مقالہ جات

طالبان سے مذاکرات پر خود ساختہ اتفاق ہوا میں تحلیل، فوج بھی الگ، نواز حکومت سولو فلائٹ کررہی ہے

army561حالیہ کورکمانڈر کانفرنس کے انعقاد کے دوران پاکستان آرمی کے جرنیلوں کے درمیان دیوبندی دھشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان سے موجودہ حکومت کے مذاکرات بارے جو بحث ہوئی اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان آرمی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے حکومتی ٹیم کا حصّہ نہیں بنے گی اور اس دوران بہت سے کورکمانڈرز نے مسلم لیگ نواز کی حکومت کے ٹی ٹی پی سمیت دھشت گردوں کے بارے میں اب تک اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر بھی تحفظات کا اظہار کیا پاکستان آرمی کے کور کماںڈرز کی اس کانفرنس کے بعد صاف نظر آتا ہے کہ فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف کو ان کے ساتھی جرنیلوں نے یہ باور کرایا ہے کہ فوج کے اندر دیوبندی دھشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا حصّہ بننے پر کوئی حمائت موجود نہیں ہے اور ان کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کا حصّہ نہیں بننا چاہئیے یہ مسلم لیگ نواز کی حکومت کے لیے ایک اور ناکامی اور دھچکہ ہے جو اس کی جانب سے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں سے بات چیت اور ممکنہ سمجھوتے کرنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کے دوران لگا ہے میاں محمد نواز شریف جو آل سعود اور وہاں کی تکفیری مذھبی پیشوائیت کے ان گنت احسانات کے بوچھ تلے دبے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان کے اندر دیوبندی تکفیری خارجی ٹولے اور ان کے حامی دیوبندی سیاسی مولویوں کے ساتھ ایک غیراعلانیہ اتحاد میں ہیں حکومت بننے کے بعد سے اس کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ کسی بھی طرح سے وہ دیوبندی تکبفیری دھشت گردوں کے ساتھ ایک نام نہاد امن ڈیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور اس کے لیے اگر شریعت کے نفاذ کے نام پر دیوبندی تکفیری خارجی فکر ریاستی قوانین کی شکل میں کی حد تک ڈھالنا پڑے تو ڈھالا جائے اور اس کے لیے وہ پاکستان کی اہل سنت بریلوی،شیعہ،ہندؤ،احمدی،عیسائی برادریوں کی کلچرل مذھبی آزادی،ان کے ںظریات پر پابندیاں اور ان کے شعائر ورسوم کی ادائيگی کو محدود کرنے جیسے اقدامات کو معمولی قربانی خیال کرتے ہیں وہ پاکستان کے اندر شیعہ کی نسل کشی،اہل سنت بریلوی کے مزارات پر حملوں اور ان کے علماء کا قتل معمولی خیال کرتے ہیں مسلم لیگ نواز کی حکومت اور ان کے وزیرداخلہ خاص طور پر دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کی بربریت اور درندگی کو کم کرکے دکھانے اور پاکستان کی عوام کے قتل میں ان کو زمہ دار ٹھہرانے سے گریز کرتے ہوئے ابہام اور الجھن کو بڑھانے پر یقین رکھتی ہے یہاں تک کہ اگر موجودہ حکومت کی کابینہ کا کبوئی وزیر غلطی سے سچ بولنے لگے اور دیوبندی طالبان کے عزائم کی ٹھیک خبر دے تو اسے خود نواز شریف اینڈ کمپنی کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف اس کی تازہ مثال ہیں مسلم لیگ نواز نے ایک جعلی اور خودساختہ قسم کا طالبان سے مذاکرات پر اتفاق کا ایک افسانہ تراش رکھا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خود اس جماعت کے اندر ممبران قومی اسمبلی اور سینٹ کی اکثریت دیوبندی دھشت گردوں سے مذاکرات کے خلاف ہے پارلیمنٹ کی تین جماعتیں اے این پی،پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی طالبان سے مذاکرات کی حمائت نہیں کررہی ہیں جبکہ دوسری طرف خود فوج کی جانب سے مذاکرات کا حصّہ نہ بننے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی مذاکرات کے مخالف ہیں اہل سنت بریلوی کی تمام تںظیمیں جن میں جماعت اہل سنت ،سنّی اتحاد کونسل،پاکستان سنّی تحریک،سنّی بریلوی مدارس کی تںظیم ،تنظیم المدارس ،تحریک منہاج القران اور 200 سے زائد جید مفتیان کرام دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کو تکفیری خارجی ٹولہ قرار دے چکے ہیں اور وہ طالبان سے مذاکرات کے سخت مخالف ہیں
