مقالہ جات

!ڈوب مرو

imrankhan1آدھی لڑائی تو ہم کافی عرصے پہلے اسی وقت ہارچکے تھے جب ہماری قومی قیادت نے تشدد آمیز خطابت اور دنگا فساد کو جائز قرار دیا تھا اور اب تو یہ مکمل طور پر اپنی شکست تسلیم کر لینے کے برابر ہے- تو، اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے کہ کتنے لوگ مارے جائیں، کتنی مذہبی درگاہیں بم سے تباہ کردیجائیں یا کتنے فوجیوں کودھماکے سے اڑادیا جائے؛ یہ ہماری جنگ اب ویسے بھی نہیں ہے-

قاتل اپنی ذمہ داریوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ یہاں تک کہ ٹی وی کے ٹاک شوز پر آکر فخریہ اپنے خیالات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں- کوئی بات نہیں، وہ ہمارے بھٹکے ہوئے گمراہ بھائی ہیں بس صرف سرحد پار امریکی فوجوں کی موجودگی اور ڈرون حملوں میں اپنے لیڈروں کے مرنے کی وجہ سے تھوڑے سے ناراض ہیں-

آپ بھول جایئے کہ ہزاروں معصوم شہری دہشت گرد حملوں کا شکارہوئے ہیں؛ یہ بھول جایئے کہ ہمارے فوجی اور پولیس افسر فرائض کی انجام دہی میں مارے گئے؛ یہ بھی بھول جایئے کہ ہنگو میں ایک نوجوان لڑکے نے اپنے اسکول کے ساتھیوں کی جان خودکش بمبار سے بچاتے ہوئے، اپنی جان دیدی — ہمیں لازمی طور پر ان ناراض لوگوں سے ہر صورت میں ان کی شکایات دور کرنے کیلئے بات کرنی چاہئے-

"امن کو ایک موقع دینا چاہئے”

اپنی شکست کو جواز دینے کیلئے آجکل یہ سب سے محبوب منتر ہے- صرف بات چیت واحد طریقہ ہے، وہ ہم آواز ہو کر کہتے ہیں- مگر ہمیں بات کرنی کس سے ہے؟ کیا سایوں سے؟

پچھلے سات مہینوں سے قوم کو بار بار یہ یقین دلاکر کہ مذاکرات کے ذریعہ امن کا قیام بالکل ممکن ہے اب حکومت پشیمان چہرہ لئے ہوئے کسی ایسی ہستی کی تلاش میں ہے جو اسے اس شرمندگی سے بچا سکے-

یہ اب اس کوشش میں ہے کہ کسی مذہبی جماعت کے لیڈر کے ذریعہ سے جس کے تشدد پسندوں سے رابطے ہوں ان سے بات چیت کی کوشش کی جائے- لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس سے بھی بات نہیں بن رہی ہے، کیونکہ طالبان حکومت کی ان کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کو اس کی کمزوری سمجھ کر اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سخت گیری کا مظاہرہ کررہے ہیں-

حالانکہ ان حالات میں مذاکرات کے شروع ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے وزیراعظم ابھی تک خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں- طالبان کے باربار انکار کے باوجود، ان کا اصرار ہے کہ مذاکرات کا راستہ ہی اس موجودہ صورت حال کو سدھارنے کی سب سے بہتر حکمت عملی ثابت ہوسکتی ہے- یا تو ان کی سمجھ میں بات آ نہیں رہی یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ یہ حکمت عملی کافی پہلے ہی ناکام ہو چکی ہے-

یہ بات کتنی مضحکہ خیزلگتی ہے، لیکن نوازشریف کی حکومت ابھی تک چاہتی ہے کہ ہم اس کی بات کا یقین کرلیں کہ بات چیت سے ملک میں امن اور استحکام ممکن ہے جبکہ دہشت گرد ہماری سیکیورٹی افواج پر مسلسل حملے کررہے ہیں-

شریف صاحب کا اپنی ناقص سوچ پر مستقل مزاجی سے جمے رہنا اور یہ سمجھنا کہ اس طرح مسائل حل ہوجائینگے پہلے ہی قوم کو کافی مہنگا پڑا ہے، بھاری جانی نقصان کی صورت میں اور اندرونی استحکام کے متاثر ہونےمیں- بنوں میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ جس میں دو درجن کے قریب فوجی جوان ہلاک ہوئے طالبان کے بڑھتے ہوئے ڈھیٹ پن کی ایک علانیہ مثال ہے-

