مقالہ جات

عالمی دھشت گرد نیٹ ورک کی جڑیں سلفی دیوبندی عقیدے میں پیوست ہیں اور سعودی عرب اور پاکستان کا اس میں مرکزی کردار ہے – برطانوی اخبار –

the indepandentبرطانوی اخبار “انڈی پینڈنٹ “میں ایسا ہی تجزیہ لکھا ہے اور اس میں انہوں نے القاعدہ سمیت دیگر دھشت گرد گروپ جو عراق، شام، مصر، افغانستان، لیبیا، صومالیہ اور پاکستان وغیرہ میں سرگرم ہیں ان کی ںظریاتی اور فکری بنیادوں کے مشترک ہونے اور ان کے پھیلاؤ ،ان کے طریقہ کار کے موثر ہونے کا جائزہ لیتے ہوئے امریکہ، مغرب سعودیہ عرب ،قطر، گلف ریاستوں اور پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ کے کردار کا جائزہ لیا ہے اور وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان سب گروپوں کی آئیڈیالوجي گي بںياد سلفي-دیوبندی تکفیری ہے اور یہ سب کے سب گروپ مغرب سے زیادہ شیعہ، صوفی سنی، ہندؤ،کرسچن وغیرہ مخالف ہیں اور ان کے لیے خطرے کا سبب بنے ہوئے ہیں

القاعدہ جیسی سلفی دیوبندی تکفیری جماعتیں دریائے مڈل ایسٹ، جنوبی ایشا،افریقہ میں نائن الیون سے زیادہ طاقت ور ہوچکی ہیں اور ان کے عقیدے اور دھشت گردی کے طریقوں میں القائدہ سے مماثلت مشترکہ ہے
دو ہزار چودہ کے آغاز میں انہوں نے بغداد کے مغرب میں واقع فلوجہ پر قبضہ کرلیا ،شام میں یہ دھشت گرد دمشق کے گرد نواح میں موجود قصبوں اور دیہاتوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں اور یہ ترکی کی سرحد تک اور شمال مشرق میں تیل کے کنوؤں تک اثر رکھتے ہیں اور یہ مجموعی طور برطانیہ کے رقبے جتنے علاقے میں انتہائی طاقت ور شکل میں موجود ہیں
امریکہ اور برطانیہ نے اپنی انٹیلی جنس پھیلاؤ پر زبردست خرچہ کیا ہے اور امریکہ نے افغانستان اور عراق میں جو جنگیں نوآبادیاتی دور میں لڑیں تھیں ان پر بھی کافی تحقیق کی ہیں اور انسانی حقوق کو ںظر انداز کرنے والے طریقوں کو استعمال کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اس کے باوجود دھشت گردی کا نیٹ ورک پھیلتا جارہا ہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے
اصل میں امریکہ کی اپنی حکمت عملی یہ رہی کہ سعودیہ عرب نے جب شام میں بشار الاسد کے خلاف شام یں بغاوت کو مکمل جنگ میں بدلنے کے مشن پر کام شروع کیا تو اس نے سلفی دھشت گردوں کو شام کے اندر بھجوانے کے اردن کی سرحد پر تربیتی کمیپ بنایا اور اس کی حمایت امریکیوں نے کی اور اسی طرح سے شام میں لڑنے والے یرموک بریگیڈ کی تیاری میں بھی سعودیہ کا ہاتھ تھا جس کو القائدہ گروپ نصرۃ فرنٹ کے ساتھ لڑتے دیکھا گیا
اور اب سعودیہ عرب ان سلفی جہادیوں کو انیٹی ٹینک اور اینٹی مزائیل ہتھیار بھی فراہم کرنے کی کوشش کررہا ہے
اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ دھشت گردی کے خلاف جنگ کیوں مطلوبہ نتايج لیکر نہیں آغی کیونکہ امریکہ نے سعودیہ عرب اور پاکستان کے اندر سلفی-دیوبندی نیٹ ورک کو ریاستی اور غیر ریاستی سطح پر ملنے والی ہمیہ قسم کی مدد کا خاتمہ کرنے کی کوشش نہیں کی،ان دونوں ملکوں کے کردار کے حوالے سے امریکہ نےکوئی فیصلہ کن قدم اس لیے نہیں اٹھایا کہ دونزں ملک امریکہ کے اہم اتحادی تھے
سعودیہ عرب امریکی اسلحے کا سب سے اہم خریدار ہے اور سعودی عرب نے امریکی سیاسی اسبلشمنٹ کے کئی اہم موثر لوگوں کو کئی بار خرید بھی کیا تاکہ وہ سعودیہ عرب کے لیے کام کرسکیں

