ایران

ولایت کے مسئلے پر آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای کی تقریر

shiite_rehber_ayatullah_khaminai-150x150

ولایت کے مسئلے پر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای کی تقریر کا اقتباس؛ (1974) / ولایت فقیہ کے بارے میں ایک اہم سوال کا مفصل جواب.

فرماتے ہیں

“۔۔۔ ولایت قرآنی اصطلاح میں ایک ہی فکر کے حامل اور ایک ہی ہدف کے حصول کے لئے کوشاں انسانوں کی پیوستگی، یگانگت و یک صدائی، یکجہتی

 اور شدید اتصال و پیوند کا نام ہے، یہ لوگ ایک راہ پر گامزن ہیں اور ایک ہی مقصد کے حصول کے لئے کوشاں اور متحرک ہیں، اور ایک ہی فکر اور ایک ہی عقیدے کو تسلیم اور قبول کرلیا ہے۔ کیوں؟

 

اس لئے کہ نیست و نابود نہ ہوں، ہضم و تحلیل نہ ہوں، قرآن میں اس کو ولایت کہا جاتا ہے۔ پیغمبر خدا (ص) ابتدائے کار میں مسلمانوں کو اسی پیوستگی اور اتصال و تعلق کے ذریعے زیور وجود سے آراستہ فرماتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے متصل کردیتے ہیں، ان کو بھائی بھائی بنادیتے ہیں، انہیں ایک ہی جسم اور ایک ہی پیکر میں تبدیل کردیتے ہیں اور پھر ان ہی کے ذریعے امت مسلمہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔

پیغمبر خدا اس طرح اسلامی معاشرہ معرض وجود میں لاتے ہیں۔ ان کے درمیان استوار ہونے والے پیوند و اتصال کے ذریعے دشمنوں، مخالفین، معاندین، مخالف محاذوں ـ جن کا آپ انشاءاللہ آیات قرآنی میں مشاہدہ فرمائیں گے ـ کا مقابلہ کرکے ان کے تسلط کا راستہ روکتے ہیں، انہیں دیگر محاذوں سے الگ کردیتے ہیں اور ان کے درمیان [یعنی اسلامی محاذ اور دیگر محاذوں] کے درمیان سرحدیں واضح کردیتے ہیں۔ انہیں یہود کے محاذ میں، نصاری کے محاذ میں اور مشرکین کے محاذ میں شامل ہونے سے باز رکھتے ہیں اور ان کی صفوں کو مضبوط و مستحکم اور طاقتور بنانے کی بھرپور اور زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے ہیں۔

کیونکہ اگر وہ ایسے نہ ہوں، اگر ان کے درمیان ولایت نہ ہو، اگر وہ سو فیصد ایک دوسرے سے پیوستہ نہ ہوں اور ان کے درمیان اختلاف واقع ہوجائے تو وہ اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے عاجز ہوں گے جو ان کے کندھوں پر رکھی گئی ہے اور اس بار امانت کو سرمنزل مقصود تک نہ پہنچاسکیں گے۔

بعد کے مراحل میں اسلامی معاشرہ ایک عظیم امت میں تبدیل ہوجاتا ہے، پھر بھی ولایت کا ہونا ضروری ہے اور یہ کہ ایک امت میں کس طرح کی ولایت لازم ہے اور کیوں لازم ہے، اس کے بارے میں بعد میں بحث کریں گے۔ لیکن اگر ہم یہیں تھوڑا سا غور کریں اہل تشیع کے ہاں ولایت کے معنی و مفہوم کے کچھ حصے کا ادراک کرسکیں گے۔ کیونکہ ہم نے کہا کہ ایک ظلمانی دنیا، ایک جاہلی دنیا میں ایک چھوٹے سے گروہ کے لئے ایک دوسرے سے متصل و مرتبط ہونا ضروری ہے تا کہ ان کی بقاء کو یقینی بنایا جاسکے۔

اگر وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور متصل نہ ہوں، ان کی بقاء اور ان کی حیات کا دوام ناممکن ہوگا اور ہم نے مثال کے طور پر آغاز اسلام پر مکہ معظمہ کے جاہلی معاشرے میں یا ہجرت کے بعد مدینہ میں مسلمانوں کے گروہ کی طرف اشارہ کیا۔

