ایران

بجنورد میں لاکھوں کے مجمع سے امام خامنہ ای کا خطاب

syed ali khamnaiسرزمین اترک کا یادگار، پرشکوہ اور تاریخی دن، آج صوبہ خراسان شمالی کا دارالحکومت بجنورد اسلامی جمہوریہ ایران کا دھڑکتا دل بن گيا، خراسان شمالی کے عوام کا کئي ہفتوں کا انتظار ختم ہوا اور رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای صبح ساڑھے نو بجے صوبہ خراسان شمالی کے دارالحکومت بجنورد پہنچ گئے، صوبے کے عوام کئي گھنٹوں سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پہنچنے کا انتظار کررہے تھے۔ جب رہبر معظم انقلاب اسلامی کی گاڑی بجنورد ایئرپورٹ سے باہر نکلی تو شوق و نشاط میں ڈوبے ہوئے عوام نے رہبر معظم کی گاڑی کو اپنے حلقۂ محبت و عقیدت میں لے لیا۔ 

امام خامنہ نے شمالی خراسان صوبے کے دارالحکومت بجنورد کے تختی اسٹیڈیم میں لاکھوں عاشقان ولایت سے خطاب کیا۔ خطاب کا مکمل متن ملاحظہ فرمائیں:

بسم اللّه الرّحمن الرّحيم

الحمد للّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و حبيبنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين و صحبه المنتجبين و السّلام على عباد اللّه الصّالحين.

اللّهمّ صلّ على علىّ بن موسى الرّضا المرتضى الامام التّقىّ النّقىّ و حجّتك على من فوق الأرض و من تحت الثّرى الصّدّيق الشّهيد صلاة كثيرة تامّة نامية زاكية متواصلة مترادفة كأفضل ما صلّيت على احد من عبادك و اوليائك.