موجودہ صورت حال کس قدر گھمبیر ہوگئی ہے اور سعودیہ عرب کی جانب سے شام میں اپنے شہریوں کو دھشت گردی کے لیے بھیجنے کی جو پریکٹس جاری تھی سعودی عرب نے اس پر ںظر ثانی کی ہے اور سعودیہ عرب اپنے باشندوں کو شام سے واپس بلارہی ہے اور ان کی اطلاح مراکز میں برین واشنگ کی کوشش ہورہی ہے تاکہ وہ سعودیہ عرب میں تکفیری وہابی خلافت کے قیام کی سوچ کو بدل دیں
شام کے حوالے سے بندر بن عباس سے زمہ داری واپس لیکر یہ زمہ داری نئے سعودی شہزادے کو دی گئی ہے جوکہ سعودی نیشنل گارڈز کا سربراہ ہے اور اس نے شام کے حوالے سے سعودیہ کی نئی پالیسی کی تشکیل دی ہے
امریکہ کے اندر تیزی سے یہ خدشہ پھیل رہا ہے کہ مغرب، سعودی عرب کی شام کے حوالے سے پالیسی نے ویسے ہی دھشت گردی کے نیٹ ورک کو پیدا کرنے کا خطرہ پیدا کردیا ہے جیسا افغانستان ميں نام نہاد جہاد کو سپورٹ کرنے سے پیدا ہوا تھا اور القائدہ،طالبان اور دیگر جنگی وار لارڑ پیدا ہوئے تھے
امریکی سیکرٹری برائے دھشت گردی و فنانشل انٹیلی جنس ڈیوڈ کوہن کا کہنا یہ ہے جباۃ نصرۃ اور اسلامک سٹیٹ عراق اینڈ لیونٹ جیسی تحریکیں صرف شام کو عدم استکام کا شکار نہیں کریں گی بلکہ یہ شام سے باہر نکل کر بھی اپنی کاروائیاں کریں گی
امریکی انٹیلی جنس چیف جیمز کوپر کا کہنا ہے کہ شام میں مڈل ایسٹ اور مغربی ملکوں اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے 700 ہزار سے زائد سلفی-دیوبندی دھشت گرد سرگرم عمل ہیں اور اس میں اضاہ ہورہا ہے
عراق میں مغرب کی یہ غلطی تھی کہ اس نے عراقی صدام حسین کی جماعت اور القائدہ کو ایک ساتھ نتھی کیا جس سے عراق مین القائدہ کو پیر جمانے کا موقعہ ملا اور لیبیا کے اندر یہ فرض کرلیا گیا کہ قذافی کے مخاہلف جو سلفی تکفیری دھشت گرد ہیں وہ امریکہکے خلاف زیادہ خطرناک نہیں اور اس عمل نے بھی دھشت گردوں کو مضبوط ہونے کا موقعہ فراہم کیا
پیٹرک کوک برن کا خیال یہ ہے کہ القائدہ ایک تنظیم سے زیادہ ایک آئیڈیالوجی کا نام ہے اور یہ آئیڈیالوجی ہے ایک تک تکفیری سلفی-دیوبندی ریاست کا قیام، تکفیری کوڈ کو شریعت کے نام پر نافذ کرنا ،عورتوں اور غیر سلفی-دیوبندی مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کرنا اور شیعہ کی نسل کشی کرنا اور اس سلفی-دیوبندی تکفیری سوچ کے زریعے سے خود کم مرنے کے لیے اور قربانی کے لیے پیش کرنے کی جو رغبت ہے وہ غیر تربیت یافتہ لوگوں کو خودکش بمبار بننے پر اکساتی ہے
پیٹرک کا کہنا ہے کہ امریکہ اور دوسری حکومتوں کو یہ ہمیشہ اپنے مفاد میں لگا کہ وہ عوام کے سامنے القائدہ کو ایک کمانڈ و کنٹرول کا ڈھانچہ رکھنے والے ایک چھوٹے سے پینٹاگان طرز کی تنظیم یا ویسی جیسی فلموں میں مافیا اور گاڈ فادرز کو دکھایا جاتا ہے جیسی تنظیم بناکر دکھائیں کیونکہ منظم گروپوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے اور اس کے ارکان کو قید یا ختم کیا جاسکتا ہے جبکہ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایسی تحریکیں خود رو ہوتی ہیں ،اس میں ازخود بھرتی ہوتی ہے اور یہ کسی بھی جگہ پھل پھول جاتی ہیں