اس قاعدے کی دوسری مثال تاریخ اسلام کے آغاز پر شیعہ مخالف اور اسلام مخالف حکومتوں میں شیعیان اہل بیت ـ علیہم السلام ـ کا چھوٹا سا گروہ ہے۔ یہ کیونکر ممکن تھا کہ شیعہ باقی رہے؟ وہ تشہیراتی ہتھکنڈے، وہ گھٹن اور وہ تنگیاں، وہ اذیتکدے اور وہ عقوبت خانے، وہ آزار و اذیت اور وہ قتل و غارت، اتنے سارے مصائب اور اتنی ساری رکاوٹیں! کیا ایسی صورت میں ایک گروہ کی بقاء ممکن تھی؟ وہ بھی “شیعہ” کی طرح کا ایک فکری گروہ، جو اپنے ہمعصر قوتوں کے ساتھ مسلسل تضاد میں تھا اور ہمیشہ کے لئے ان مسلط قوتوں کے لئے درد سر کا باعث تھا!؟

[مگر وہ گروہ باقی رہا؛ اب سوال یہ ہے کہ] یہ گروہ رہا کیونکر؟

کیونکہ ولایت نے شیعیان اہل بیت (ع) کے درمیان ایک عجیب پیوستگی، ایک عجیب اتصال اور ایک عجیب ہمراہی اور ہمگامی کا باعث بن گئی تھی؛ تا کہ اس ولایت کے سائے میں تشیع کا سلسلہ گوناگوں محاذوں کے بیچ زندہ اور محفوظ رہے۔

آپ ایک عظیم دریا کا تصور کرلیں جس میں کئی اطراف سے پانی گرتا ہے؛ پانی کا بہاؤ بہت تند و تیز ہے، دریا کی سطح ناہموار ہے؛ بھنور معرض وجود میں آتا ہے۔ پانی کی تہہیں ایک دوسرے پر لڑھکتی ہیں، مخالف سمتوں سے آنے والا پانی اس دریا کے فرش میں داخل ہوتا ہے اور پانیوں کی ٹکر سے ان کی شدت ٹوٹ جاتی ہے، پانی کی لہریں ایک دوسرے کے سروں سے سر ٹکراتی ہیں اور دریا آگے بڑھتا ہے۔ ان مکدر اورگدلے پانیوں کے بیچوں بیچ نہایت شیریں اور گوارا پانی کی ایک دھار بھی آتی ہے جو صاف و شفاف، نظیف اور روشن ہے جو گدلے پانیوں کے بیچ اپنی حرکت جاری رکھتی ہے اور اس دریا کے فرش میں عجیب انداز سے آگے کی طرف چلتی ہے۔ اور سالم رہتی ہے اور عجیب یہ ہے کہ یہ پانی ہرگز گدلے پانیوں میں مخلوط نہیں ہوتا، اس کا رنگ ہرگز خراب نہیں ہوتا، کڑوے اور نمکین اور کھاری پانی کا مزہ اختیار نہیں کرتا، اپنی اسی شیرینی، خلوص اور گدلے پن سے بیزاری کو جاری رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔

آپ اسی دریا سے بنوامیہ اور بنو عباس کے خلفاء کے دور میں عالم اسلام کے حالات کی تشبیہ کریں جس میں مختلف قسم کے فکری، سیاسی اور عملی سلسلے ایک دوسرے کے خلاف سرگرم اور متحرک تھے۔ ابتداء سے انتہا تک جب آپ نگاہ ڈالتے ہیں تو تشیع کے بہاؤ کو دیکھتے ہیں جو اس عظیم طوفان اور عجیب سیلاب میں پانی کی ایک باریک سی دھار کی مانند بہت ناچیز اور بہت چھوٹا نظر آتا ہے۔ ہے تو بہت چھوٹا سی دھار مگر اس نے اپنی حفاظت کرلی ہے۔ ہرگز مکدر نہیں ہوئی؛ اس کا مزہ ہرگز خراب نہیں ہوا ہے۔ اس نے اپنے خلوص اور اپنی شفافیت کو ہرگز نہیں کھویا ہے۔ اور ہرگز دوسرے پانیوں کے مزے اور رنگ و بو سے متأثر نہیں ہوئی ہے۔ زندہ اور باقی ہے اور اس نے اپنی حرکت جاری رکھی ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس چیز نے اس کی بقاء کو یقینی بنایا ہے؟