میں تہہ دل سے خداوند متعال کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ خراسان شمالی کے عزیز عوام ـ کہ آپ کا شہر اور آپ کا صوبہ "باب الرضا علیہ السلام” کے نام سے مشہور ہے ـ کا دیدار امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے مخصوص دن پر، نصیب ہوا۔ اگرچہ آج ہمیں قریب سے امام ہشتم علیہ السلام کی زیارت کی توفیق نہیں مل سکی لیکن ہم نے اسی علاقے سے ـ جس کا تعلق امام رضا علیہ السلام سے ہے ـ سلام عرض کیا اور پھر بھی عرض کرتے ہیں۔
یہ علاقہ جو آج شمالی خراسان کہلاتا ہے، خراسان کے بہت اہم علاقوں ميں شمار ہوتا ہے؛ جغرافیائی اور قدرتی محل وقوع کے اعتبار سے بھی اور عوامی و انسانی خصوصیات اور ثقافتوں اور آداب و اخلاقیات کی گوناگونی کے لحاظ سے بھی۔ بہت پہلے سے ہم نے اس اس اہم اور حساس علاقے کے ان خصوصیات کو پہچان لیا ہے؛ ایک صوبہ جس کا قدرتی ماحول بہت حسین و جمیل، مختلف النوع اور سرشار قدرتی وسائل سے مالامال، ممتاز اور برتر ثقافتی گہرائی کے حوالے سے بالکل منفرد، زراعت اور مالداری اور دوسرے امور کے لحاظ سے بےتحاشا صلاحیت و استعداد کا حامل اور سیاحت کی کششوں سے بھرپور ـ جبکہ بہت سے لوگ اس صوبے کے پرکشش اور سیاحتی نقاط سے ناواقف ہیں ـ اور اس کی برترین خصوصیات میں سے ایک امام رضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے کے لاکھوں زائرین اس علاقے سے، جو ان جغرافیائی خصوصیات کا حامل ہے ـ گذرتے ہیں، ان خصوصیات کی بنا پر شمالی خراسان ایک حساس محل وقوع کا حامل ہے۔ لیکن ان میں سب سے زيادہ اہم خصوصیت یہاں کے عوام کی خصوصیات ہیں۔ یہاں کے عوام کو قدیم الایام ہی سے ہم نے بشاشت، مزاج کی شَگُفتَگی اور زِندَہ دِلی کے حوالے سے پہچانا ہے۔ ان تمام میدانوں میں ـ جن میں عوام کی موجودگی زیادہ واضح و آشکار ہوتی ہے ـ ہم نے شمالی خراسان کے عوام کو، بجنورد کے عوام کو، صوبے کے دوسرے علاقوں کے عوام کو بشاشت اور زندہ دلی ہر دم تیار پایا اور یہاں کے عوام نے یہ خصوصیت ہر جگہ ثابت کرکے دکھائی۔
یہيں، مکں آج سڑکوں پر عوام کی موجودگی اور حضور کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ہم جو ڈیڑھ دو گھنٹے سڑک پر تھے، ان کی یہی نشاط و زندہ دلی اور حضور و آمادگی محسوس کی جاسکتی تھی؛ یہ خصوصیات ہم نے قدیم الایام سے ان لوگوں میں پہچان لی ہیں، اور میں لوگوں سے معذرت کا بھی طلبگار ہوں۔ عزیز نوجوانوں نے سڑک پر ایسی بھیڑ لگا رکھی تھی کہ کبھی تو میں ـ جو گاڑی میں بیٹھا تھا ـ فکرمند ہوجاتا تھا اس دباؤ کی وجہ سے جو عزیز عوام کے اوپر آجاتا تھا؛ بہرحال میں شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور معذرت خواہ بھی ہوں۔
یہ نشاط اور زندہ دلی ان لوگوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ 28 صفر کو ـ جب پورے صوبے سے لوگ امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے حرم مطہر کی طرف لوگ روانہ ہوجاتے ہیں، تمام دیگر شہروں اور اضلاع سے زیادہ، بجنورد کی گاڑياں ہوتی ہیں، اس کو مشہد کے عوام جانتے ہیں اور میں بھی ـ جو مشہدی ہوں ـ اس حقیقت کو جانتا ہوں، زیارت میں یہ نشاط، حضور اور آمادگی محسوس کی جاسکتی ہے۔
دفاع مقدس کا موضوع پیش آیا تو یہی کچھ دیکھا گیا۔ خراسان سے متعلق ڈویژنوں اور جوادالائمہ (ع) بریگیڈ کے پچاس نمایاں کمانڈروں کا تعلق شمالی خراسان سے ہے۔ اس خطے سے 2772 شہیدوں نے راہ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اس صوبے میں چھ ہزار سے زائد جانباز (جنگ کے دوران معذور ہونے والے مجاہدین) ہیں نیز بے شمار احرار (جنگی قیدی بن کر رہا ہونے والے مجاہدین)، اور غاز و ایثارگر (جنگ میں شرکت کرنے والے افراد) موجود ہیں؛ یہ وہی حضور، آمادگی، زندہ دلی اور نشاط کا جذبہ ہے۔
