مقالہ جات

دیوبندی ڈسکورس شہری زندگی کی جبری سماجی،مذھبی،سیاسی صورت گری کررہا ہے

DEYOBANDI6جیو،جنگ -آئی ایس آئی ساگا اپنے بہت سے ذیلی رنگوں کو دھیرے دھیرے ظاہر کررہا ہے اور اس ساگا میں آئی ایس آئی نے قدرے تاخیر سے ایک رنگ اور شامل کیا ہے جو مذھبی منافرت اور مذھبی تیر وتفنگ کے ساتھ لیس ہے اور اس ساگا میں اس عنصر کی زرا دیر سے شرکت یہ ظاہر کرتی ہے کہ جیو-جنگ پر ملک دشمنی،غداری اور ہندوستانی ایجنٹ ہونے کے فتوؤں نے زیادہ اثر نہیں کیا پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اس کا بازوئے شمشیر زن کو اس موجودہ لڑائی میں جنگ اور جیو کے خلاف ٹھیک ہتھیار اس ادارے کی اپنی ایک اینکر نے اپنے مارننگ شو کی ریٹنگ کو مزید اونچا کرنے کے لیے جو جواء کھیلا تھا وہ غلط ٹاغمنگ کی وجہ سے خود اس کے اپنے حق میں تباہ کن ثابت ہوا بلکہ اس نے ملٹری اسٹبلشمنٹ کے بازوئے شمشیر زن کو یہ موقعل فراہم کردیا کہ وہ اپنے لے پالک مذھبی جنونیوں کا ٹھیک ٹھیک استعمال کرسکے اور جہاں وہ جیو-جنگ گروپ کے مقابلے میں ہلکے پڑرہے تھے وہاں بھاری پرسکیں اس وقت ملٹری اسٹبلشمنٹ کے سب سے بڑے لے پالک دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر شیعہ ،بریلوی اور دیگر مذھبی برادریوں اور اس ملک کے ماڈریٹ،اعتدال پسند لوگوں کے خلاف باقاعدہ تکفیری اور فسطائی مہم چلانے والی تنظیموں جن میں اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان،عالمی مجلس ختم نبوت،جمعیت علمائے اسلام س و نظریاتی پیش پیش ہیں کو یہ موقعہ میسر آگیا ہے کہ وہ پاکستان کے بلاسفمی لاءز کے دائرے کو وسیع تر کریں بلکہ نئی قانون سازی کی راہ ہموار کریں جس کے زریعے وہ اہل سنت بریلوی،شیعہ اور دیگر ماڈریٹ حلقوں پر زمین تنگ کرسکیں اس وقت دیوبندی-وہابی انتہا پسند تنظیمیں ناموس رسالت،ناموس اہل بیت اور ناموس صحابہ کرام کو خطرے میں بتلاکر ایسے قوانین کی راہ ہموار کرنے کی سازش کررہی ہیں جن کے زریعے سے آگے چل کر اس ملک کے تمام اعتدال پسند طبقات کا ناطقہ بند کیا جاسکے دیوبندی اور سلفی اسلام کے داعی یہ مذموم ایجنڈا آج سے نہیں رکھتے بلکہ ان ہر دو مکاتب فکر کے اندر سے شیعہ-بریلوی مخالف ریڈیکل لہر میں شدت 80ء کی دھائی میں آئی 80ء کی دھائی میں وہابی مکتبہ فکر میں یہ جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ اور سعودی عرب کے مقرب خاص مولوی احسان اللہی ظہیر تھے جنھوں نے شیعہ اور سنّی بریلویوں کے خلاف زبردست مہم شروع کی انھوں نے دو عربی زبان میں کتب لکھیں ،ایک کا نام تھا “الشیعہ” اور دوسری کتاب کا نام تھا”البریلویہ”اور ان دونوں کتابوں کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ شیعہ اور بریلوی دونوں سے اسلام کے جملہ عقائد اور اسلام کی بزرگ ہستیوں کی ناموس کو سخت خطرہ لاحق ہے اسی وقت دیوبندی مکتبہ فکر کے تمام مولویوں میں