اسامہ بن لادن نے 12 سال پہلے مختلف سلفی دیوبندی دھشت کرد گروپوں سے اپنی تنظیم کے لیے ارکان تلاش کئے تھے اور نائن الیون سے پہلے وہ اس کو القائدہ نہیں کہا کرتا تھا لیکن آج اس کے خیالات اور طریقے سلفی-دیوبندی تکفیری دھشت گرد گروپوں میں زیادہ مقبول ہیں اور اس کی ایک وجہ اس کی وہ شہرت اور مقام ہے جو اسے چڑواں ٹاور کی تباہی ،عراق میں جنگ اور واشنگٹن کی جانب سے اسے تمام تر امریکہ مخالف برائیوں کا سرچشمہ قرار دینے کی وجہ سے ملا،ان دنوں سلفی-تکفیری دیوبندی گروپوں کے درمیان عقائد اور خیالات کا آختلاف تیزی سے کم ہورہا ہے چاہے ان کا رسمی طور پر باقاعدہ القائدہ سے تعلق ہے یا نہیں جس کی قیادت ایمن الزاہروی کررہا ہے ،ایک ترکی کا مبصر کہتا ہے کہ شام میں جتنے سلفی-دیوبندی تکفیری دھشت گرد ہیں وہ سب امریکہ کے جڑواں ٹاور کے گرنے کے واقعے سے جوش پکڑتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ ایک دن یورپ میں بھی ایسا ہی ہوگا
عام طور پر امریکہ اور دوسرے لوگ القائدہ کے مشہور دھشت گردوں کی افسانوی تصویر کشی کرتے ہیں اور جب ان میں کسی کو مارا جاتا ہے تو اس کے فوجی شاندار عہدے اس کا قد بڑا کرنے کے لیے نام کے ساتھ لکھے جاتے ہیں جیسے آپریشنل ہیڈ وغیرہ ،جب ایبٹ آباد میں امریکی میرین کے آپریشن میں اسامہ بن لادن مارا گیا تو امریکی صدر اوبامہ نے خود کو ایسے پیش کیا کہ جیسے انہوں نے دھشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی ہو لیکن زمینی حقائق یہ تھے کہ اسامہ بن لادن کے مرنے سے 2011ء سے القائدہ جیسے گروپوں کے پھیلاؤ میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی تھی
عراق اور شام کے اندر سلفی تکفیری گروپوں کی طاقت اور احیاء اپنی چگہ اس کا مشاہدہ افغانستان،لیبیا،صومالیہ،لبنان،مصر،الجزائر میں بھی ہورہا ہے جبکہ 4500 امرکی فوجی مروانے کے بعد وہاں سے فوجی انخلاء کے بعد عراق کے شہر فلوجہ میں القائدہ کا سیاہ جھنڈا پھر لہرانے لگا ہے اور تین سالوں میں اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ لیونٹ نے عراق کے اندر تیزی سے اپنا دائرہ اثر بڑھایا ہے اور یہ عراق کے تیسرے بڑے شہر موصل سے ایک ماہ میں لیوی اور ٹیکسز کی مد میں آٹھ ملین ڈالر اکٹھا کرتی ہے
اسلامی سٹیٹ آف عراق نے دو عوامل سے فائدہ اٹھایا ہے کہ ایک تو اس نے عراقی حکومت سے سنّی گروپوں کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی شیعہ –سنّی تقسیم کا فائدہ اٹھایا اور شام کے اندر سلفی بغاوت کو سنّی آبادی کی بغاوت قرار دئے جانے اور وہاں پر سنّی آبادی پر مفروضہ مظالم کی کہانیون کے پھیلاؤ سے فائدہ اٹھایا ہے ،پرامن سنّی احتجاج جو شروع ہوا اور مالکی حکومت نے جو اپریل کے آخر میں حوجہ میں سنّی خون بہایا اس نے القائدہ کے سنی-شیعہ میں تقسیم پیدا کرنے کے منصوبے کو کامیاب کردیا
گذشتہ موسم گرما میں ابو غریب جیل پر حملہ کرکے اسلامی سٹیٹ آف عراق نے اپنے سینکڑوں رہنماء اور کارکن آزاد کرائے اور پھر اس کے بعد شیعہ کے خلاف ایک خون آشام بم دھماکوں کی مہم شروع کی گغی جس میں دو ہزار آٹھ سے لیکر اب تک دس ہزار کے قریب لوگ مارے گئے ہیں لیکن جس قدر اسلامی سٹیٹ آف عراق آج عراق میں مضبوط ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی
انسٹی ٹیوٹ برائے مطالعہ جنگ کی جیسکا ڈی لیوس ایک رپورٹ میں کہتی ہیں کہ سلفی دیوبندی تکفیری دھشت گرد گروپ بصرہ سے ساحلی شام تک خوفناک حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے
شام کے اندر جباۃ نصرۃ اور اسلامی سٹیٹ آف عراق ایک دوسرے کے خلاف اور دیگر سلفی تکفیری دھشت گروپوں کے ساتھ شام میں اپنے کنٹرول کی جنگ لڑرہے ہیں اور فری سیرین آرمی شام کے اندر بہت زیادہ کمزور ہوچکی ہے