اس صوبے کے لوگ تمام شعبوں میں ایسے ہی ہیں۔ جب باچوخہ کشتی (شمالی خراسان کی مقامی کشتی) کی باری آتی ہے لاکھوں افراد ان مقابلوں کا تماشا دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں، یہ اہم خصوصیات ہیں؛ غیرت اور سرحدوں کی حفاظت کی خصوصیات بھی اس علاقے کی ان خصوصیات سے تعلق رکھتی ہے۔ گوکہ صرف یہی نہیں ہے بلکہ اس صوبے کی نمایاں خصوصیات ان سے کہیں زیادہ ہیں۔
یہ صوبہ تابندہ صلاحیتوں کا حامل ہے۔ مجھے اطلاع دی گئی کہ علمی اور سائنسی استعداد و صلاحیتوں کے حوالے کے دس بہترین صوبوں میں سے ایک ہے۔ اسکولوں کی سطح پر منعقد ہونے والے اولمپیاڈز میں ملک کے با صلاحیت ترین اور بہترین صوبوں میں گنا جاتا ہے۔ یہ سب صلاحیتیں ہیں۔ البتہ طالبعلمی کے زمانے میں نے میں نے بھی مشہد مقدس میں اس طرح کی صلاحیتیں دیکھ لیں جن کی طرف یہاں اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ان شاء اللہ علماء اور دینی طلبہ کے ساتھ ملاقاتوں میں عرض کروں گا۔ اس علاقے کے عوام، غیور ہیں، دیندار ہیں، سرحدوں کے محافظ ہیں، زندہ دل اور بہادر ہیں۔ یہ نمایاں خصوصیات ہیں۔
ہم انہیں بیان کیوں کررہے ہیں؟ اس لئے کہ ہمارے ملک کے مختلف علاقوں کے لوگ اپنی نمایاں خصوصیات کو سمجھ لیں اور ان خصوصیات پر فخر کریں۔ بجنورد کا نوجوان فخر کرے کہ اس کا تعلق اس شہر سے ہے، اس صوبے کا نوجوان ـ جس قوم سے بھی ہو ـ فخر کرے کہ اس کا تعلق اس صوبے سے اور اس علاقے اور یہاں کے لوگوں سے ہے۔ اس صوبے کی ایک نمایاں خصوصیت یہی ہے کہ یہاں مختلف اقوام و مکاتب کے لوگ پرامن بقائے باہمی کے ساتھ ہمراہ و ہم آواز برادارانہ انداز سے ایک دوسرے پر مہربان ہوکر، زندگی بسر کررہے ہيں، کرد و فارس و ترک اور تات و ترکمن جو امن، مہربانی اور برادری کی بنیاد پر ساتھ رہتے آئے ہیں؛ یہ مسئلہ اس علاقے میں بہت محسوس و نمایاں ہے، مشہود ہے اور اس کی بہت زيادہ قدردانی ہونی چاہئے۔
یہيں سے میں اپنے اصلی موضوع میں داخل ہونا چاہوں گا۔
میرے عزیزو، بھائیو اور بہنو! یہ امتیازی خصوصیات آپ نے سن لیں، یہ نشاط اور زندہ دلی اور کام کے لئے آمادگی انقلاب کے آغاز سے لے کر آج تک اس ملک میں پائی جاتی ہے؛ اور یہ ایک بہت بڑی عطیہ ہے اس قوم کے لئے جو آگے بڑھنا چاہتی ہے، ترقی اور پیشرفت کرنا چاہتی ہے، حیات طیبہ کے درپے ہے۔ یہ آمادگی، نشاط، زندہ دلی اور میدان میں حاضر رہنے کی کیفیت بڑی نعمت ہے لیکن کافی نہيں ہے۔ چوٹیوں کو سر کرنے کے لئے، دوسری شرطیں بھی ہیں۔ سب سے پہلے ایک نقشۂ راہ (Road Map) کی ضرورت ہے؛ یعنی کام کا ہدف معلوم ہو (کام بامقصد ہو)، مستقبل کا تناظر معلوم ہو، اس کام اور حرکت کے لئے راستہ تیار کیا گیا ہو اور پھر اس کام و مشن کو مسلسل سمجھتے رہنے اور اس کی مسلسل نگرانی کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ملت کے لئے بہت ضروری ہے۔ آج یہ ہمارے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔
میرا اصرار ہے کہ ہمارے عزیز نوجوان اور ہمارے ملک کے ممتاز علمی و سائنسی ماہرین آج کے بنیادی مسائل کو مد نظر رکھیں؛ آج ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ اس مشن کے اہداف، انقلاب کے آغاز ہی سے معین کئے گئے، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی تقاریر میں بھی نقشۂ راہ اجمالی طور پر معلوم ہوا اور ان کے بعد بھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نقشۂ راہ تدوین کیا گیا، اس میں پختگی لائی گئی اور مکمل کیا گیا؛ آج ایرانی قوم جانتی ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے اور کن کن مقاصد کے درپے ہے۔
