مقالہ جات

زید حامد کی تکفیری دیوبندیوں کے ہاتھوں جاری شیعہ نسل کشی کو چھپانے کی کوشش –

zaid hamidبعض لوگ نادانی اور بعض مخفی بغض کے باعث کہتے ہیں کہ جی آپ اہل تشیع کے قتل کو شیعہ نسل کشی یا جینو سائیڈ نہ کہیں کیوں کہ دیکھیں نہ پاکستان میں کتنے بم دھماکے ہوئے ہیں اور ان میں صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ اہل سنت اور اقلیت کے لوگ بھی مرے ہیں، لہٰذا جب آپ اسے شیعہ نسل کشی یا جینو سائیڈ کہتے ہیں تو اس میں فرقہ وارانہ رنگ آ جاتا ہے اور اہل تشیع کو چاھئے کہ خود کو پاکستان اور اسلام کے ساتھ ملا کر رکھیں اور شیعہ نسل کشی کا کہہ کر تنہائی کی طرف نہ جائیں۔ بلکہ مزید کچوکہ یہ بھی لگاتے ہیں شیعہ نسل کشی کہنا دراصل خود ترسی ہے۔ اس صریح منافقت اور حب الوطنی کے نام پر حقائق کو چھپانے کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو
ایسے منافقوں اور نادانوں سے سوال ہے کہ جب اہل تشیع کو خاص طور پر ڈھونڈ کر ان کے عقائد کی وجہ سے ملک بھر میں ریاستی اداروں کی سرپرستی میں کام کرنے والے “جہادی” گروپس ایک منظم انداز میں قتل کریں تو اسے شیعہ نسل کشی نہ کہیں تو کیا نام دیں؟ کوئٹہ، پارہ چنار، کراچی، گلگت، کوہستان، چلاس اور ملک کے دیگر علاقوں میں جب اہل تشیع کو صرف ان کے مذہب کی بنا پر بسوں سے اتار اتار کر گولیوں سے بھونا جائے اور بم دھماکوں کے ذریعے انتہائی سفاکی سے قتل کیا جائے تو اسے شیعہ نسل کشی نہ کہیں تو کیا نام دیں؟ پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے قتل کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں فوجی آمر ضیاء الحق کے دور سے تیزی آ گئی اور اب تک مقتدر قوتوں کے پالےہوئے نام نہاد جہادیوں کے ہاتھوں اتنے شیعہ مسلمان قتل ہو چکے ہیں کہ اعداد و شمار رکھنا بھی ایک کارِ دشوار ہے، اسے شیعہ نسل کشی نہ کہیں تو کیا نام دیں؟ یہ درست ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع کے ساتھ اہل سنت بریلوی اور معتدل دیوبندی بھی تکفیری دیوبندی (سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور طالبان) دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے بے گناہ پاکستانی بھی ان دہشت گردوں کی تیغِ ستم کا نشانہ بنے ہیں لیکن خاص طور پر اہل تشیع کو ان کے عقائد کی وجہ سے نشانہ بنایا جا ہا ہے اور ہزاروں بے گناہ شیعہ ڈاکٹرز، دانشور، انجینزرز، وکلاء، خطباء اور علماء کو شہید کر دیا گیا، اسے شیعہ نسل کشی نہ کہیں تو کیا کہیں؟ فرض کریں کہ خدانخواستہ کسی دہشت گردی کے واقعے میں کوئی بے گناہ پنجابی، بلوچ، سندھی یا پختون شہید ہو جاتا ہے تو اسے پنجابی کشی، سندھی کشی، بلوچی کشی اور پختون کشی اس لئے نہیں کہیں گے کیوں کہ ان لوگوں کو ان کی نسل یا عقائد کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا بلکہ دہشت گردوں کا ہدف بس زیادہ زیادہ سے زیادہ لوگ مارنا تھا تاکہ خوف و ہراس پھیلایا جائے۔ ہاں اگر کسی خاص طبقے کو اس کے عقائد یا نسل کی وجہ سے ریاستی سرپرستی میں مستقل قتل کیا جائے تو پھر اسے بھی نسل کشی کہیں گے۔ زید زمان حامد جیسے لوگ جو شیعوں کے قتل پر شیعوں پر ہی لیکچر جھاڑتے ہیں کہ آپ اسے شیعہ نسل کشی نہ کہیں کیوں کہ اس میں فرقہ وارنہ رنگ آ جا تا ہے، وہ ریاست کی سرپرستی میں کام کرنے والے ان دہشت گردوں اور قاتلوں کو لیکچر کیوں نہیں دیتے کہ آپ اہل تشیع کو ان کے عقائد کی وجہ سے قتل نہ کریں کیوں کہ یہ فرقہ واریت ہے اور ہم سب مسلمان ہیں، پہلے اسلام بعد میں فرقہ؟ یہ کہاں کی منطق ہے کہ جو قتل ہو رہا ہے وہی فرقہ واریت کا ذمہ دار ہے؟ قاتل قتل کرتے رہیں تو یہ فرقہ واریت نہیں لیکن اگر مقتولین کے ورثاء صرف قاتل اور مقتول کی شناخت ظاہر کر دیں تو یہ فرقہ واریت ہے؟ شیعہ نسل کشی کو چھپانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ قاتلین اور مقتولین کی شناخت چھپائی جائے اور اسے کہا جائے کہ بس پاکستانی اور مسلمان مر رہے ہیں اور یہ کہا جائے کہ ہم سب مسلمان ہیں لہٰذا فرقے کی بات نہ کرو۔ سوال یہ ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں تو صرف شیعہ مسلمانوں کو ہی کیوں قتل کیا جا رہا ہے۔ اور یہ ” ہم سب مسلمان ہیں” کا نعرہ اس وقت کیوں نہیں لگایا جاتا کہ جب تکفیری عناصر اہل،تشیع کو کافر قرار دے رہے ہوتے ہٰیں اور اسی کو بنیاد بنا کر شیعہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں؟ جب کسی کو اس کے عقائد کی وجہ سے قتل کیا جائے گا تو قاتل اور مقتول کی شناخت بھی عقیدے کی بنیاد پر ہوگی کیوں کہ یہی قتل کا محرک تھا۔ پاکستان میں اہلِ تشیع تو خود ایک نجس فرقہ وارانہ تکفیری ذہنیت کی بربریت کا شکار ہیں لیکن زید زمان حامد جیسے منافق لوگ شیعہ مسلمانوں پر ہی فرقہ واریت کا الزام لگا رہے ہیں جو ہر سانحے کے بعد شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ لگاتے ہیں اور تکفیری دہشت گردوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ فرقہ واریت تو تب ہو گی جب اہل تشیع اس قتل و ٖغارت کا الزام اہل سنت بھائیوں پر لگا دیں لیکن ایسا ہر گز نہیں کیا جاتا کیوں کہ پاکستان میں شیعہ، سنی مسئلہ نہیں بلکہ صرف تکفیری دیوبندی ٹولے کی یکطرفہ دہشت گردی ہے جس نے خود معتدل دیوبندی علما مثلاً مولانا حسن جان کو بھی شہید کیا ہے کیوں کہ وہ خود کش حملوں اور معصوموں کے قتل کے خلاف تھے۔ راولپنڈی کے افسوسناک واقعے کے بعد جس طرح اہل سنت اور اہل تشیع نے مثالی اتحاد کا ثبوت دیا اور تکفیری جھوٹے پروپیگنڈے کو بے اثر کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے اور تکفیری عناصر اس شیعہ سنی اتحاد کے باعث تنہائی کی طرف جا رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو تنہا کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ شیعہ اور سنی مل کر اس ٹولے کو بے نقاب کریں ۔ قاتلوں کی شناخت چھپانے سے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ ہم کب تک قومی مفاد کی آڑ میں ایک طبقے پر ظلم ہوتا دیکھتے رہیں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے جہادیوں کو معصوم ثابت کرتے رہیں گے؟کیا قومی مفاد اسی میں ہے کہ شیعہ خاموشی سے قتل ہوتے رہیں اور ان کے قاتلوں پر گمنامی کا پردہ ڈال دیا جائے؟ اگر کسی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شیعہ پاکستان اور اسلام کا حصہ ہیں تو وہ خود اہلِ تشیع نہیں بلکہ وہ دہشت گرد ہیں جو اہلِ تشیع کی تکفیر کرتے ہیں اور پھر انہیں قتل کرتے ہیں اور یہ بات ان دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے جو قتل و غارت گری کے جواز گھڑ کر لاتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ زید زمان حامد صاحب نجس فرقہ وارانہ ذہنیت کا شکارہونے والے مظلوم اہل تشیع کو لیکچر دینے کی بجائے ان دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو لیکچر دیں جن کی غلیظ ذہنیت نے ملکِ عزیز کو جہنم بنا دیا ہے اور حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستانی شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کریں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button