مقالہ جات

شہادت حضرت بی بی زینب سلام اللہ علیھا

zainabکا بدلہ لینے کیلئے اکساتی تھیں، جس وقت عبداللہ بن زبیر نے مکہ میں قیام کیا اور لوگوں کو امام حسین (علیہ السلام) کے خون کا بدلہ لینے اور یزیدکو خلع کرنے پر مجبور کیا تو اس بات کی خبر اہل مدینہ کو بھی ملی، حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) نے ایک خطبہ دیا اور لوگوں کو یزید کے خلاف اور امام حسین (علیہ السلام) کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اکسایا۔ عمرو بن اشدق (مدینہ کے حاکم) نے یزید کو پورا واقعہ لکھا، یزید نے جواب دیا: زینب اور لوگوں کے درمیان جدائی ڈالدو (یعنی ان کو تبعید کردو)عمرو نے حکم دیا کہ زینب مدینہ کے علاوہ جہاں جانا چاہیں چلی جائیں۔

زینب (علیھا السلام) نے فرمایا: اگر ہمارا خون بھی بہا دیا جائے تو ہم مدینہ سے باہر نہیں جائیں گے، زینب بنت عقیل اور بنی ہاشم کی تمام عورتیں جمع ہوگئیں، اور ان کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ کسی پر امن جگہ چلی جائیں، حضرت زینب نے ان عورتوں کو اپنے ساتھ لیا جو آپ کے ساتھ جانا چاہتی تھیں،اور مصر کی طرف روانہ ہوگئیں، جس وقت آپ مصر پہنچی ، مسلمہ بن مخلد و عبداللہ بن حارث اور ابوعمیرہ مزنی نے آپ کا استقبال کیا، مسلمہ نے حضرت زینب (علیھا السلام) کو تعزیت عرض کی اور گریہ کیا، آپ بھی گریہ کرنے لگیں، اور حاضرین بھی یہ منظر دیکھ کر رونے لگے، حضرت زینب (علیھا السلام) نے فرمایا: ھذا ما وعدالرحمن و صدق المرسلون۔ پھر مسلمہ نے حضرت زینب کو اپنے اس گھر کی طرف چلنے کیلئے کہا جو ”حمرا“ میں تھا، آپ گیارہ مہینہ اور ۱۵ روز وہاں رہیں، اور آخر کار اتوار کے روز پندرہ رجب ۶۲ ہجری کو ۵۷ سال کی عمرمیں دار فانی کو ودع کیا، مسلمہ نے سب کے ساتھ مسجد جامع میں آپ کی نماز جنازہ پڑھی اور آپ کی وصیت کی بنیاد پر اسی گھر میں آپ کو دفن کردیا۔
بعض علماء کا نظریہ ہے کہ حضرت زینب (علیہا السلام)شام میں مدفون ہیں، جیسا کہ کتاب خیرات حسان اعتماد السلطنہ کی دوسری جلد میں بیان ہوا ہے ۔ لیکن حضرت زینب (علیھا السلام) کا مرقد منور صحیح روایت کی بناء پر شام کے ایک دیہات میں ہے جو اب آپ کی زیارت گاہ ہے (۱) ۔

۱۔ حوادث الایام، ص ۱۴۵۔

تغییر قبلہ
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مکہ میں تیرہ سال اور ہجرت کے بعد سترہ مہینہ مدینہ میں ”بیت المقدس“ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی، یہودی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو سرزنش کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تم ہمارے قبلہ کے تابع ہو اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہو ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اس واقعہ سے بہت ناراض ہوئے اورخداکے حکم کے منتظر تھے، یہاں تک کہ نیمہ رجب کو مسجد ”بنی سالم“ میں آپ ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے اور اس کی دو رکعت نماز پڑھ چکے تھے ، جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بازو کو پکڑ کر کعبہ کی طرف کردیا اور عرض کیا: قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبلة ترضاھا فول وجھک شطر المسجد الحرام (۱) ۔
اے رسول ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہذا آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ دیجئے اور جہاں بھی رہیے اسی طرف رخ کیجئے، اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ خدا کی طرف سے یہی برحق ہے اور اللہ ان لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
۱۔ سورہ بقرہ، آیت ۱۴۴۔
جو لوگ نماز میں حاضر تھے انہوں نے بھی اپنا رخ قبلہ کی طرف کرلیا اور کعبہ کی طرف نماز پڑھی۔ اسی وجہ سے اس مسجد کو ” ذو القبلتین “ کہتے ہیں(۱) ۔

۱۔ تقویم شیعہ ، ص ۱۷۴۔

متعلقہ مضامین

Back to top button