بنوں کے واقعہ کے فوراً بعد، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان نے ایک مشروط مذاکرات کی پیشکش کی جس کا واضح مطلب یہ پیغام دینا تھا کہ وہ گروپ طاقت کے بل پر اور اپنی شرطوں پر مذاکرات کرنا چاہتا ہے- یہ طریق کارعموماً دہشت گرد عوامی رائے کو تقسیم کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں- لیکن حکومت اور معذرت خواہانہ رویہ رکھنے والے بہت آسانی سے اس جال میں آجاتے ہیں-

یہ بات اب اور زیادہ صاف ہوتی جارہی ہے کہ شریف حکومت طالبان سے سودے بازی کیلئے ہر حد پار کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ پنجاب کو نشانہ نہ بنائیں- ویسے یہ پالیسی ملکی وحدت کیلئے خطرہ ہوسکتی ہے- لیکن، راولپنڈی میں دہشت گردوں کا حالیہ حملہ، بہرحال، یہ ثابت کرتا ہے کہ پنجاب بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے اور یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے کہ وفاقی حکومت ٹی ٹی پی کے ان لیڈروں سے مذاکرات کرناچاہ رہی ہے جنکے خلاف حکومت سندھ نے چودھری اسلم کے قتل کا مقدمہ درج کرایا ہے جو دہشت گردی کے خلاف صوبائی مہم کے سربراہ تھے-

حکومت طالبان کو منانے کیلئے اتنی بےچین ہو رہی ہے کہ یہ اب مولانا سمیع الحق اور منور حسن جیسے لوگوں کی مدد لینا چاہ رہی ہے جن کی عسکریت پسندوں کے ساتھ ہمدردی سے سب واقف ہیں- یہ دونوں طالبان کی طرف سے تو بول سکتے ہیں، لیکن امن کی باتیں کرنا ان کے بس کی بات نہیں- کوئی کیسے جماعت کے سربراہ کا حکیم اللہ محسود کو ‘شہید’ قرار دینا بھول سکتا ہے؟ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ طالبان مذاکرات کا ایک ضامن ان کو بنانا چاہتے تھے-

سمیع الحق کی ساکھ ان سے کم داغدار نہیں ہے- ملک کے ایک سب سے بڑے اور کٹر مذہبی مدرسے کے سربراہ کے طور پر جس کی اکثر جہادیوں کی یونیورسٹی کے طور پر توضیح کی جاتی ہے وہ بڑے دھڑلے سے تشدد پسندوں کے ساتھ اپنے نزدیکی تعلقات کا اعلان کرتے ہیں-

اور صرف وفاقی حکومت ہی نہیں ہے جس پر یہ الزام ہے بلکہ عمران خان بھی اپنے زہریلے بیانات کی وجہ سے اس شرمناک شکست خوردگی کے لئے ذمہ دار ہیں- اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ وہ اس جھگڑے میں کس طرف کھڑے ہیں- درحقیقت عمران خان طالبان کے مقاصد کے سب سے بڑے وکیل ہیں- خیبر پختونخوا میں روز بروز بڑھتے ہوئے دہشت گردوں کے حملوں کا جواز ہی صوبائی حکومت کی طالبان کی حمایت ہے-

وزراء دہشت گردی کے ہر حملے کے بعد طالبان کے دفاع میں بیان دیتے ہیں- اس رویہ کی وجہ سے صوبہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوصلے پست ہوئے ہیں- پی ایم ایل-ن اور پی ٹی آئی کے درمیان پنجاب میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی زبردست جنگ ہورہی ہے-

اور اب جب موت کا بھیانک ناچ جاری ہے، ایک نئی کل پارٹی کانفرنس بلانے کی باتیں ہورہی ہیں- یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ کل پارٹی کانفرنسوں کا مقصد نازک پالیسی مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ذمہ داریوں سے بچنا ہوتا ہے- اس بات کو کئی مہینے ہوچکے ہیں جب تمام پارٹیوں کے لیڈروں نے مل کر حکومت کو جارحیت پسندوں سے مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا- لیکن جیسا کہ امید تھی کچھ بھی نہیں ہوا- اور اس بار بھی کچھ ہونے کی امید نہیں ہے سوائے وقت ضایع ہونے کے-

سات مہینے کی بے عملی نے جارحیت پسندوں کو نہ صرف کے پی میں بڑھ چڑھ کر دہشت گرد حملے کرنے کا موقع فراہم کیا بلکہ کراچی کو بھی ایک نئے میدان جنگ میں تبدیل کردیا اور اب پنجاب بھی اس جنگ کی گرمی کو راولپنڈی میں حالیہ دہشت گرد حملے کی وجہ سے محسوس کرنے لگا ہے- شکست خوردہ ذہنیت کے خطرناک نتائج ایسے ہی ہوتے ہیں-

زاہد حسین

بشکریہ ڈان ڈٹ کام

متعلقہ مضامین

Back to top button