مقالہ جات

سپاہ صحابہ کی مساجد – بارود اور دہشت گردوں کے ٹھکانے

tweet56یہ رکشہ میں بارودی مواد یا تو مدرسے میں لایا جارہا تھا یا وہاں سے کہیں آکے منتقل کیا جانا تھا اب یہ کسی وجہ سے پھٹ گیا اور پولیس اس کو خود کش حملہ آور کہہ رہی ہے جبکہ میرے خیال میں مسجد اور مدرسہ دونوں ہی ٹارگٹ نہیں تھے ،دیوبندی مدارس اور تبلیغی مراکز بہترین آڈے بنتے جارہے ہیں جہآں بارود جمع کیا جاتا ہے ،بم بنائے جاتے ہیں

،ان کو استعمال کی تربیت دی جاتی ہے اور پھر یہیں سے خود کش حملہ آور یا ٹارگٹ کلر روانہ کئے جاتے ہیں اور یہ مدارس ہدف کی ریکی اور اس سے متعلقہ دیگر امور میں بھی استعمال ہورہے ہیں ،ان مدارس میں آج کل زیادہ ہولڈ اینٹی شیعہ گروہوں کا ہے جو بھرپور طریقے سے شیعہ کے خلاف دھشت گردانہ مہم چلارہے ہیں ایسے لگتا ہے کہ ابھی یہ کام انتہائی ابتدائی سطح پر ہے ،ان لوگوں کے پاس اعلی سطح کے ٹرینرز کی کمی ہے ،اچھے ڈیٹونٹرز نہیں ہیں اور پھر ابھی یہ کام مکمل منظم دائرے میں بھی یہ نہیں کرپارہے
لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی کیونکہ ریاست جس طرح سے بے دلی ،نیم رضامندی اور کہیں کہیں دوغلی پالیسی کے ساتھ کام کررہی ہے اس سے یوں لگتا ہے کہ لشکر جھنگوی والے ایک منظم نیٹ ورک قائم کرنے میں بہت جلد کامیاب ہوجائیں گے ،پھر یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف تو اہل سنت والجماعت نے ملک اسحاق ،غلام رسول شاہ وغیرہ کو اپنے سیاسی چہرگی سے الگ کیا ہے اور مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ اہل سنت والجماعت کو ایک ملیٹنٹ سیاسی جماعت بنانے کی طرف بہت تیزی سے سفر کیا جارہا ہے اور جبکہ اس کے جو مسلح جنگجو ہیں ان کے آپریشنز خفیہ اور بظاہر اے ایس ڈبلیو جے سے ہٹ کر کرانے کی حکمت عملی جو ملک اسحاق وغیرہ کے آگے آنے سے دب گئی تھی دوبارہ نافذ العمل کی جارہی ہے
تاکہ اے ایس ڈبلیو جے پر پڑنے والا دباؤ ختم ہو اور یہ ساسی مذھبی بنیادوں پر آگے بڑھے ،ایک طرف ملک اسحاق پر مقدمے ختم کئے جارہے ہیں ،غلام رسول شاہ کو رہا کردیا گیا ہے اور فورتھ شیڈول کے بہت سے دیوبندی شدت پسند پنجاب میں رہا کردئے گئے ہیں تو دوسری طرف اہل سنت والجماعت بطور سیاسی مذھبی جماعت دیوبندیوں میں مقبولیت حاصل کررہی ہے اور اسے پنجاب ،اندرون سندھ ،کراچی ،خیبر پختون خوا ،بلوچستان ،گلگت بلتستان ،کشمیر میں تیزی سے دیوبندی مدارس ،مساجد اور عام دیوبندی کمیونٹی کے اندر قبول عام مل رہا ہے اور فضل الرحمان کی پارٹی اس پیش رفت سے خاصی ڈسٹرب نظر آرہی ہے ،فضل الرحمان پر یہ جو دباؤ ہے اس سے خود فضل الرحمان کی پارٹی بھی زیادہ اینٹی شیعہ stance لینے پر مجبور ہوجائے گی ،اس وقت دیوبندی کمیونٹی کے مولوی ،عام دیوبندی ،دیوبندی نوجوان ان میں اینٹی شیعہ جذبات اور خیالات بہت زیادہ مقبول ہیں اور اس کا دباؤ بہت شدید ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button