مقالہ جات

وصیتِ امام علی علیہ السلام

WASIYATاے لوگو! ہر شخص اُسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے جِس سے وہ راہِ فرار اِختیار کئے ہوئے ہےاور جہاں زِندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہےوہی حیات کی منزلِ مُنتہا ہے۔موت سے بھاگنا اُسے پا لینا ہے۔میں نے اِس موت کے چھُپے ہوئے بھیدوں کی جُستجُؤ میں کِتنا ہی زمانہ گُزارا مگر مشیّتِ ایزدی یہی رہی کہ اِس کی (تفصیلات) بے نِقاب نہ ہوں۔اُس کی منزِل تک رسائی کہاں۔وہ تو ایک پوشیدہ عِلم ہے۔

تو میری وصیّت یہ ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤاور محمّد صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سُنّت کو ضائع و برباد نہ کرو۔اِن دونوں ستونوں کو قائم و برقرار رکھو اور اِن دونوں چراغوں کو روشن کئے رہو۔جب تک مُنتشر و پراگندہ نہیں ہوتے تُم میں کوئی بُرائی نہیں آئے گی۔
تُم میں سے ہرشخص اپنی وُسعت بھر بوجھ اُٹھائے۔نہ جاننے والوں کا بوجھ بھی ہلکا رکھا گیا ہے۔(کیونکہ) اللہ رحم کرنے والا دیِن سیدھا اور پیغمبر عالِم و دانا ہے۔
میں کل تُمہارا ساتھی تھا اور آج تُمہارے لئے عِبرت بنا ہوا ہوُں۔ اور کَل تُم سے چھُوٹ جاؤں گا۔خُدا مُجھے اور تُمہیں مغفرت عطا کرے۔
اگر اِس پھِسلنے کی جگہ پر قدم جمے رہے تو خیر اور اگر قدموں کا جماؤ اُکھڑ گیا تو ہم اِنہی (گھَنی) شاخوں کی چھاؤں ، ہوا کی گُزر گاہوں اور چھائے ہوئے ابر کے سایوں میں تھے۔(لیکِن ) اِس کے تہ بہ تہ جمے ہوئے لکے چھٹ گئے اور ہوا کے نِشانات مِٹ گئے۔
میں تُمہارا ہمسایہ تھا کہ میرا جِسم چند دِن تُمہارے پڑوس میں رہااور میرے مرنے کے بعد مُجھے جسدِ بے رُوح پاؤ گے کہ جو حرکت کرنے کے بعد تھَم گیااور بولنے کے بعد خاموش ہو گیا۔تاکہ میرا یہ سکون اور ٹھہراؤ اور آنکھوں کا مُندھ جانا اور ہاتھ پیَروں کا بے حِس وحرکت ہو جانا تُمہیں پند و نصیحت کَرےکیونکہ عِبرت حاصِل کرنے والوں کے لئے یہ( منظر) بلیغ کَلموں اور کان میں پَڑنے والی باتوں سے زیادہ موعظت و عِبرت دِلانے والا ہوتا ہے۔
میں تُم سے اِس طرح رُخصت ہو رہا ہوُں ،جیسے کوئی (کسی کی) مُلاقات کے لئے چشمِ بہ راہ ہو۔کَل تُم میرے اِس دور کو یاد کرو گےاور میری نیّتیں کھُل کر تُمہارے سامنے آجائیں گی۔اور میری جگہ کے خالی ہونےاور دُوسروں سروں کے اِس مقام پر آنے سے تُمہیں میری قَدر و منزِلت کی پہچان ہوگی۔
نہجُ البلاغہ-خطبہ-147

متعلقہ مضامین

Back to top button