شام میں مسلح حزب اختلاف آت سلفی تکفیری گروپوں پر مشتمل ہے اور یہ گروپس شام میں شیعہ،سنّی صوفی،علوی اور عیسائيوں کے قتل کا بدترین ریکارڑ رکھتے ہیں اور جبکہ دوسری طرف قطر،ترکی کی حمائت سے بننے والا اسلامک فرنٹ اسلامک سٹیٹ آف عراق سے برسر پیکار ہے لیکن یہ فرنٹ بھی شیعہ،صوفی سنّی ،کرسچن اور ديگر غیر سلفی برادریوں کے خلاف اتنا ہی سخت ہے جتنا اسلامی سٹیٹ آف عراق ہے
نائن الیون کے فوری بعد امریکی حکومت نے جو فیصلے کئے تھے وہ القاغدہ کے بچاؤ اور پھر پھیلاؤ کا سبب بنے تھے اور امریکی ٹاورز کا گرنا اور دو جہازوں کا کریش ہونا اس سب کے کھرے سعودی عرب تک جاتے تھے ،اسامہ بن لادن سعودی عرب کی اشراقیہ سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا باپ سعودی عرب کے بادشاہ کا گہرا رفیق تھا جبکہ انیس ہائی جیکر کا تعلق سعودی عرب سے تھا اور سی آئی اے کی ایک رپورٹ یہ بتلاتی ہے کہ القائدہ اپنے لیے فنڈ کے لیے جن ڈونرز اور فنڈ جمع کرنے والوں پر انحصار کرتی ہے وہ ابتدائی طور گلف ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے اور خاص طور پر سعودی عرب سے تعلق تھا اور رپورٹ کہتی ہے کہ جب بھی ڈونرز اور فنڈر اکٹھا کرنے والوں کا تعلق سعودیہ عرب سے نکلا تو ان کے بارے میں معلومات اور رسائی پر پابندی لگادی گئی اور جو کچھ ہوا تھا اس میں سعودی عرب کا جو تعلق بنتا تھا اس حوالے سے جارج بش نے بھی کبھی سعودیہ عرب سے پوچھنے کی کوشش نہیں کی اور اسامہ بن لادن کے 28 رشتہ داروں کی امریکہ سے روانگی میں مدد فراہم کی گئی اور نائن الیون والے واقعے می سعودی کردار بارے جو رپورٹ کا حصّہ تھا اسے بھی کبھی شایع نہیں کیا گیا
امریکہ کی دھشت گردی کے خلاف جنگ کا دوسرا اہم اتحادی پاکستان تھا اور پاکستانی آئی ایس آئی نے تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی تھی اور افغانستان میں اس نے دیوبندی طالبان کی حکومت لانے اور وہاں پر اسامہ بن لادن کو لاکر بسانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جب امریکی فضائیہ دیوبندی طالبان کے خلاف کاروائیوں میں مصروف تھی اور طالبان کو شمالی اتحاد نے گھیر لیا تھا تو آئی ایس آئی کے درجنوں ٹرینر اور افسر طیارے کے زریعے وہاں سے نکال لیے گئے تھے اور امریکہ نے پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ کے کردار کو ںطر انداز کردیا تھا ،یہ حقیقت ہے نائن الیون کے بعد پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ کو چھوڑ دینے سے دیوبندی تکفیری طالبان اور القائدہکے سلفی دھشت گردوں کو دوبارہ سراٹھانے کا موقعہ فراہم کیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر امریکہ سعودی-آغی ایس آئی پروجیکٹ کے ساتھ نہ ہوتا تو سلف تکفیری نام نہاد جہادی نیٹ ورک کا وجود سامنے نہ آتا
پیٹرک اس سے آگے عراق میں سلفی تکفیری دیوبندی دھشت گرد نیٹ ورک کو مضبوط کرنے والے داخلی عناصر کا جائزہ لیتا ہے اور پھر یہ بتاتا ہے کہ عراق کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے میں جہاں داخلی کمزرویوں کا ہاتھ ہے وہیں پر اس میں شام کے اندر مغرب،امریکہ اور سعودیہ عرب کا مشترکہ وینچر بھی زمہ دار ہے اور سعودیہ عرب نے بھی اس میں اپنا جو کردار ادا کیا اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے
عراق اور شام میں سلفی تکفیری دھشت گرد گروپ اسلامی ریاست آف عراق نے اپنی ویب سائٹ پر ایک منجمد کردینے والی ویڈیو کچھ عرصہ پہلے جاری کی تھی جس میں دمشق-بغداد روڈ پر چند ٹرکوں کے ساتھ اس سلفی تکفیری دھشت گرد گروپ کے لوگ کھڑے ہیں اور وہ ان کے ڈرائیوروں کو کہتے ہیں کہ
تم سب شیعہ ہو ، تم ہمارے مسلمان بھائیوں کو قتل کررہے ہو اور ہماری عورتوں کی عصمت دری کررہے تو تم سب واجب القتل ہو
جواب میں وہ ڈرائیور کہتے ہیں کہ نہیں ہم حمص سے تعلق رکھنے والے سنّی ہیں ،اللہ تمہاری جنگ کو کامیاب کرے
اس پر سلفی تکفیری دھشت گرد ان ڈرائیوروں سے کہتے ہیں کہ اگر تم سنّی ہو تو بتاؤ کہ ایک دن میں کتنی مرتبہ تم نماز ادا کرتے ہو
اس پر مختلف جواب دئے جاتے ہیں
کچھ پانچ اور کچھ تین کہتے ہیں
ان سب کو بعد ازاں شیعہ قرار دیکر گولیوں سے اڑا دیا جاتا ہے

شام میں اس وقت بشار الاسد کے خلاف جو لوگ مسلح جدوجہد کررہے ہیں ان میں زیادہ تعداد سلفی اور دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی ہے اور یہ لوگ شیعہ،صوفی سنّی ،کرسچن،کرد ،فلسطینیوں کو بھی مار رہے ہیں کیونکہ وہ ان کا بشار الاسد کے خلاف جنگ میں ساتھ نہیں دے رہے اور صوفی سنّی مکتبہ فکر کو یہ شیعہ کے قریب قریب ایک غیر اسلامی مشرک مکتبہ فکر خیال کرتے ہیں
مغربی حکومتوں کو شام ،عراق، پاکستان کے اندر مارے جانے والے شیعہ، سنّی بریلوی کی اس قدر پرواہ نہیں ہے لیکن وہ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ اس وقت عراق، شام کے اندر سلفی تکفیری اور دیوبندی تکفیری دھشت گرد گروپوں کی تعداد افغانستان میں 9/11 سے قبل کے افغانستان میں ان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے
یہ تاثر کہ بشارالاسد کے خلاف آزاد شامی فوج جیسی جمہوری سیکولر فورس بغاوت کی قیادت کررہی ہے ہوا میں تحلیل ہوچکا ہے اور دسمبر میں آزاد شامی فوج کے سپلائی ڈپوؤں پر سلفی-دیوبندی تکفیریوں کے قبضے اور سیکولر کمانڈرز کے قتل کے بعد مسلح لڑائی کی قیادت سلفی-دیوبندی تیفیری دھشت گردوں کے پاس ہے
گزشتہ چھے ماہ سے واشنگٹن اور گلف ریاستوں کے درمیان تعلقات میں خاصی سرد مہری آنے کی وجہ گلف ریاستوں کی طرف سے شام میں سلفی دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کو اسلحے،افرادی قوت اور پیسے کی سپلائی ہے جس کی وجہ سے وہاں یہ لوگ بہت طاقتور ہوگئے ہیں
تعمیر پاکستان ویب سائٹ نے بیروت سے شایع ہونے والے اخبار الاکبر میں شایع ہونے والی بعض خبروں کے حوالے سے جیسے انکشاف کیا تھا مذکورہ تجزیہ نگار بھی انہی خبروں پر اپنے تجزیئے کی بنیاد رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح سعودی عرب کے انٹیلی جنس سربراہ اور امریکہ میں رہے سفیر بندر بن سلطان سے 2012ء میں امریکی سیکرٹری خارجہ نے ایک نجی ملاقات میں گفتگو کی اور ان کی جانب سے شام ،عراق،یمن ،لبنان کے اندر دھشت گردوں کی حمائت کرنے پر سخت تنقید کی تھی اور یہ بندر بن سلطان شام کے معاملے پر ہونے والی مغربی ملکوں کے انٹیلی جنس سربراہوں کی خفیہ میٹنگ سے بھی غائب رہے تھے اور یہ بندر بن سلطان وہ ہیں جن کو امریکہ نے خود شام میں بشارالاسد کو ہٹانے کا مشن سونپا تھا جس میں ان کا ٹاسک آزاد شامی فوج جیسی سیکولر باڈی کو مضبوط بنانا تھا جس کی بجائے انہوں نے بغاوت کی میلیشیا میں سلفی –تکفیری اور دیوبندی تکفیریوں کا پلڑا بھاری کرڈالا اور بندر بن سلطان نے شام پر امریکہ کے فوجی حملہ نہ کرنے کے فیصلے پر بھی شدید تنقید کی تھی
