مقالہ جات

نواز شریف سعودی عرب کے لیے رفیق حریری بننے جارہے ہیں

EikhounMuslimگذشتہ ہفتے اچانک پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ اور پھر ڈالر کی پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں قیمت میں کمی آنا شروع ہوئی اور ڈالر ننانوے روپے کچھ پیسے کی قیمت پر آیااور اب یہ 100 روپے کچھ پیسے پر جما ہوا ہے پاکستان کی معشیت پر نظر رکھنے والے ملکی و غیر ملکی ماہرین سب کے سب حیران تھے اور اس تبدیلی کے بارے میں ان میں سے کسی ایک نے بھی کسی جگہ ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیا تھا ہمارے سامنے پاکستان کے معروف انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کا ہر سوموار کو شایع ہونے والا اکنامک اینڈ بزنس ایڈشن کے گذشتہ دو ماہ کے صفحات اور اس کا ہر روز شایع ہونے والا اکنامی اینڈ بزنس صفحہ موجود ہے ،یہاں پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی شرح اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت پر تو تشویش کن تبصرے اور اس کے اثرات کے بیان موجود ہیں لیکن کہیں ہلکا سا اشارہ روپے کی قیمت میں استحکام آنے کا نہیں ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جب ڈالر کی قیمت کو 97 ء کی سطح پر لانے کا دعوی کیا تھا تو سب نے اس دعوے کو دیوانے کی بڑ قراردیا تھا بلکہ ہمارے سدا بہارميڈیا سکرین پر جلوہ گر رہنے والے جادوگر سیاست دان جوکہ قومی اسمبلی میں اکیلے ہی سارے حکومتی ڈیسکوں پر بھاری پڑتے ہیں نے یہاں تک کہہ ڈالا تھا کہ اگر ڈالر نیچے آیا تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے اور جیسے ڈالر کی شرح تبادلہ میں کمی آئی تو ان سے مسلم لیگی زعماء نے استعفا مانگنا شروع کردیا وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بہت پراعتماد طریقے سے اپنے اوپر تنقید کرنے والے معاشی ماہرین اور ميڈیا کے رپورٹروں کا مذاق اڑایا اور بعض کو تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ کوئی اور کام شروع کردیں لیکن یہ ڈار کا یہ اعتماد زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا ،روزنامہ ڈان کے ہی ایک اکنامک ڈیسک کے رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ڈالر کی قیمت میں کمی اگر مصنوعی طریقے سے نہیں آئی تو سٹیٹ بینک شرح سود میں کمی لیکر آئے گا اور وہ افراط زر میں کمی ہونے کی رپورٹ بھی دے گا لیکن آج جب یہ اداریہ لکھا جارہا ہے تو سٹیٹ بینک کی رپورٹ آچکی ہے اور شرح سود دس پوائنٹ پر برقرار ہے اور افراط زر میں کمی کا کوئی زکر اس رپورٹ میں نہیں کیا گیا پاکستانی میڈیا نے ڈالر کی قیمت میں کمی اور پاکستانی کرنسی کی قدر میں زیادتی کے اس غیرمعمولی واقعے کے پیچھے کارفرماء اصل عنصر بارے جاننے کی ازحود کوئی کوشش نہیں کی اردو اخبارات نے تو غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں کی جانب سے اس حوالے سے آنے والی ابتدائی خبروں کا بلیک آؤٹ کیا اور انگریزی اخبارات نے اپنے صفحات پر اس حوالے سے رپورٹ اس وقت شایع کرنا شروع کی جب راٹر خبر رساں ایجنسی کے رپورٹر نے پاکستانی وفاقی وزرات خزانہ کے ایک اہم سورس سے یہ خبر دی کہ سعودیہ عرب نے پاکستان کو ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی فوری رقم ارسال کی ہے اور تیل کے واجبات کی ادائیگی میں بھی مہلت دے دی ہے جس سے فوری طور پر پاکستان کی کرنسی کو ریلیف ملا ہے اور ڈالر کی قیمت گراوٹ کا شکار ہوئی ہے رائٹر خبررساں ایجنسی نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو 5۔