اگر چاہیں کہ ملت ایران کے اہداف کو ایک مفہوم میں خلاصہ کرکے پیش کرنا چاہیں جو بڑی حد تک ملک و ملت کی عمومی خواہشات کو بیان کرسکے، اور ان کا احاطہ کرسکے، تو وہ کلیدی مفہوم عبارت ہے: پیشرفت سے، تاہم پیشرفت اسلام کی بیان کردہ تعریف کے مطابق۔ اسلام کی منطق میں ترقی اور پیشرفت مغرب کی مادی تہذیب میں ترقی اور پیشرفت سے مختلف ہے۔ وہ ترقی کو ایک ہی پہلو سے دیکھتے ہیں، وہ ایک ہی جہت سے ـ یعنی مادی جہت سے ـ ترقی کو دیکھتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں پیشرفت و ترقی پہلے درجے میں دولت کمانے میں ترقی، سائنس میں ترقی، فوجی ترقی اور ٹیکنالوجی میں ترقی۔ مغربیوں کی منطق میں ترقی یہ ہے؛ جبکہ اسلام کی منطق میں ترقی کے پہلو متعدد ہیں: سائنس میں ترقی، اخلاقیات میں ترقی، عدل و انصاف میں ترقی، عام فلاح و بہبود میں پیشرفت، معاشیات میں ترقی، قومی عظمت اور بین الاقوامی ساکھ کے حصول میں پیشرفت، سیاسی استقلال و خودمختاری میں پیشرفت ـ پیشرفت و ترقی کی یہ تمام قسمیں ترقی و پیشرفت کے اسلامی مفہوم میں شامل کی گئی ہیں ـ عبودیت و بندگی اور اللہ کے تقرب میں پیشرفت؛ یعنی معنوی پہلو، الہی پہلو؛ یہ بھی اس پیشرفت میں شامل ہے جو اسلام میں موجود ہے اور ہمارے انقلاب میں یہ ہمارا حتمی اور بنیادی مقصد ہے: اللہ کی قربت۔ اس منظور نظر پیشرفت میں "دنیا” کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے اور "آخرت” کو بھی۔ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ: "لیس منّا من ترك دنیاه لآخرته و لا آخرته لدنیاه”؛(1) دنیا کو آخرت کی خاطر ترک نہیں کرنا چاہئے جس طرح کہ آخرت کو دنیا پر قربان نہیں کرنا چاہئے۔ ایک روایت میں ارشاد ہوتا ہے: "إعمل لدنیاك كأنّك تعیش ابداً”۔ یعنی دنیا کی منصوبہ بندی کو اپنی چند روزہ ذاتی دنیا تک محدود نہ رکھو؛ پچاس سالہ منصوبہ بندی کرو۔ اس مسئلے کو ملکی مسئولین ذمہ دار افراد، عام عوامی منصوبہ سازی کے ذمہ داران کی طرف سے توجہ دی جانی چاہئے۔ ہمیں یہ نہيں کہنا چاہئے کہ کیا معلوم ہم پچاس سال بعد زندہ بھی ہونگے یا نہیں تو ہم منصوبہ بندی اتنے عرصے کے لئے کیوں کریں۔ نہیں! اس طرح سے منصوبہ بندی کرو کہ گویا تمہیں دنیا کے اختتام تک زندہ رہنا ہے؛ جس طرح کہ اگر اپنے لئے اور اپنے فائدے کے لئے منصوبہ بندی کرنا چاہو تو کس قدر غور و تدبر اور سنجیدگی سے کام کرتے ہو، بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے بھی ـ جن میں تم نہ ہوگے ـ اسی طرح منصوبہ بند کرو؛ "إعمل لدنیاك كأنّك تعیش ابداً”۔ اس کے برعکس (Counterpoint) بھی یہ ہے کہ: ” وَ اعمَل لآخرتك كأنّك تموت غداً”؛ (2) اپنی آخرت کے لئے اس طرح سے عمل کرو کہ گویا کل ہی تمہیں اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ یعنی دنیا کے لئے بھی پورا وزن ڈالو اور آخرت کے لئے بھی پورا وزن ڈالو؛ اسلامی پیشرفت، انقلاب کی منطق کے مطابق پیشرفت یہ ہے یعنی ہمہ جہت پیشرفت۔
مقصد پیشرفت و ترقی ہے، لیکن اس کی قدم بقدم نگرانی بھی ضروری ہے، اور کہ ذمہ داری ممتاز علمی و سائنسی دانشوروں پر عائد ہوتی ہے۔ آج ہمارے حالات کیسے ہیں، ہمارے سامنے کیا رکاوٹیں ہیں، ہمارے مضبوط نقاط (Strong Points) ہیں اور ہمارے کمزور نقاط (Weak Points) کیا ہیں، ہمارے لئے دستیاب مواقع ہیں، درپیش خطرات کیا ہیں، مواقع سے فائدہ اٹھانے اور خطرات کا راستہ روکنے کے لئے ہمیں کس طرح منصوبہ بندی کرنی چاہئے؛ یہ سب وہ امور ہیں جو اہل علم و فن کو ہر مرحلے پر انجام دینے پڑتے ہیں؛ منصوبہ بندیوں میں ان کے بروئے کار لائیں اور لوگوں کو بھی آگاہ کریں؛ کیونکہ عوام کھلی آنکھوں اور بصیرت کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھنا چاہتے ہیں؛ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں، جاننا چاہتے کہ کہاں جارہے ہیں۔ جب یہ تقاضے پورے ہونگے تو عوام پورے وجود کے ساتھ مشکل اور دشوار میدانوں میں اترتے ہیں۔