سعودی نیشنل گارڑ کے سربراہ پرنس متعب بن عبداللہ کے بارے میں کہا چاتا ہے کہ وہ سعودی عرب کی شام پر تشکیل پانے والی نئی پالیسی کے خالق ہیں
سعودی عرب کے گلف ریاستوں میں سے بعض کے ساتھ تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ،حال ہی میں سعودیہ عرب،بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر سے اپنے سفیروں کو واپس بلالیا تھا اور وجہ قطر کی جانب سے آحوان المسلمون کی حمائت بتائی تھی لیکن اس کی ایک وجہ شام میں ان سلفی دھشت گردوں کو اسلحے اور پیسے کی سپلائی بھی ہے جو سعودیہ عرب کے کنٹرول میں نہیں ہیں
سعودی عرب نے کذشتہ موسم گرما سے شامی باغیوں کو سب زیادہ امداد دینے والا ملک بن گیا ہے ،اس سے پہلے یہ اعزاز قطر کو حاصل تھا لیکن سعودی عرب کی شام کے اندر مداخلت امداد دینے سے کہیں زیادہ گہری ہے کیونکہ اس وقت زیادہ تر سلفی تکفیری اور سلفی دیوبندی جنگ جو سعودیہ عرب سے یا سعودیہ عرب کے کہنے پر پاکستان،افغانستان سے آرہے ہیں
سعودی سلفی مولوی اسد کے خلاف مذھبی منافرت پر مبنی جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں اور اس میں سرکاری غیر سرکاری تمام سلفی مولوی شامل ہیں
سعودی وہابیت کے خیالات القاعدہ،تحریک طالبان پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرگرم دیوبندی و سلفی تکفیری دھشت گرد تنظیموں سے مختلف نہیں ہیں
اگرچہ تچزیہ نگار اپنے تجزیہ میں سعودیہ عرب کی شیعہ کے خلاف تکفیی پروپیگنڈے کی مماثلت رومن کیتھولک کی یورپ میں تحریک اصلاح کے ضمن میں پروٹسنٹ ازم کے خلاف چلائی جانے والی مہم سے دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح یہ مہم 18ویں صدی سے وہابیت اور آل سعود کے درمیان اتحاد سے شروع ہوئی لیکن اس میں تیزی سویت روس کے خلاف سی آئی اے،آئی آیس آئی اور سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کے باہمی تعاون سے تشکیل پانے والی نام نہاد جہادی تحریک سے آئی اور ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں آنے والے انقلاب سے اسے پر لگ گئے لیکن یہ بات سنّی بریلوی کے باب میں بھی ٹھیک ہے وہابیت اور آل سعود کے اشتراک سے تکفیری مہم صرف شیعہ کے ہی نہیں بلکہ صوفی سنّی مسلک کے خلاف بھی یہی تکفیری مہم چلائی گئی اور اس دھشت گردی کا نشانہ صوفی سنّی مسلک بھی بنا جوکہ پاک و ہند میں اہل سنت بریلوی کے نام سے معروف ہے
انیس سو اسی میں سعودی عرب، پاکستان بلکہ پاکستان آرمی کہنا زیادہ بہتر ہوگا اور امریکہ کے درمیان ایک اتحاد تشکیل پایا جو غیر معمولی طور پر پائيدار ثابت ہوا-اس اتحاد نے ایک طرف تو خطے میں امرکی غلبے کی حمائت کی بلکہ اس نے اس کے ساتھ ساتھ سلفی-دیوبندی دھشت گرد نیٹ ورک کو بھی پھیلانے میں مدد کی
جب جڑواں امریکی ٹاورز کو سلفی دھشت گرد نیٹ ورک نے نشانہ بنایا تو امرکی عوام کے اندر اس حملے نے پرل ہاربر شاک کا کام کیا لیکن اس دوران اس حملے سے قبل نو قدامت پرست امریکی برسر اقتداد آئے تھے انہوں نے اس حملے کے نتیجے میں سعودیہ عرب کو شامل تفشیش کرنے کے حملے کا نشانہ صدام حسین کو بنایا
