ایران

حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی 23 ویں برسی کی رسومات

imam kumainiاسلامی جمہوریہ ایران ایسے مھمانوں کی میزبانی میں مشغول ہے کہ جو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی 23 ویں برسی کی رسومات میں شرکت کے لئے دور نزدیک کا سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ بیرون ممالک سے آنے والے ان مھمانوں میں ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ صحافی ، وکیل، علما، طلبہ و طالبات اور سیاسی و مذھبی شخصیات موجود ہیں۔ امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی برسی کی مناسبت سے سیمنار اور مجالس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جن میں ملکی مھمانوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی مھمان بھی شریک ہیں جو اس صدی کی سب سے عظیم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اسی طرح کی تقریبات دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی منائی جا رہی ہیں کہ جن میں امام خمینی رحمتہ اللہ کی عظیم انقلاب و اسلامی تحریک نیز امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں اور اسلامی بیداری کی تحریکوں میں امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کے ٹھوس اور بنیادی کردار کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک سیمنار کل پاکستان کے صوبے پنجاب کے مرکز لاہور میں گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کی زیرصدارت منعقد ہوا۔جس سے خطاب کرتے ہوئے مقرین کا کہنا تھا کہ انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی رہ نے امت مسلمہ کو اتحاد کا درس دے کر ثابت کر دیا کہ وہ کسی خاص فرقے کے نہیں بلکہ عالم اسلام کے رہنما ہیں۔ مقررین کا کہنا تھا کہ امام خمینی رہ نے فرقہ واریت کے خلاف جہاد کیا۔ جبکہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پنجاب نے کہا کہ امام خمینی رہ نے خود کو محراب و منبر تک محدود رکھنے کی بجائے الٰہی سیاست میں قدم رکھا اور قوم کو متحد کر کے اسلامی نظام پر جمہوری انداز سے متفق کیا۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی رہ کی فکر کی وجہ سے ایران ترقی یافتہ ملک بن گیا ہے۔ سیمنار کے مھمان خصوصی اسلامی جمہوریہ ایران کے صوبے فارس کے گورنر حسین صادق عابدین تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں عرب ممالک میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی تحریکوں کواسلامی انقلاب سے متاثر قرار دیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ سن 80 کے عشرے میں جب دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی اور کسی کو مستقل بنیادوں پر حکومت تشکیل دینے کی جرات نہ تھی، امام خمینی نے ان دونوں بلاکوں کی نفی کرتے ہوئے ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھی کہ جس میں قران و سنت کو ہر چیز پر فوقیت حاصل تھی اور مملکت کا سیاسی ڈھانچہ اسلامی جمہوریت پر استوار تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ حتی اسلامی نظام کے مدعی ممالک منجلہ سعودی عرب بھی مغربی بلاک سے اپنی وابستگی پر فخر محسوس کرتا تھا۔اس زمانے میں شمالی افریقہ اور عرب ممالک میں اسلامی انقلاب سے متاثر، اسلامی بیداری کے اثرات نظر تو آئے لیکن انہیں نہایت ہی سفاکی کے ساتھ یا تو کچل دیا گیا یا پھر خفیہ ہاتھوں کے ذریعے انہیں ان کے راستے سے ہٹا دیا گیا۔لیکن اسلامی انقلاب اور بانی انقلاب دنیا کے مستضعفین کے دلوں میں اپنا گھر بنا چکے تھے اور اسلامی اقدار کی طرف لوگوں کا روز افزوں رجحان کوئس ایسا موضوع نہیں تھا کہ جسے کچلا جاسکے لہذا جیسے ہی قوموں کو موقع ملا انہوں نے اس کا اظہار کردیا۔