ایران

علامہ عبد الہادی فضلی دارفانی کو الوداع کہہ گئے

abdul hadiعلامہ ڈاکٹر عبد الہادی الفضلی سعودی عرب کے بزرگ شیعہ عالم دین اور اہلبیت (ع) عالمی اسمبلی کی سپریم کونسل کے رکن ۷ اپریل، بروز اتوار کو کہولت سن کی وجہ سے دار فانی کو الوداع کہہ کر دار بقا کی طرف کوچ کر گئے۔
آیت اللہ فضلی چند ماہ قبل ایران میں اپنے آخری سفر کے دوران بدنی کسالت کی وجہ سے ایک ہسپتال میں بھرتی تھے کہ رہبر معظم انقلاب آپ کی عیادت کے لیے گئے تھے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس عیادت کے دوران علامہ فضلی کا دائیاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور حاضرین سے کہا: اس ہاتھ نے اسلام کی بہت خدمت کی ہے۔
آیت اللہ فضلی نے بھی رہبر معظم کی نسبت اظہار ارادت کرتے ہوئے کہا: سید (رہبر معظم) کی دعاوں سے بہتر ہو گیا ہوں۔

علامہ فضلی کون تھے؟
آیت اللہ فضلی ۱۹۳۵ء میں عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سعودی عرب کے شہر دمام کے رہنے والے تھے۔
علامہ فضلی کے پہلے استاد آپ کے والد آیت اللہ میرزا محسن الفضلی تھے جو بصرہ کے بزرگ علماء میں سے تھے۔ شیخ عبد الہادی بچپنے میں حافظ کل قرآن ہو گئے تھے اور ابتدا سے ہی دینی تعلیمات حاصل کرنا شروع کی۔ صرف، نحو، منطق اور علم بلاغت کو اپنے والد کے پاس پڑھا اور اس کے بعد ۱۳۶۸ ھ ق کو ۱۴ سال کی عمر میں اعلی تعلیم کے لیے نجف اشرف کا سفر کیا۔
نجف اشرف میں آپ نے کئی سال حضرت آیت الله سید «أبوالقاسم خوئی»، آیت الله شیخ «محمد طاهر آل راضی»، آیت الله شیخ «محمدرضا مظفر»، آیت الله سید «محمدتقی حکیم» اور آیت الله شهید سید «محمدباقر صدر» کے پاس حوزہ علمیہ کی اعلی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ساتھ بغداد یونیورسٹی سے عصری تعلیم میں بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی۔
علامہ فضلی حصول علم میں اس قدر کوشاں تھے کہ ۲۰ سال کی عمر میں آغا بزرگ تہرانی صاحب کتاب الذریعہ نے ۱۳۷۴ ھ ق میں انہیں ایک باکمال جوان کے عنوان سے سراہا۔ شیخ عبد الہادی فضلی نے متعدد کتابیں تالیف کیں، اور ۱۰ دائرۃ المعارف کی مکمل طور پر تصحیح کی۔
علامہ فضلی نے عراق میں حصول علم کے دوران مادیت فکر (materialista) کے ساتھ مبارزہ کیا اور ’’ حزب الدعوۃ الاسلامیہ‘‘ کو تشکیل دے کر اس ملک میں اسلامی مذاہب میں اتحاد و یکجہتی قائم کرنے کی تلاش و کوشش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

Back to top button