مشرق وسطی

مفتی اعظم مصر: سلفیت اسلام کی نسبت لبرلزم سے زیادہ قریب ہے

mufti-azamمصر کے مفتی اعظم «ڈاکٹر علی جمعہ» نے ایک بار پھر انتہاپسندی، سلفیت اور وہابیت کو "دین اسلام سے دور” قرار دیا۔
مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر علی جمعہ نے آن اسلام ویب سائٹ   کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے سلفی تفکر کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے اپنے سابقہ موقف پر زور دیا۔
انھوں نے کہا تھا کہ جن لوگوں نے اپنا نام "سلفی یا وہابی” رکھا ہے ان کے خیال میں تاریخ اسلام کی ابتدائی تین صدیاں سلف صالح کی صدیاں ہیں اور یہ لوگ اپنے آپ کو اس دور سے منسوب کرتے ہیں؛ یہ لوگ اپنے نام و عنوان کے لئے یہ توجیہ پیش کرتے ہیں تا کہ کوئی بھی ان پر تنقید نہ کرے تا ہم اس  میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلفیت رنگ برنگے کھلونے کا نام ہے جس کا باطن انتہاپسندی، دہشت گردی، خونریزی اور مخالف فریقوں کو برداشت نہ کرنے سے عبارت ہے۔
انھوں نے کہا: میرے فتوے کسی صورت میں بھی فردی نہیں ہیں اور میرے فتوے اچانک ظہور پذیر نہیں ہوا کرتے اور وقت گذرنے کے ساتھ ان فتوؤں کا اعتبار مٹتا نہیں ہے؛ میرے فتوے ہمیشہ اجتماعی منطق و عقل پر مبنی ہوتے ہیں اور انہیں الازہر کے بزرگوں اور علماء سے ہماہنگ کیا جاتا ہے اور اجتماعی مشاورت کے بعد میں اپنے فتوے جاری کرتا ہوں۔
انھوں نے اسلامی مذاہب کے درمیان مکالمے اور گفتگو کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: ہم سب مسلمان ہیں اور پھر الازہر کا مزاج بھی میانہ روی اور مختلف اسلامی مذاہب کے درمیان تقریب و اتحاد پر مبنی ہے چنانچہ ہم اسلامی مذاہب کے درمیان پرسکون مکالمے کی ہمیشہ حمایت کرتے ہیں۔
انھوں نے مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا (اسلام ہراسی) کے خطرے سے خبردار کیا اور کہا کہ اسلام اور دیگر اسلامی ادیان کے درمیان تعمیری گفتگو اسلاموفوبیا کے خطرے سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے۔
واضح رہے کہ مصر کے مفتی اعظم اور اہل سنت کے بزرگ عالم دین ڈاکٹر علی جمعہ نے دوماہ قبل بھی کہا تھا کہ اسلام میں وہابی یا سلفی مذہب نامی کوئی مذہب نہیں ہے؛ اسلام میں اس طرح کے نام اور عنوانات نہیں تھے بلکہ یہ نام اور یہ عناوین حال ہی میں اختراع کئے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا: سلفیت ایک جامد اور غیرلچکدار تفکر ہے اور میرے خیال میں یہ تفکر لبرلزم کی دوسری شکل ہے البتہ وہابیت اور لبرلزم کے درمیان اتنا فرق ضرور ہے کہ "لبرلزم اسلام کو مسلمانوں کی زندگی سے خارج کرنا چاہتا ہے جبکہ وہابیت اور سلفیت دین کو اس کی اصل حقیقت سے الگ کرنے کی کوشش کررہی ہے”۔
ڈاکٹر علی جمعہ سے پوچھا گیا: کیا یہ ممکن ہے کہ آپ وہابیت کے حوالے سے اپنے فتوؤں سے پسپا ہوجائیں؟

متعلقہ مضامین

Back to top button