اگرچہ ایک بار پھر سامراجی ممالک کی طرف سے بیدار کی تحریکوں کو کچلنے اور یا انہیں منحرف کرنے سرتوڑ کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن اب یہ ان کے بس میں نہیں کہ وہ اسلانمی بیداری کی تحریکوں کے سامنے بندھ باندھ سکیں۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے افکار سے لوگوں کی آشنائی کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے امام خمینی کسی خاص مسلک اور مکتب فکر تک محدود نہیں ہیں اور ان کا لایا ہوا انقلاب حقیقی اسلامی انقلاب ہے۔ سن اسی کے عشرے میں سرزمین ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کو کبھی ایران کا انقلاب قراردیا گیا اور کبھی اس کو ایک شیعہ انقلاب قرار دے کر محدود کرنے کی کو.شش کی گئی لیکن بانی انقلاب اسلامی کی تدابیر اور فرزندان انقلاب کی کوششوں سے اس انقلاب کو نہ ایران کی جغرافیائی سرحدوں میں محصور کیا جاسکا نہ اسے ایک شیعہ انقلاب قرار دے دنیاکی عظیم سنی اکثریت کو اس دور کیا جا سکا۔ اما خمینی رحمتہ اللہ علیہ شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان اتحاد پر مکمل یقین رکھتے تھے اور اختلافات کو دشمن کی سازش گردانتے تھے۔ آپ کا کہنا تھا کہ شیعہ اور سنی آپس میں بھائی بھائی ہیں اور جو ان کے درمیان اختلاف کی بات کرتا ہے وہ شیعہ ہے نہ سنی بلکہ وہ سامراج کا ایجنٹ ہے۔ امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اقدامات سے یہ بات واضح کردی کہ وہ ساری دنیا میں اسلام کی سر بلندی چاہتے ہیں، چنانچہ عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن امریکہ کو دھتکاردیا اور غاصب اسرائیل کے کے ساتھ ایران کے سفارتی تعلقات کو مکمل طور سے منقطع کرکے صہیونی حکومت کے سفارتخانے کو ملت فلسطین کے اختیار میں دیدیا۔ مسلمانوں کے قبلہ اول پر صہونی تسلط کی ہمیشہ ہمیشہ کے نفی کرتے ہوئے قدس شریف کو عالم اسلام کا جز لاینفک قرادیا اور اس مسلے کو مسلمانوں کے دلوں میں زندہ کرنے کے جمعتہ الوداع کو عالمی یوم قدس سےمنصوب فرمایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کی تاریخ میں اختلاف کو ہفتہ وحدت منائے جانے پر زور دیا۔ اگرچہ سامراجی طاقتوں اور ان کے مقامی پٹھوؤں نے ایران کو تنہا کرنے کی اپنی کوششوں میں ناکامی کے بعد عراق کے ڈکٹیٹر صدام کے ذریعے ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ مسلط کردی لیکن اس کے باوجود وہ دنیا کے دیگر خطوں کے مسلمانوں اور امام خمینی کے درمیان فاصلہ حائل نہ کر سکے بلکہ بظاہر صدام کی جانب سے مسلط کردہ جنگ انقلاب کے پیغام کو تیزی کے ساتھ دنیا میں پہچانے باعث بنی اور یہ جنگ بھی دیگر سازشوں کی مانند دشمن کی شکست اور ہزیمت کا باعث بن گئی۔ الحمد للہ آج ایران اور ملت ایران جس مقام پر ہے اس سہرا یقینا بانی انقلاب اسلامی سرجاتا ہے یا اس کا سزاوار وہ قائد و رہبر نظر آتا کہ جسے دنیا امام خمینی کے برحق جانشین کی حیثیت سے جانتی ہے۔ 23 برس قبل جب امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی جانگداز رحلت کے بعد مسلم امہ کی سیاسی اور معنوی قیادت رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیتہ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے سپرد کی گئی اس وقت سے لیکر آج تک ایران بے پناہ ترقی کرچکا ہے اور کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں ایران اور ملت ایران کسی بیرونی طاقت کی محتاج ہو۔ دفاعی شعبے میں ایران مکمل طور سے خود کفیل ہے بلکہ دیگر ملکوں کو دفاعی سازو سامان فروخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایٹمی ٹکنالوجی اور یورنیم کی 20 فیصد تک افزودگی عمل انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ ٹکنالوجی بھی دیگر ملکوں کو برامد کرنے کے اپنی آمادگی کا اعلان کرچکا ہے۔ خلامیں راکٹ بھیج کر اس میدان میں بڑی شیطانی طاقتوں کی بلا دستی کو ختم کرچکا ہے اور اگلے مرحلے میں اپنے خلابازوں کو روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ سب اپنے قوت بازو اور اللہ کی لایزال طاقت پر بھروسہ کر کے ہی ممکن ہوا ہے۔ اس لئے کہ ایران پچھلے 33 برسوں سے اقتصادی محاصرے میں ہے خصوصا ٹکنالوجی کے میدان میں دنیا نے ایران کا مکمل طور سے بائیکاٹ کر رکھا ھے۔
آ

متعلقہ مضامین

Back to top button