مشرق وسطی
الجزائر میں انیس سال سے جاری ایمرجنسی خاتمے کے قریب؟

یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا گيا ہے کہ جب گزشتہ دنوں کے دوران الجزائر میں عوام نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ تبدیلی اور جمہوریت کے لیے قومی ہم آہنگی گروپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر ہفتے کے روز دارالحکومت الجزیرہ میں عوامی مظاہرے کیے جائیں گے۔ گزشتہ ہفتے کے روز بھی دارالحکومت میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے جن کے دوران سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر تشدد کیا تھا لیکن عوامی گروہوں اور جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کے مطالبات پورے ہونے تک حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تحریک جاری رہے گي۔
مسلمہ بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں علاقے کی عرب قوموں کے درمیان بیداری کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔ حکمرانوں کے خلاف تحریک تیونس سے شروع ہوئی اور اس وقت یہ علاقے کے عرب ملکوں میں پھیل گئی ہے۔ شمالی افریقہ کے ملکوں میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران جو کچھ ہوا ہے وہ عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بن گيا ہے۔ دنیا والے اب پوچھ رہے ہیں کہ زین العابدین بن علی اور حسنی مبارک کے بعد اب کس کی باری ہے؟
اگرچہ الجزائر کی صورت حال شمالی افریقہ کے بعض دیگر ملکوں سے کہ جو جابر حکمرانوں کے تسلط میں تھے، کافی مختلف ہے ، اور بوتفلیقہ نے گزشتہ برسوں کے دوران بعض اصلاحات انجام دے کر ملک میں جزوی امن و امان قائم کیا لیکن تقریبا دو دہائیوں سے جاری ایمرجنسی ان کا ایک کمزور پہلو ہے۔ اور یہی چیز اب عوامی تحریک کے لیے ایک چنگاری بن گئی ہے کہ جو شاید پورے الجزائر کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ لہذا الجزائر کے حکام نے معاشرے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے آئندہ دنوں میں ایمرجنسی کے خاتمے کا وعدہ کیا ہے تاکہ شاید وہ داخلی سطح پر سلگنے والی عوامی احتجاج کی آگ کو بجھا سکیں۔