مشرق وسطی
معمر قذافی کے اقتدار نہ چھوڑنے پر مظاہرین مزید مشتعل

لیبیا کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ میں لیبیا کے ڈپٹی سفیر ابراہیم دباشی نے ہلاکتوں کو نسل کشی کہا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی چیف کیتھرین ایشٹن نے معمر قذافی اور مظاہرین کے درمیان بات چیت کو مسئلے کا حل قرار دیا ہے۔ بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث جرمنی، فرانس، مصر، تیونس، ترکی، اٹلی، امریکا اور چین نے اپنے باشندوں کو لیبیا سے نکالنا شروع کر دیا۔ ہیومن رائٹس گروپ کے مطابق حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ہنگاموں میں اب تک 400 کے قریب افراد جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق لیبیا میں عوامی احتجاج کا سلسلہ ساتویں روز بھی جاری ہے، متعدد علاقوں کا کنٹرول فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے جبکہ امریکا سمیت عالمی برادری نے عوام پر تشدد کی مذمت کی ہے۔ گزشتہ روز صدر کرنل قذافی کی حمایت اور مخالفت میں مظاہروں میں اس وقت شدت آئی جب فوج نے جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مظاہرین پر فائرنگ کر دی۔ ہیومن رائٹس واچ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لیبیا میں چار سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکومت نے عوامی احتجاج کو طاقت سے کچلنا شروع کر دیا ہے جس کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے، شورش کے باعث طرابلس اور بن غازی شہر سے غیر ملکیوں کا انخلا جاری ہے۔ تاہم پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے تاحال کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ عوام پر تشدد کے خلاف لیبیا میں بغاوت کی سی صورتحال ہے۔