مقالہ جات

خدا کرے یہ وہم حقیقت نہ بنے

salam nawazیہ خدشات کے پنپنے کا موسم ہے۔ جہاں انتہا پسندی کا موضوع زیادہ سے زیادہ مین اسٹریم ہو رہا ہے، ہمیں اس قیمت پر گھر کرنا ایسے وقت میں مناسب ہوگا کہ اس قیمت کا بھی حساب لگا لیا جائے جو بیل آؤٹ کی مد میں ہماری آنے نسلیں چکائیں گی۔ ایک مفید مثال کے طور پر سعودی عرب کے ولی عہد کے حالیہ دورہ پاکستان کا ہی جائزہ لیتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس نے مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو بیل آؤٹ کرنے اور معاشی مشکلات سے نکلنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ساتھ ہی کشمیر کے زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد امداد اور سرمایہ کاری کے نام پر نقد ادائیگیاں بھی کیں۔

تاہم گذشتہ شاہی دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے کو پڑھ کر خدشات سر اٹھانے لگے ہیں۔ کسی بھی سعودی شاہی مہمان کی پاکستانی ریاست کے سربراہ سے ہونے والی آخری ملاقات کا اعلامیہ فلسطین کے ذکر سے بھرا پڑا تھا، یعنی اعلامئے کے دو پیراگرافس میں صرف اس حوالے سے لکھا ہوا تھا۔ اس مرتبہ، ہمیں شام پر دو پیراگراف نظر آئے، جس میں پاکستان پر تنازعہ میں ایک فریق کی حمایت کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ بشار الاسد کے بعد ابھرنے والے سیاسی آرڈر کیلئے تیار رہے۔

ایک قومی اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ کے الفاظ میں "رابطہ کرنے پر سینیئر حکومتی اہلکار کا اصرار تھا کہ شام کے بارے میں پاکستانی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، تاہم ذرائع کہتے ہیں شام پر سعودی عرب کی حمایت کے بدلے، اس بات کہ امکانات ہیں کہ پاکستان کو تیل کی دولت سے مالامال اس بادشاہی سلطنت سے پرکشش دفاعی معاہدے اور دیگر معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔” یہ الفاظ اور زبان بالکل وہی ہے جو اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب حکومت بتانا کچھ چاہتی ہو اور بیان کچھ اور کر رہی ہو۔ ایسا لگتا ہے جیسے ایک خاص زاویہ تراشا جا رہا ہے اور یہ کون سا زاویہ ہے اسے جانچنے کیلئے اعلامئے کے الفاظ کی زیادہ جانچ پڑتال کی بھی ضرورت نہیں۔ حکومتیں گرانے کا موسم قریب آ رہا ہے اور ہر ایک کے پاس شکار کی فہرست موجود ہے۔ ہماری حکومت کی نگاہیں اس حکومت پر ٹکی ہیں جو امریکی، افغانستان میں اپنے پیچھے چھوڑ کر جائیں گے جبکہ سعودیوں کی نظریں بشار الاسد کی حکومت پر ہیں۔

افغانستان کے حوالے سے بیان میں "افغان مفاہمتی عمل کی حمایت” کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل اور آئندہ انتخابات کی بھی بات کی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے سعودی عرب کہہ رہا ہو، "افغانستان جاتا ہے تو جائے، بشار الاسد کو پکڑ لیتے ہیں۔” مگر اس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ "دفاع کے شعبے میں بہتر تعلقات اور کوآپریشن” اور "سرمایہ کاری، تجارت، توانائی، انفراسٹرکچر میں اضافے اور بہتری” کیلئے کام کرنے کو کس چیز سے تعبیر کریں گے۔؟ اب تک دو معاہدوں کا اعلان کیا جاچکا ہے، جن میں سے ایک راولپنڈی اور دوسرا اسلام آباد کیلئے ہے۔

پریس کے مختلف حصوں میں یہ رپورٹس بھی آچکی ہیں کہ جے ایف سترہ طیاروں اور شاید الخالد ٹینک کے بھی معاہدے بھی ہو جائیں۔ اسی دوران، ریاست کے کنٹرول کردہ پریس میں رپورٹ کیا جا رہا ہے کہ سعودی بیسک انڈسٹریز کارپوریشن سے یوریا کھاد کی درآمد کیلئے 125 ملین ڈالر قرضہ حاصل کرنے کی منظوری حاصل کر لی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، چترال میں گولڈن گول ہائیڈرو پاور پروجیکٹ (جس کی پیداواری صلاحیت سو میگا واٹ کے قریب ہے) کیلئے بھی 57 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی خبریں بھی آئی ہیں۔