اہل تشیع کی نمائندہ جماعتیں جن میں مجلس وحدت المسلمین،تحریک نفاذ فقہ جعفریہ،شیعہ علماء کونسل،جعفریہ الائنس وغیرہ شامل ہیں بھی بات چیت ڈرامے کو مسترد کرچکے ہیں اور تو اور طالبانی فسطائیت اور دھشت گردی کی جہادی تعبیریں کرنے والے جے یوآئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ حکومت نے طالبان کو متوازی ریاست اور برابر کے فریق کا درجہ دے رکھا ہے اور انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے ان سے اختلاف کرنے والے کئی دیوبندی عالموں کو ہلاک کیا ہے
اگرچہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے ایسی باتوں کی ایک وجہ طالبان سے مذاکرات میں حکومت کا سمیع الحق کو اہمیت دینا اور طالبان کی جانب سے بھی ان کی قیادت و سیادت کو اہمیت نہ دینا الٹا ان کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکی دینا ہے اور اس کا مطلب دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء کی اکثریت کا طالبان و اہل سنت والجماعت کی تکفیری خارجی کاروائيوں سے صرف نظر کرنے کے پول کو کھلنے سے بچانا ہے ادھر وکلاء برادری بھی اسلام کورٹ میں ایک جج سمیت درجنوں وکلاء اور شہریوں کے دیوبندی دھشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعے پر وفاقی وزیر داخلہ کی لن ترانیوں اور دیوبندی دھشت گردوں کو پاکستان کے حامی اور اسلام پسند قرار دینے نے غصّہ دلایا ہے اور ان میں بھی طالبان سے بات چیت کی حمائت آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے اس سے صاف نظر آرہا ہے کہ نواز حکومت کا دیوبندی دھشت گردی پر جو موقف بنا ہوا ہے اور وہ جس طرح سے دیوبندی دھشت گردوں سے ہاتھ ملانے کی خواہش رکھتی ہے اسے عوام،فوج ،سول سوسائٹی کی اکثریت کی حمائت حاصل نہیں ہے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا دھشت گردی کے بارے میں جو نام نہاد وژن ہے وہ عوامی حلقوں میں اس کی غیرمقبولیت کا سبب بنا ہوا ہے عوام کے اندر دیوبندی دھشت گردوں کے خلاف اب تیزی سے قائم ہونے والی رائے نے پاکستان تحریک انصاف کے اندر اس ایشو پر سخت اختلاف کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے عمران خان بھی اب اپنے طالبان خان چولے کو کسی حد تک اور رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں ایک طرف تو پاکستان میں بسنے والی مذھبی برادریوں شیعہ،اہل سنت بریلوی،ہندؤ،احمدی،عسائی وغیرہ ،حقیقی لبرل سیکولر عناصر ،فوج کے ایک بڑے حصّے میں دیوبندی تکفیری دھشت گردی کے خلاف رائے اتفاق کا روپ دھار رہی ہے تو دوسری طرف پاکستان کا اردو،انگریزی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا غالب حصّہ نواز حکومت اور دیوبندی دھشت گردی کے درمیان ںظر آنے والی ہم آہنگی کا ساتھ دینے میں مصروف ہے کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا جلی سرخیوں کے ساتھ ایسی رپورٹیں شایع کررہا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ نواز حکومت کے “باصلاحیت وزیر داخلہ”جو دیوبندی طالبان کے سب سے بڑے ترجمان اور دفاع کرنے والے سپوت بنکر ابھرے ہیں کے بارے میں گہری سازش کا انکشاف کررہی ہیں اور یہ سازش کہا جارہا ہے کہ ان کے خلاف اندر اور باہر سے ہورہی ہیں؟ 8مارچ کو ڈان ڈاٹ کام نے سب سے اوپر یہ رپورٹ شایع کئے رکھی کہ چوہدری نثار کی جانب سے اسلام آباد والے واقعے کو نیا رنگ دینے پر ان کے نواز شریف سے فاصلے بڑھ رہے ہیں
نومارچ 2013ء کو روزنامہ جنگ میں حامد میر نے اپنے کالم میں چوہدری نثار کے خلاف سازشوں کا زکر کیا اور پھر یہ بھی کہا کہ جوہدری نثار کو میاں نواز شریف کا اعتماد کامل حاصل ہے