3 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے جس کی پہلی قسط جاری کی گئی ہے اور یہ رقم احباب پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ میں جمع ہوئی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اسحاق ڈار نے یہ فنڈ قائم ہونے کی خبر صحافیوں کو سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کی پاکستان آمد کے ایک دن بعد دی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان کے دوست ممالک پاکستان کی گرتی ہوئی معشیت کو سنبھالنے کے اس فنڈ میں رقم جمع کرائیں گے سعودی عرب نے جمہوریت بحال ہونے کے بعد مارچ 2008ء سے 2013ء تک پی پی پی اور اس کی اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت کو ادھار تیل فراہم کرنے سے معذرت کرلی تھی اور تیل کے واجبات کی فوری ادائيگیکا مطالبہ بھی کیا تھا اور اس دوران سعودی عرب نے پاکستان کو کوئی مالی امداد بھی فراہم نہیں کی سعودیہ عرب کے سرد رویہ کی وجہ سے اسحاق ڈار کی تجویز پر پی پی پی حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا تھا اور جب مسلم لیگ نواز کی حکومت آئی اور صدر ابھی زرداری تھے تو بھی سعودی حکومت کی جانب سے خاموشی رہی جب نواز شریف نے ایران-پاکستان گیس پائپ لائن پر یو ٹرن لیا اور نواز شریف نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر یو ٹرن لینے کے اشارے دئے اور سعودی عرب کی مڈل ایسٹ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے فاصلے بڑھنے،شام اور ایران پر اختلافات وسیع ہونے کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوا تو سعودیہ عرب اور نواز حکومت کے درمیان گرم جوشی میں اضافہ دیکھنے کو ملنے لگا پاکستان میں سعودیہ عرب نے ایک لمبے عرصے کے بعد اپنے اعلی سطحی حکومتی وفد بھیجنے شروع کئے،نائب وزیر دفاع آئے تو پیچھے پیچھے وزیر خارجہ چلے آئے اور پھر وزیر دفاع سعودی ولی عہد آگئے اس دوران پاکستان اور سعودیہ عرب کی جانب سے جو مشترکہ اعلامیہ سعودی ولی عہد اور پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی موجودگی میں ميڈیا کو پڑھ کر سنایا گیا اس میں پاکستان نے پہلی مرتبہ یہ دعوی کیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کا مسلک ایک ہے،اور پاکستان کی جانب سے بشار الاسد کی معطلی اور وہاں پر باغيوں کی عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ بھی کیا گیا اس سے قبل برطانوی ،امریکی اور مڈل ایسٹ کا میڈیا یہ خبریں شایع کرچکا تھا کہ سعودی عرب پاکستان سے شام میں لڑنے کے عسکریت پسند،آل سعود کے 400 ارکان کی حفاظت کے لیے 2000 پاکستانی فوجیوں کا سیکورٹی حصار،شام میں لڑنے کے لیے سلفی تکفیری باغی فوج کی تربیت کے لیے پاکستانی عسکری انسٹرکٹر ،اینٹی ٹینک اور اینٹی گن شپ طیارہ مزائیل مانگ رہا ہے اور یہ پاک-سعودیہ سیکورٹی مذاکرات کا سب سے بنیادی نکتہ ہے پاکستان کی وزرات خارجہ،پاکستان کے وزیر دفاع،خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز اگرچہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ حکومت اور سعودی عرب کے درمیان سیکورٹی بات چیت جاری ہے اور یہ اعتراف بھی کیا جاتا ہے کہ علاقائی ایشوز پر سعودیہ عرب اور پاکستان کا موقف یکساں ہے لیکن شام میں سعودیہ عرب کی پراکسی کا حصّہ بننے کا اعتراف سرکاری سطح پر نہیں کیا جارہا،ایسے میں پاکستان کے ہر شہری کے دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ آخر سعودیہ عرب نے سابقہ حکومت کو جو مدد دینے سے انکار کیا تھا اور اس کا ادھار تیل بھی بند کردیا تھا تو موجودہ حکومت پر یہ نوازشات کیوں کی جارہی ہیں؟ لامحالہ علاقائی صورت حال پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ سعودیہ عرب پاکستان کی موجودہ حکومت پر یہ نوازشات کیوں کررہا ہے شیخ رشید جن کو اپنی سیاسی ساکھ کے ڈوب جانے کا خطرہ لاحق تھا آخر بول پڑے اور انہوں نے بتایا کہ نواز شریف اور ان کے فنکار وزیر خزانہ پاکستان کی دفاعی،جارحانہ اور سیکورٹی کی کارکردگی کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان کو فروخت کردیا ہے اور سعودیہ عرب کو 5۔1 ارب ڈالر کے بدلے کرائے کی ایک سریع الاثر فوج بناکر دینے کی حامی بھرلی ہے جو اردن کے راستے شام میں داخل ہوگی اور بشار الاسدکی حکومت کا خاتمہ کرے گی یہ کہانی معروف صحافی رؤف کلاسراء نے بھی سنائی ہے اور نصرت جاوید بھی یہ کہانی ہمیں سنا چکے ہیں جاوید جوہدری جیسے سرکار صحافیوں کے پردے میں چھپے طالبان “ڈار ڈے ” جیسے خوشامدی کالم لکھکر حقیقت کو چھپا نہیں سکتے ہیں پاکستانی ریاست نے تحریک طالبان پاکستان کی اپنے نام یا دوسرے ناموں سے کی گئی دھشت گردی کے خلاف آپریشن بھی اسی لیے معطل کیا کہ سعودیہ عرب نے پاکستان کو یقین دلایا کہ ٹی ٹی پی کا مفید استعمال کیا جاسکتا ہے،سعودی عرب کے سفیر کی اسلام آباد،پشاور میں ملاقاتیں اور وہ بھی خفیہ بے سبب نہ تھیں جبکہ سمیع الحق و منورحسن کا سعودیہ عرب جانا بھی ایک منصوبہ بندی کا حصّہ تھا صرف شام میں سعودیہ عرب کے ساتھ ملکر لڑنے کی یقین دھانی ہی سعودیہ عرب کی عنایات کا سبب نہیں ہیں بلکہ اس کا ایک اور سبب “بحرین ” بھی ہے جہاں پر وہابی تکفیری بادشاہ کے خلاف سنّی اور شیعہ آبادی کی اکثریت جمہوریت کے قیام اور بادشاہت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کررہی ہے روزنامہ ڈان نے ہفتہ کے روز اپنی 15 مارچ 2014ء کی اشاعت میں صفیہ پانچ پر ایک خبر اپنے نمائندہ اکرم جنیدی سے شایع کی جس میں بتایا گیا کہ بحرین کی حکومت سابقہ فوجی اور سیکورٹی کے اہلکاروں کو بحرین میں احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے بھرتی کررہی ہے اور اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب بحریہ فاؤنڈیشن نے اپنی ویب سائٹ پر یہ اشتہار دیا کہ اسے بحرین کے لیے افراد درکار ہیں اور جب 800 سے زیادہ افراد بحریہ فاؤنڈیشن کے رفتر واقع 8 ای سیکٹر اسلام آباد پہنچے تو وہآں سویلین کو بتایا گیا کہ ان کو صرف سابق فوجی اہلکار درکار ہیں،فوجی فاؤنڈیشن جس کو سیکرٹری دفاع چلاتے ہیں بھی بحرین کے لیے سابق سیکورٹی افسران کو بھرتی کررہی ہے
بحرین کی ایک اہم شخصیت کے پاکستان آنے کا اسی ماہ امکان بھی ہے وہ اہم شخصیت بحرین کے حکمران بھی ہوسکتے ہیں اور بحرین و پاکستان کے درمیان اس دوران بہت سے اہم دفاعی و سیکورٹی معاہدات ہونے کا امکان ہے پاکیستان –سعودیہ عرب کے موجودہ سٹریٹجک تعلقات کی ایک اور جہت ایران بھی ہے،وزرات خارجہ کی ترجمان نے جمعہ کے روز صحافیوں کی جانب سے ایران-پاکستان گیس پائپ لائن بارے پاکستانی سرد مہری کا زکر جب کیا تو ترجمان وزرات خارجہ تسنیم اسلم نے اسے بورنگ قرار دے دیا،اور اس سے پہلے وہ اس ایشو پر پاکستانی حکومت کے ناقدین کو جاہل قرار دے چکی تھیں ایک بات تو طے ہے کہ جب سے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبد العزيز کی واپسی ہوئی ہے ایران-پاکستان تعلقات میں مزید سردمہری دیکھنے کو ملی ہے،ایرانی باڈر سیکورٹی فورسز کی جانب سے پاکستانی علاقے پر مارٹر شیلنگ کے معمول بن جانے اور پاکستانی سرحد سے ایرانی بلوچستان میں جاکر دھشت گردوں کے کاروائی کرنے کی خبروں میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے موجودہ حکومت سعودیہ عرب اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مڈل ایسٹ میں جاری عسکری اور سیاسی خلفشار کا جس طرح سے حصّہ بننے جارہی ہے اور اس کے پیچھے بھی