یکساں طور پر شیعہ مخالف خیالات اور جذبات کا ظہور ہوا اور ان شیعہ مخالف خیالات کو باقاعدہ ایک تحریک کی شکل مولوی ضیاءاللہ قاسمی بانی چئیرمین سپریم کونسل سپاہ صحابہ پاکستان و والد مرکزی جنرل سیکرٹری پاکستان (دیوبندی)علماء کونسل زاہد القاسمی،مولوی سرفراز گکھڑوی والد زاہد الراشدی مہتمم نصرۃ العلوم گوجرانوالہ،مولوی یوسف لدھیانوی جامعہ بنوریہ نے فکری طور پر دی اور اس کی سیاسی شکل کو مولوی حق نواز جھنگوی،مولوی ضیاء الرحمان فاروقی،ایثار القاسمی،مولوی اعظم طارق وغیرہ نے دی آج اس سیاسی شکل کی رہنمائی اور سایسی قیادت اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان،عالمی مجلس ختم نبوت،جے یوآئی (ف،س،نظریاتی وغیرھم)،پاکستان علماء کونسل وغیرہ کررہی ہیں اور ان میں سے اکثر جماعتوں کے لیگل ونگ پاکستان میں ایک طرف تو بلاسفمی ایکٹ کے تحت شیعہ،سنّی بریلوی اور سیکولر طبقات کے خیال مقدمات درج کرانے اور ان حیات تنگ کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف یہ تنظیمیں پوری کوشش کررہی ہیں توھین صحابہ مخالف بل کو قومی اسمبلی سے پاس کرایا جائے اور اس طرح سے شیعہ کو ریاستی سطح پر کافر،غیر مسلم قرار دلوایا جائے اور ان سے بھی وہی سلوک کیا جائے جو احمدیوں سے کیا جارہا ہے پاکستان میں ناموس رسالت،ناموس اصحاب رسول اور ناموس اہل بیت کو اگر حقیقی طور پر کسی طرف سے کوئی حظرہ لاحق ہے تو وہ شیعہ،بریلوی،عیسائی،ہندؤ اور احمدی برادریاں نہیں ہیں بلکہ ان سب محترم اور معزز شخصیات کی ناموس اور ان کے مقام کو دیوبندی اور وہابی مکاتب فکر کے تکفیری اور فسطائی انتہا پسند گروہوں سے خطرہ لاحق ہے جو تعظیم انبیائے کرام،اولیائے عظام اور اہل بیت اطہار کو شرک اور ان سے توسل و استمداد کو بدعت و منافی توحید قرار دیتے ہیں پاکستان میں دیوبندی اور سلفی ڈسکورس ایسے ہیں جو پاکستان کی اکثریت مذھبی برادریوں کے ڈسکورس کے لیے حقیقی خطرے کا سبب بن چکے ہیں دیوبندی انتہا پسند ڈسکورس ایک طرف تو شیعہ برادری پر حملہ آور ہے تو دوسری طرف یہ بہت شدت کے ساتھ خود اہل سنت بریلوی کے ڈسکورس پر حملہ کررہا ہے اور یہ اہل سنت بریلوی کی عددی اکثریت اور برتری کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کررہا ہے دیوبندی ڈسکورس جہاں بریلوی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور اہل تشیع کی نسل کشی میں ملوث ہے وہیں یہ ڈسکورس وہابی ڈسکورس کی طرح جہاد ،رد شرک و بدعت کے نام پر اور غلبہ اسلام کے نام پر دھشت گردی کو ناگزیر ٹھہراچکا ہے اور اس میں عسکریت پسندی گھل مل گئی ہے ہم نے دیوبندی ڈسکورس کی توسیع پسندانہ اور جارحیت پر مبنی فطرت کو بہت پہلے پہچان اور شناخت لیا تھا اور اس حوالے سے اپنے بلاگ اور تجزئے اور ادارئے شایع کرنا شروع کئے تھے ہماری اس اپروچ کو ابتداء میں بہت سے سیکولر،لیفٹ کے لوگوں نے فرقہ پرستی سے