تشیع کے اس بہاؤ کی بقاء کا سبب کونسی چیز ہے؟

اس کی بقاء کا عامل اسی ولی کا وجود ہے جو لوگوں اور اپنے پیروکاروں کے درمیان ولایت کی سفارش کرتا ہے، انہیں ایک دوسرے سے متصل کردیتا ہے، انہیں ایک دوسرے پر مہربان کردیتا ہے، ولایت کو فروغ دیتا ہے اور اس محاذ کے افراد کے درمیان پیوستگی کی حفاظت کرتا ہے۔

وہ شیعہ ولایت، جس پر اتنی ساری تأکید ہوئی ہے، اس کا ایک پہلو یہ ہے۔ اس کے دوسرے پہلو بھی ہیں جن کا جائزہ لیا جائے گا۔ پوری بات یہی نہیں ہے۔ یہ اس موضوع کا ایک ہی رخ اور ایک ہی پہلو ہے۔ پس ولایت یعنی پیوستگی، قرآن مؤمنین کو ایک دوسرے کے اولیاء قرار دیتا ہے، اور ان لوگوں کو ایک ہی محاذ کے سپاہی اور ایک دوسرے سے پیوستہ اور متصل قرار دیتا ہے جو سچے ایمان کے مالک ہیں؛ اور ہماری روایات و احادیث میں شیعہ کو مؤمن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس منطق میں ایمان سے مراد خاص شیعہ طرز فکر کا حامل ہونا جس کی بنیاد “ولایت” ہے۔

یعنی اسلام کو اسی نگاہ سے دیکھنا جس نگاہ سے شیعہ اسے دیکھتا ہے؛ اور اسلام کو اسی منطق سے ثابت کرنا جس منطق سے شیعہ اس کا اثبات کرتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں ـ ائمہ (ع) ـ نے شیعیان اہل بیت (ع) کو اس طرح سے متحد، پیوستہ، متصل اور بھائی بھائی کردیا ہے تا کہ وہ (ائمہ (ع)) تاریخ میں شیعہ سلسلے کی حفاظت کرسکیں۔ ورنہ تشیع ہزار بار نیست و نابود ہوچکا ہوتا، اس کے افکار ہزار بار ہضم و تحلیل ہوچکے ہوتے؛ جس طرح کہ دیگر کئی فرقوں اور مکاتب کا مقدر یہی ہوا، اپنا رنگ کھو گئے، نیست و نابود ہوگئے۔۔۔”

………..

مأخذ:

جمہوری اسلامی پارٹی میگزین شمارہ 36 ـ ستمبرـ اکتوبر 1981۔

 

ایک سوال اور اس کا جواب:

ـ حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ سے قبل کونسے علماء ولایت فقیہ کے قائل تھے؟

جواب:

بہ نام خدا

جن مثالوں کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہیں:

٭ شیخ الرئیس بو علی سینا اپنی کتاب الشفاء میں، فارابی مدینہ فاضلہ میں ولایت کے اثبات میں دلائل دے چکے ہیں۔

٭ علامہ یوسف بن مطہر حلی رحمۃاللہ علیہ (متوفی 726 ہجری) ـ جو فقہ میں خواجہ نصیرالدین طوسی رحمۃاللہ علیہ کے استاد اور فلسفہ و ریاضیات میں ان کے شاگرد تھے اور جو ایران میں تشیع کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں ـ نے اپنی کتابوں میں امام معصوم (ع) کی غیبت کے دور میں ولایت و حکومت کو شیعہ فقہاء کا حق مسلم قرار دیا ہے۔

٭ غمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم فرماتے ہیں: “اگر ایک ملت کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے سپرد کی جائے جس سے زیادہ عالم و دانا افراد اس ملت میں موجود ہوں اس ملت کی حالت ہمیشہ روبہ زوال ہوگی اور وہ ملت گراوٹ اور سقوط کی کھائی کی جانب روان دوان رہے گی جب تک وہ ملت اپنے طے کردہ راستے سے واپس نہیں لوٹتی اور حکومت کو اپنے داناترین فرد کے سپرد نہیں کرتی۔