‎سمجھتے ہیں کہ حامد میر چونکہ دیوبندی تکفیری خارجی دھشت گرد تنظیم اہل سنت والجماعت/لشکر جھنگوی،ٹی ٹی پی کے بہت زیادہ قریب ہے اور ایسی قربت اسے نواز حکومت سے بھی ہے تو وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ دیوبندی دھشت گردوں کے دفاع اور ان کی حمائت میں نواز شریف،شہباز شریف،رانا ثناءاللہ اور چودھری نثار ایک قطار میں کھڑے ہیں میڈیا نے تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے گزشتہ لکھے ہوئے ادارئے کی تصدیق کی ہے کہ شہزادہ سلیمان بن عبدالعزیز کا دورہ پاکستان ،مولوی سمیع الحق اور امیر جماعت اسلامی منور حسن کا دورہ سعودیہ عرب کی ایک کڑی دیوبندی طالبان کو فائر بندی کے ساتھ ساتھ حکومت سے ڈیل کرنے پر آگے بڑھنے کا تھا اخبارات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سعودی سفیر نے حقانی نیٹ ورک،افغان طالبان اور وفاق المدارس کے اہم ترین لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور دیوبندی دھشت گرد نیٹ ورک سے نواز حکومت کے ممکنہ ڈیل کی راہ ہموار کرانے کا اہتمام کیا اس سارے عمل میں پاکستان کی سب سے طاقتور سمجھی جانے والی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے بارے میں یہ خبریں ہیں کہ وہ نواز حکومت کی جانب سے طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنے والی ٹیم میں اپنا نمائندہ بھیجے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایس آئی نے حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان میں اپنے روابط کے زریعے نواز حکومت کو ٹی ٹی پی کے قریب لانے میں اسی طرح سے کردار ادا کیا ہے جس طرح کا کردار یہ ایجنسی مسلم لیگ نواز اور دیوبندی اہل سنت والجماعت،لشکر جھنگوی کے درمیان باہمی معاہدہ کرانے میں ادا کرچکی ہے آئی ایس آئی کے اس مبینہ کردار کی وجہ سے یہ افواہیں زور و شور سے پھیل رہی ہیں کہ نیشنل سیکورٹی کی پالیسی میں فوجی قیادت اور آئی ایس آئی ایک باب پر نہیں ہیں اور آئی ایس آئی شمالی وزیرستان سمیت فاٹا سے دیوبندی دھشت گرد ڈھانچے کز سرے سے جڑ سے اکھاڑنے کے خلاف ہے ویسے سعودی عرب کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنرشپ اور اس کے شام ،بحرین کے لیے تیار کئے جانے والے ماڈل کے پس پردہ پاکستانی فوج کی قیادت سے زیادہ آئی ایس آئی کے افسران کا زہن کارفرما ہونے کی خبریں بھی آرہی ہیں نواز حکومت مشترکہ مرکزی انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے جس منصوبے پر کام کررہی ہے اس کے تحت لگتا ہے کہ 26 ایجنسیوں کو باقاعدہ آئی ایس آئی کے کنٹرول میں دینے کی تیاری شروع ہوگئی ہے یہ خبریں پاکستان میں بسنے والی اور دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کا نشانہ بننے والی اہل سنت بریلوی،شیعہ، ہندؤ ،احمدیوں، عیسائیوں اور سیکولر لبرل حلقوں کے لیے ہرگز نیک شگون نہیں ہے ،اس کا مطلب یہ بھی ہے ان پر مذھبی جبر اور دباؤ مزید بڑھے گا اور ان کی مذھبی آزادیوں پر مزید حملے ہوں گے اور مزید نسل کشی اور خون ریزی ہوگی اس لیے تعمیر پاکستان ویب سائٹ کا خیال یہ ہے کہ اہل سنت بریلوی،شیعہ اور دیگر مذاکرات ڈرامے کے مخالفوں کی جانب سے مذاکرات کو مسترد کرنے کے بیانات دینے اور علامتی جلسے جلوس کرنے کافی نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر احتجاج اور تحریک کی طرف جانا چاہئیے کیونکہ اب جبکہ خود ساختہ فرضی اتفاق رائے سے بات چیت کرنے کا ڈرامہ اپنے انجام کو پہنچا تو نواز حکومت تنہا ہی مذاکرات کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگی ہے اور سب کی قربانی دینے کو تیار ہے تو اہل سنت بریلوی، شیعہ اور دیگر برادریوں کو سٹریٹ پاور کا ثبوت دینا لازم ہوگيا ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button