نائن الیون کمیشن کی رپورٹ سعودي عرب کو القائدہ کو مدد دینے والے واحد سورس کے طور پر بیان کرتی ہے اور یہاں تک کہ 2007ء میں جب امرکی فوج عراق کے اںدر القائدہ سے اپنی لڑائی کے عروج پر تھی تو امریگی حکومت کے وزارت خزانہ میں دھشت گردی کو فنڈ دینے والے زرایع کے تدارک کے نگران نے انکشاف کیا تھا کہ القائدہ کو ملنے والے فنڈز میں اگر میں کسی ملککی طرف اشارہ کرسکتا ہوں تو وہ سعودی عرب ہوگا اور اس نے کہا تھا کہ امریکہ یا یو این نے دھشت گردی کو امداد دینے والے جس بھی آدمی کی شناخت کی اس کو سعودیہ عرب نے کبھی بھی سزا نہیں دی
(کیا یہ اتفاق ہے کہ پاکستان کی ریاست نے بھی آج تک دھشت گردی کو فنانس کرنے والے کسی ایک سورس کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا)
سعودیہ عرب کے دھشت گردی کے خاتمے میں تعاون نہ کرنے کی امریکہ کے اعلی عہدے داروں نے کئی مرتبہ شکائت کی لیکن اس حوالے سے کوئی بہتری نہیں آئی ہے
دسمبر 2009 ء میں امریکی سیکرٹری خارجہ ھیری کلنٹن نے ایک مراسلہ لکھا کہ سعودی عرب القائدہ،تحریک طالبان،لشکر جھنگوی ،لشکر طیبہ پاکستان کے لیے مالی امداد کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے اور سعودی عرب صرف ان سلفی دھشت گردوں کے خلاف کاروائی کرتا ہے جو سعودی حکومت کے خلاف کاروائ کرتے ہیں یا اس کی اپنی سلامتی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں لیکن یہ ان عناصر کے خلاف کاروآئی نہیں کرتا جو القائدہ کے دوسرے ملکوں میں سیل کو سپورٹ کرتے ہیں اور یہ مراسلہ وکی لیکس نے شایع کیا
نہ صرف سعودیہ عرب سلفی دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی مدد کرتا ہے بلکہ اس عمل میں گلف کی دوسری عرب ریاستیں بھی برابر کی شریک ہیں اور مسٹر کوہن کا کہنا ہے کہ امریکہ کا اتحادی کویت بھی شام میں سلفی-دیوبندی دھشت گردوں کی مالی امداد کررہا ہے
وہ نائف العجمی جوکہ وزیر انصاف اور وزیر اسلامی اوقاف دونوں ہے کی شکائت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کویتی وزیر شام میں تکفیری دھشت گردی کو بڑھانے اور مدد دینے کی ایک تاریخ رکھتا ہے اور اس کی تصویروں کو النصرۃ فرنٹ کے لیے امداد اکٹھی کرنے کی اپیل کرنے والے پوسٹروں پر بھی چسپاں کیا گیا تھا
کویت کی مذھبی امور و اوقاف کی منسٹری نے حال ہی میں شامی لوگوں کے نام پر فنڈ اکٹھے کرنے کے لیے مساجد میں اپیل کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا جس سے تکفیری دھشت گردوں کے لیے فنڈ اکٹھے کرنے کی راہ ہموار ہوگئی
امریکی سفارتی مراسلوں میں جو کچھ سعودی عرب کے حوالے سے کہا گیا اور ان میں سے جو وکی لیکس کے زیعے سامنے آئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ امریکیوں کو پتہ چل چکا ہے کہ سعودیہ عرب شعیہ کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کو کس قدر ترجیح دے رہا ہے اور اب یہ جنون شدت اختیار کرتا جارہا ہے ،پاکستان کو لیں جوکہ اس وقت سعودی عرب کے سب سے گہرے اتحادی کی شکل اختیار کرچکا ہے ،یہاں پاکستان میں ایک سنئیر سعودی ڈپلومیٹ کہتا ہے کہ ہم پاکستان میں صرف مبصر نہیں ہیں بلکہ شراکت دار ہیں اور نائن الیون سے پہلے بھی پاکستان اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے دیوبندی طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا
مفروضہ شیعہ توسیع پسندی کے بارے میں سعودیہ عرب کا خوف ایک ہسٹریا اور مبالغہ آميزی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے جبکہ شیعہ صرف جںد ملکوں میں برسراقتدار اور کئی ملکوں میں ایک قدرے مضبوط اقلیت کی صورت موجود ہیں،57 مسلم ملکوں میں شیعہ صرف چار ملکوں میں اکثریت میں ہیں
