں تدفین کی گئی۔

ادبی سرمایہ اور فکرِ مقاومت

شکور نے اپنی شاعری میں لبنان اور فلسطین کے دفاع کو مرکزی موضوع بنایا اور سب سے پہلے شعری ادب میں صہیونی قبضہ کے خلاف مقاومت کی صدا بلند کی۔ وہ آزاد فکری شاعر تھے جنہوں نے کسی تعصب کے بغیر اہلبیتؑ کے فضائل کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں : افغانستان زلزلہ: آیت اللہ علی رضا اعرافی کا اظہار افسوس اور تعاون کی پیشکش

ان کی مشہور تخلیقات میں قصیدۃ الحسینؑ شامل ہے جو سن 2001 میں لکھا گیا۔ اس 80 ابیاتی منظومہ میں انہوں نے کربلا کے مناظر اور اپنے ذاتی عشق و جذبات کو نہایت دلنشین اور مؤثر انداز میں بیان کیا۔

بعد ازاں انہوں نے ملحمة الامام علیؑ اور ملحمة الحسینؑ کے بعد سن 2010 میں عید غدیر کے موقع پر ملحمة الرسول(ص) شائع کی۔ یہ 1600 اشعار اور 67 قصائد پر مشتمل ایک ادبی دیوان ہے جو رسول اکرم(ص) کی سیرتِ طیبہ اور اسلامی تاریخ کو پیدائش سے وصال تک ترتیب وار بیان کرتا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی غیر مسلم شاعر نے رسول اسلام(ص) کی زندگی کو اس قدر جامع انداز میں منظوم کیا۔

فکر و نظریہ

شکور کا ماننا تھا کہ اسلام اور مسیحیت میں اختلافات کم اور اشتراکات زیادہ ہیں۔ وہ عیسائی راہب بحیرا کے اس تاریخی واقعے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جس میں اس نے امام علیؑ کو یہودیوں کی سازشوں سے خبردار کیا تھا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اسلام اور مسیحیت ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، مسیحؑ اور امام حسینؑ دونوں شہادت کی راہ کے مسافر ہیں۔

انہوں نے بیروت کے یونیسکو ہال میں اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ عاشورا کی منطق یہی سکھاتی ہے کہ جو قوم حق کو پہچان کر اس کی خاطر قربان ہو جائے، وہی کامیاب قوم ہے۔ شکور کے نزدیک مقاومت صرف اسلحہ نہیں بلکہ ایک فکر، ایک شاعری اور ایک ثقافتی جہاد ہے، اور اس کی جڑیں امام حسینؑ کی تحریک میں پیوست ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ یہ نظام دراصل ایک تہذیبی پشتوانہ رکھنے والی جمہوریت ہے جو لبنان اور فلسطین جیسے مظلوم و مقبوضہ عوام کے حق میں عدل و انصاف کی سب سے بڑی پشتیبان ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button