پیسہ ملوث ہے اس کا نتیجہ بہت بھیانک نکلے گا پاکستان کے شہری پہلے ہی دیوبندی تکفیری کلنگ مشین کی درندگی اور بربریت کا شکار بن رہے ہیں وہ پرائی آگ میں مزید جھلسیں گےجو مڈل ایسٹ سے سفر کرتی ہوئی پاکستان پہنچے گی اور پاکستان کی شیعہ آبادی،بریلوی،ہندؤ،کرسچن اور احمدی اس آگ کا سب سے زیادہ نشانہ بنیں گے پاکستان اپنے وقت کے سب سے کٹھن اور مشکل دور سے گزر رہا ہے اور یہاں یہ بات غور کے قابل ہے کہ مسلم لیگ نواز پاکستان کے شیعہ اور بریلویوں کی نسل کشی،ہندؤں،عیسائیوں،احمدیوں اور سیکولر لبرل لوگوں کی دیوبندی تکفیری کلنگ مشین کے ہاتھوں پراسیکوشن کے باوجود اور سیکورٹی و پولیس کے نوجوانوں کی ہلاکت کے باوجود تحریک طالبان پاکستان اور دوسری تکفیری دیوبندی کلنگ مشین سے جڑی تنظیموں کے ساتھ ملنے کے لیے بے تاب نظر آتی ہے یہ سب اس حقیقت کے باوجود ہورہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور ان کے جملہ حمائتی پاکستان کے اندر دیوبندی تکفیری خارجی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں جس کے ماننے والے اس ملک میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں میاں محمد نواز شریف دوسرے رفیق حریری بننا چاہتے ہیں اور وہ اس ملک کو مکمل طور پر سعودیہ عرب کے تابع کرنے کے خواہش مند ہیں نواز حکومت ایک ایسے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کے تحت پاکستان کا سارے کا سارا سیکورٹی سیٹ اپ،پارلیمنٹ اور پاکستان کا سیاسی نظام سعودی عرب کی علاقے ميں چودھراہٹ کو قائم کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہے میاں محمد نواز شریف اور ان کے ساتھی پاکستان اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے درمیان تعلقات میں توازن رکھنے کی بجائے سارے اںڈے سعودیہ عرب کی ٹوکری میں ڈالنے کی بھیانک غلطی کررہے ہیں اس عمل سے ان کے اور ان کے حواری بزنس مینوں کے کاروبار تو ترقی کرسکتے ہیں اور وقتی طور پر معاشی اشاريے بھی بہتر ہوسکتے ہیں لیکن اس کے آخری نتائج بہت خطرناک ہوں گے ہم سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کی ہم نواء اسٹبلشمنٹ کے اندر گونجنے والی آوازیں سٹریٹجک گہرائی کی پالیسی اور اس کا سب سے بڑا ستون جہادی پراکسی کی حدیں مزید وسیع کرنے کے راستے پر چل پڑی ہیں پاکستان میں دیوبندی تکفیری کلنگ مشین تو یہ حدیں پہلے ہی سے بڑھا چکی ہے اور اس نے ایک طرف تو خود کو چین کے باڈر سنکیانگ تک اپنے آپ کو بڑھایا ہے اور یہ چینی وہابی-دیوبندی دھشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف یہ وسط ایشیا اور روس تک پہنچ گئے ہیں اور ازبک،تاجک،چیچن دھشت گردوں کے لیے شمالی وزیرستان،افغانستان کا صوبہ کنڑ اور نورستان ان کے لیے محفوظ جنت بن چکا ہے جبکہ شام ،عراق اور ایران تک ان کا نیٹ ورک پھیل رہا ہے نواز حکومت اور پاکستانی فوج ،آئی ایس آئی کے اندر بیٹھے ہوئے بہت سے جہادی جرنیل اور افسران اس پھیلاؤ سے فائدہ اٹھانے کی سوچ رکھتے ہیں اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ سٹف آسانی سے مڈل ایسٹ میں سعودیہ عرب اور گلف ریاستوں کے لیے استعمال کیا جائے تو پاکستان کے ہاتھ بہت بڑی دولت ہاتھ آئے گی اور وہ 80ء کی دھائی کی طرح دولت میں سر سے پیر تلک غرق ہوجائیں گے لیکن اس کی قیمت کیا ادا کرنی ہوگی ؟اس کا اندازہ لگانے کا فن کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے لیکن اس بڑے سودے کو کامیاب بنانے کے لیے جو پیسا نواز حکومت اور سعودی سفیر بہا رہے ہیں اور یہ بہتا ہوا جن اداروں تک پہنچ رہا ہے وہ کیوں اس بارے میں لوگوں کو بتانے کی کوشش کریں گے

متعلقہ مضامین

Back to top button