تعبیر کیا اور اسے تنگ نظری کہنے سے بھی گریز نہ کیا لیکن دیوبندی ڈسکورس کی اس جارحانہ متشدد اور غلبہ و قبضہ کرنے کی فظرت پر بہت سے سیکورٹی امور کے معروف ماہر بھی کھل کر لکھ رہے ہیں اتوار 18 مئی 2014ء کے روزنامہ ڈان کے ادارتی صفحہ پر سیکورٹی امور کے ممتاز ماہر محمد عامر رانا نے “انتہا پسندی کی کھوج”کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا ہے اور اس آرٹیکل میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ دیوبندی ڈسکورس پاکستان کی شہری زندگی کی مذھبی،سماجی اور سیاسی صورت گری کررہا ہے اور یہ ڈسکورس بریلوی ڈسکورس کو اپنے ماتحت لاتے ہوئے پاکستان کے اکثریتی مذھبی ڈائی سپورا کو اپنے زیرنگین لانے میں کوشاں ہے محمد عامر رانا نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ دیوبندی ڈسکورس کی جو عسکریت پسند جہت ہے اس کا سلفی وہابی تحریکوں کے ساتھ بھائی چارہ ہے اور یہ بھی اعتراف موجود ہے کہ دیوبندی مذھبی پیشوائیت میں شیعہ مخالفت میں کوئی دو رائے نہین ہیں اور پاکستان میں دیوبندی ڈسکورس میں شیعہ ژحالف تنظیمیں اپنی رسائی اور سرگرمیوں کے دائرے بتدریج بڑھاتی چلی جارہی ہیں 

پاکستان میں المیہ یہ رونما ہوا ہے کہ شیعہ،بریلوی دیوبندی ڈسکورس کا ٹھیک ٹھیک اداراک کرنے کی بجائے ایک دوسرے طریقے سے اسی ڈسکورس کو تقویت دینے میں مصروف ہے اور اس کا ثبوت حال ہی میں جیو-جنگ گروپ کے خلاف ان کی دیوبندی ڈسکورس کو اپنانے کی روش ہے پاکستانی سیاست کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیکولر سنٹر لیفٹ اور لیفٹ پارٹیاں ایک تو اپنے تنظیمی ڈھانچے گراس روٹ لیول پر مضبوط نہیں کرپائی ہیں اور دوسرا انھوں نے ساٹھ اور ستر کی دھائیوں میں پاکستان کے مذھبی ،سماجی اور ثقافتی ڈھانچے میں مذھبی انتہا پسندی کے خلاف جو سماجی-ثقافتی سطح پر ریشے باندھے تھے وہ بکھر جکے ہیں جبکہ اس کے برعکس سنٹر رائٹ اور فار رائٹ مسلم لیگ نواز،جماعت اسلامی ،پاکستان تحریک انصاف ،مسلم لیگ قائد اعظم جماعت الدعوۃ ،جمعیت اہل حدیث اور دیوبندی سنٹر رائٹ جماعتوں کو دیوبندی انتہا پسند ڈسکورس سے مطابقت کرنے اور اس سے ہم آہنگ ہونے پر کوئی تحفظات اور اعتراض نہیں ہیں اور مسلم ليگ نواز،مسلم لیگ ق ،پی ٹی آئی کو اپنے شیعہ ،بریلوی ووٹرز اور کارکنوں کی بے بصیرتی اور عاقبت نااندیشی کا اسقدر پختہ یقین ہے کہ وہ ان کی بقاء اور سلامتی کے سوال کو زیر بحث لانا ہی ضروری خیال نہیں کرتیں یہ صورت حال بہت الارمنگ ہے اور واضح طور خطرے کی گھنٹی ہے کس قدر حیرت کی بات ہے کہ کس الارمنگ صورت حال کا ادراک اب محمد عامر رانا جیسے سیکورٹی ماہرین کو توہورہا ہے لیکن یہ ادراک شیعہ اور بریلوی کی سیاسی-مذھبی قیادت کو نہیں ہورہا ہے اور اندھی کھائی میں گرتے چلے جانے کی روش جاری وساری ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button