میں عمر گزرنے کے ساتھ شاید وہمی ہوتا جا رہا ہوں۔ جب بھی کسی دفاعی معاہدے کا نام سنتا ہوں، میرے کانوں میں "کک بیکس” کا لفظ گونجنے لگتا ہے۔ میں جب بھی یوریا درآمد کے بارے میں سوچتا ہوں، میرے ذہن میں جنوبی پنجاب کے چنچل اور شوخ زمیندار آ جاتے ہیں جن کی وفاداری ہر لمحہ سب سے اونچی بولی لگانے والے کیلئے بدل سکتی ہے، اور یہ وفاداری ہر کوئی خریدنا بھی چاہتا ہے۔ تاہم ایک بیرونی طاقت کا پاکستان میں اپنا رستہ بنانے کیلئے پنڈی اور اسلام آباد میں ایک ساتھ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کیلئے جتن کرنا سوچنے پر مجبور کرتا ہے، اور اس کام کیلئے دفاعی معاہدوں اور درآمدی قرضوں سے بہتر چارہ کیا ہوسکتا ہے جو ایک ہی وقت میں کئی کام کرسکتا ہے۔ یعنی ادائیگیوں کے توازن کی سپورٹ اور بجٹ میں اس کی افادیت کے ساتھ ساتھ آپ کے کاموں کی بنا سوچے سمجھے سرپرستی۔

تاہم جتنا ہمیں بتایا گیا ہے اس سے کہیں زیادہ آنے والا ہے، وہ کینوس جس پر یہ تعلق قائم کیا جائے گا بہت بڑا ہے۔ مثال کے طور پر 2006ء کے بیان میں دونوں ملکوں نے "اپنے ملکوں کی متعلقہ عوام کی خدمت کیلئے یکجا ہو کر کوششیں کرنے اور پوری امّہ” کی بات کی تھی، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ایک انتہائی غیر فعال مشترکہ مقصد ہے جو کہ اپنی سرحدوں میں رہے گا۔ تاہم، اس سال کے بیان میں "مسلم امّہ کے مقاصد کو پروان چڑھانے” کی بات کی گئی ہے، جس سے کوئی یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ آخر وہ مقاصد کیا ہیں؟ مختلف فرقوں کا آرام سے ایک ساتھ رہنا اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ۔؟ کیا پاکستان کو شام کے حوالے سے سعودی مؤقف کی حمایت کے بدلے جھوٹے کھلونے دے کر بہلایا تو نہیں جا رہا۔؟ کیا اس تبدیلی میں بھی کوئی تسلسل ہے۔؟

میرا پہلا خدشہ یہی ہے۔ جب سپرپاور کا انخلاء ہوگا اور اس دور پر پردہ پڑ جائے گا، جب اپنی جیو پولیٹیکل پوزیشن کے نام پر پاکستان نے بہت سے فوائد حاصل کئے۔ اس خلاء کو پر کرنے کیلئے دوسری قوتیں داخلہ چاہیں گی اور اس کام کیلئے انہیں جہادی انٹرپرائز کی خدمات کی ضرورت پڑے گی۔ بہرحال، ہم سب یہ تو جانتے ہی ہیں کہ ان لوگوں کو لڑنا آتا ہے اور یہ وہ صلاحیت اور قابلیت ہے جس کی ہمارے پڑوس میں بہت زیادہ ضرورت پڑنے والی ہے۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ سپر پاور نے ہماری فوج کی خدمات کرائے پر حاصل کی تھیں، پھر جہادیوں کی اور ایک بار پھر ہماری فوج کی۔ اس کے بدلے ڈیموں کی بڑی بڑی باتیں، پانچ سالہ منصوبے اور انڈسٹریالائییزیشن اور ترقی کے شاندار ماڈل، نیا علاقائی خریدار ان ہی باتوں کا ذکر کرے گا، ترتیب شاید ادھر ادھر ہوجائے۔

کون جانتا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاوضے میں کمی سے فوج کے مزدوروں میں اضافہ ہوجائے، جس سے پوری انٹرپرائز کو آزاد کرانے میں مدد ملے۔ ایک نئی دنیا کیلئے ایک نیا چکر، ہماری اپنی آنکھوں کے سامنے پیدا ہو رہا ہے۔ آپ نے شاید "ملٹری ان کارپوریٹڈ” کے بارے میں سنا ہو، ملئے اس کے اکیسویں صدی کے ورژن، "جہاد ان کارپوریٹڈ” سے۔ جیسا میں نے پہلے کہا، عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ میں وہمی ہوتا جا رہا ہوں، مگر مجھے امید ہے کہ میرے وہم حقیقت نہ بنیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button