٭ تمام شیعہ علماء و مجتہدین نظریۂ ولایت فقیہ کو تسلیم کرتے ہیں؛ لیکن بعض علماء ولایت فقیہ کی حدود و اختیارات میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔

٭ ولایت فقیہ شیعہ فقہ کا ایک نظریہ ہے جو غیبت کے زمانے میں جائز و مشروع سیاسی نظام کی تشریح کرتا ہے۔

٭ یہ نظریہ تازہ اور نیا نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود تھا جو تھیوری کی شکل میں تھا اور امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے اس کو عملی جامہ پہنایا اور اسلامی حکومت اور نظام ولایت کی بنیاد رکھی۔

٭ ناصر الدین شاہ کے زمانے میں انگریزوں کی تمباکو کمپنی نے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے طرز پر ایران کو بھی برطانوی کالونی میں تبدیل کرنے کی کوشش کے سلسلے میں ایران میں تمباکو کی صنعت اپنے قبضے میں لے لی تو شیخ اعظم مرتضی انصاری رحمۃاللہ علیہ کے بعد عالم تشیع کے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید محمد حسن شیرازی (میرزائے کبیر شیرازی المتوفی 1312 ہجری) رحمۃاللہ علیہ نے تہران کے تاجروں کے استفتاء کے جواب میں ایک حکم دیا اور تمباکو کو حرام قرار دیا، چونکہ ان کا حکم حکومتی حکم تھا اور دیگر فقہاء پر بھی اس کی تعمیل واجب تھی لہذا ایران کے بڑے علماء و مراجع نے ان کی اطاعت کی۔ یہ حکم ایک قضائی ((()))) حکم نہ تھا جو دو یا چند افراد میں کسی موضوع پر تنازعے کی بنیاد پر جاری کیا جاتا ہے بلکہ مسلمانوں کے مفادات کی بنیاد پر انھوں نے یہ حکم صادر فرمادیا تھا۔ اور جب تک اس حکم کی بنیاد اور اس کا عنوان و سبب یعنی دخانیات کے ضمن میں انگریزی استعمار کا خطرہ موجود رہا، یہ حکم بھی باقی رہا۔ یہ حکم ولایت کا حکم تھا اور دینی حاکم کا حکم تھا۔

٭ آیت اللہ العظمی میرزا بزرگ کے بعد مرجع تقلید آیت اللہ العظمی میرزا محمد تقی شیرازی (متوفی 1338 ہجری) تھے جنہیں میرزائے صغیر بھی کہا جاتا ہے نے اسلامی قلمرو کے خلاف انگریزی جارحیت پر اہل سنت کے علماء کے ہمزبان و ہمصدا جہاد کا حکم صادر فرمایا ـ گو کہ انھوں نے اس حکم کو “حکم دفاع” کا نام دیا اور اس زمانے کے بزرگ علماء بذات خود محاذ جنگ پر گئے اور انگریزی جارحیت کے خلاف لڑے۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے والوں میں آیت اللہ محمد کاظم آخوند خراسانی “صاحب الکفایہ” بھی شامل تھے۔

میرزا محمد تقی کا یہ حکم بھی حکومتی اور ولایتی حکم تھا اسے لئے ان کے ہم پلہ علماء کو بھی ان کے اس حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔

ان سے پہلے آیت اللہ العظمی شیخ جعفر کاشف الغطاء رحمۃاللہ علیہ (متوی 1229 ہجری) نے اپنی استدلالی فقہ میں ولایت فقیہ اور حکومت فقہاء پر بحث کی ہے۔

ان سے متأخر علماء میں آیت اللہ العظمی ملا احمد نراقی (متوفی 1245 ہجری) رحمۃاللہ علیہ، ولی فقیہ کا اثبات کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ وہ تمام شئون و اختیارات جو حکومت کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کو حاصل ہیں ولی فقیہ کو بھی حاصل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قارئین و صارفین سیاسی اسلام اور نظریۂ ولایت کے بارے میں کامنٹس دے سکتے ہیں، سوال پوچھ سکتے ہیں اور کامنٹس میں دیئے گئے سوالات کا جواب بھی دے سکتے ہیں۔۔۔ آئیے بسم اللہ

متعلقہ مضامین

Back to top button