اب اگر میں اس سلسلے میں فیصلہ دینا چاہوں تو میرا فیصلہ مثبت ہے۔ انقلاب کے تیس سالہ دور میں ہم مسلسل ترقی اور پیشرفت کرتے آئے ہیں، اگرچہ اتار چڑھاؤ بھی رہا، تیزرفتاری اور سست رفتاری بھی تھی، ضعف و قوت تھی لیکن منظور نظر چوٹیوں کی طرف قوم کا بڑھتا ہوا مشن کبھی بھی رکا نہیں ہے۔ کمزوریاں رہيں؛ قوم، ذمہ داران قوم اور اہل فن و دانش افراد ـ سیاسی اہل دانش، سائنسی اہل دانش، علمی و دینی اہل دانش ـ عزم کریں کہ ان کمزوریوں کو دور کردیں۔
ملک کی پیشرفت کی رفتار کو تیزتر کردیں۔ آج کونسی چیزیں ہمیں کامیابی سے ہم کنار کرسکتی ہیں اور کونسی چیزیں ہمارے لئے مشکلات و مسائل پیدا کرسکتی ہیں؟ میں ایک مثال دیا کرتا ہوں: ایک کوہ پیما گروپ کو مدنظر رکھیں جو اس پہاڑ کی نمایاں چوٹی تک پہنچنا چاہتا ہے جس فائدہ مند اور افتخار کی حامل ہے۔ پہلے درجے پر ان کی پوری توجہ آگے بڑھنا اور محنت و کوشش کرنا ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ بیچ راستے بعض دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے، خطرات بھی موجود ہیں۔ جو کچھ ان کے لئے ابتدائی مرحلے میں ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ کام کریں، محنت و کوشش کریں، متحرک رہیں، عزم صمیم کریں، امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، اہداف تک پہنچنے سے ناامید نہ ہوں، صبر و استقامت کا دامن تھامے رہیں، منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھیں، مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار اور ہوشیار رہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہر راستے میں مشکلات اور خطرات پیش آئیں، کہ میں یہاں اشارہ کروں گا کہ انقلاب کے تیس سالہ دور میں ہمارے عوام کو کن مشکلات سے گذرنا پڑا اور کن کن مسائل کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ چنانچہ اس عظم مشن کا اصل سازو سامان اسی عزم راسخ، اسی امید، اسی مسلسل محنت اور پیہم کوشش، اسی منصوبہ بندی، اسی آمادگی اور ہوشیاری و زیرکی ہی سے عبارت ہے۔ اگر یہ بنیادی سازوسامان ہو اور یہ ساز و سامان ان بنیادی ارکان اور ستونوں پر مشتمل ہو، ہمای مثال میں کوہ پیماؤں کا یہ گروپ ـ جو مہم پر نکلا ہوا ہے ـ _ جو درحقیقت ایرانی قوم سے عبارت ہے _ تمام مشکلات پر غلبہ پائے گا اور [یہ قوم] اپنے سارے دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ اصول اور بنیاد یہ ہے۔ اگر یہ ساز و سامان ہو کوئی بھی مشکل ـ اپنے مکمل اور حقیقی معنوں میں ـ مشکل، نہیں ہے۔ اصل خطرہ کیا ہے؟ اصل اور حقیقی خطرہ یہ ہے کہ یہ قوم اس سازوسامان کو ہاتھ سے دے بیٹھے؛ یعنی محنت و کوشش کا جذبہ کھو جائے، سستی اور کاہلی سے دوچار ہوجائے، امید کا جذبہ ہاتھ سے دے بیٹھے، مایوسی کا شکار ہوجائے؛ صبر و استقامت کا دامن چھوڑ جائے؛ جلدبازی اور عجلت زدگی کا شکار ہوجائے؛ منصوبہ بندی اور منصوبہ سازی کو بھول جائے؛ لائحہ عمل کے فقدان اور تذبذب کا شکار ہوجائے؛ يہ خطرات ہیں۔ اگر ایک قوم اس اہم اور نمایاں جذبے کو ـ جو عزم و امید اور ایمان و کوشش و محنت اور تحرک کا آمیزہ ہے ـ برقرار رکھے، اس کے کوئی بھی مشکل مشکل نہیں اور کوئی بھی مسئلہ مسئلہ نہیں ہے۔
اب ہم لوٹ کر ایران اور ایران ایرانی عظیم قوم کے منظر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ جو بھی کہتا ہوں اور جس چیز کے بارے میں میں سوچتا ہوں وہ منطق کے مطابق ہو؛ ہم نعرے نہيں لگانا چاہتے۔ مختلف قسم کے مسائل ـ بطور خاص انقلاب کے مسائل ـ بارے میں من گھڑت باتیں کرنے سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کونسی چیز منطقی ہے، حقائق کیا ہیں۔

جاری ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button