جب آصف علی زرداری کی پاکستان میں حکومت تھی تو سعودی عرب ان کے بارے میں سخت مشکوک رہا اور انہوں نے واح طور پر کہا کہ وہ اس پر پاکستان میں فوجی آمریت کو ترجیح دیں گے اور اس کی وجہ فرقہ وارانہ تھی ،یو اے ای کے وزیرخارجہ عبداللہ بن زید کے مطابق جس نے امریکیوں کو بتلایا تھا کہ سعودیہ عرب کو شک ہے کہ زرداری شیعہ ہے اور اس سے سعودی عب کو خطرہ تھا کہ خطے میں ایران،عراق اور پاکستان پر مشتمل شیعہ مثلث بننے جارہی ہے
شیعہ مذھب کی تکفیر ایران کے غلبے کے خوف کے ساتھ ملکر سعودیہ عرب کے خوف کو بڑھاتی ہے اور اسی لیے کنگ عبداللہ امریکہ کو ایران پر حملہ کردینے کو کہتے رہے اور اس عمل کو وہ سانپ کا پھن سر اٹھانے سے قبل کچلنے سے تعبیر کیا اور عراق میں شيعہ اکثریت کی وجہ سے سعودیہ عرب وہاں سلفی تکفیری دھشت گردوں کی کاروائیوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتا رہا ہے
عراق میں شیعہ کی حکومت آنے کی وجہ سے سعودیہ عرب اور دوسری گلف وہابی راستوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور انہوں نے اس حکومت کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع کردیں تھیں جبکہ ایک سعودی امام نے شیعہ کے قتل کا فتوی دیا تو وہابی عرب ریاستوں نے اس پر پراسرار خاموشی اختیار کرلی
دوہزارہ گیارہ میں جب عرب بہار کے نام سے عرب عوام نے آمریتوں اور بادشاہتوں کے خلاف جدوجہد شروع کی تو سعودیہ عرب اور ان کی حامی ریاستوں نے اس کو فرقہ واریت میں بدلنے کی پوری کوشش کی جیسے سعودی عرب نے اپنے مشرقی صوبے میں شیعہ آبادی کے اوپر جبر زيادہ کردیا اور جب بحرین میں جمہوریت کے قیام اور انصاف کے لیے تحریک کا آغاز ہوا تو سعودی عرب نے بحرین کے بادشاہ کو بچانے کے لیے گلف فورسز وہاں داخل کردیں جس نے شیعہ کے خلاف کاروائیاں کیں اور بحرین کی جمہوری تحریک کو شیعہ کے غلبے کے خوف سے دبانے کی کوشش کی اور شیعہ کی عبادت گاہوں کو مسمار کردیا گیا
شام میں سعودیہ عرب کو یقین تھا کہ شامی حکومت بھی جلد ہی لیبیا کے معمر قذافی کی حکومت کی طرح گرجائے گی اور اس نے شامی حکومت کی طاقت کا غلط اندازاہ لگایا اور اسے ایران،شام،چین اور حزب اللہ سے ملنے والی مدد کا بھی غلط اندازہ لگایا تھا
جبکہ سعودیہ عرب،قطر ، بحرین، کویت،اردن اور ترکی کی جانب سے شام میں آزاد شامی فوج کے سیکولر لبرل عناصر کو چھوڑ کر سلفي_دیوبندی دھشت گردوں کوسپورٹ کرنے اور شام میں سلفی ریاست کے قیام کے جنون نے آزاد شامی فوج کے اعتدال پسندوں کو بھی مغلوب کرڈالا
شام میں علوی، صوفی سنّی ، کرد، فلسطینی اور شیعہ برادری کے پاس سوائے لڑنے کے کوئی اور چوائس موجود نہیں ہے
بہت سی احمقانہ سازشی تھیوریز گھومتی رہیں کہ نائن الیون حملوں میں امریکہ کا اپنا ہاتھ تھا اور ان بے سروپا مفروضوں نے اس سازش سے لوگوں کے ذھن ہٹادئے جوکہ ایک کھلی حقیقت اور کھلا راز تھا اور یہ سازش تکفیری سلفی و دیوبندی دھشت گردی کے پھیلاؤ کی تھی
امریکہ، سعودیہ عرب اور پاکستان کا جو اتحاد ثلاثہ تھا اس کا نتیجہ تکفیری سلفی-دیوبندی دھشت گردی تھا جوکہ جہاد کے نام سے موسوم ہوتا رہی اور یہ تحریک مغرب مخالف سے پہلے شیعہ ،صوفی سنّی۔عیسائی ،احمدی مخالف تھی اور اس دھشت گردی کی وجہ سے شیعہ، سنّی صوفی، کرسچن، ہندؤ اور احمدی سب خطرے میں ہیں

متعلقہ مضامین

Back to top button