مقالہ جات

طالبان مذاکرات: امیدیں، خدشات اور تحفظات

apcاے پی سی اجلاس میں ملے جلے ردعمل اور کسی حد تک تحفظات کے باوجود عمومی طور پر حکومت اور طالبان مذاکرات کے عمل پر اتفاق رائے ہو گیا، اگرچہ حکومت نے اس سلسلے میں اہل تشیع کو اعتماد نہیں لیا ہے جو کہ ایک افسوسناک امر ہے کیونکہ ماضی میں طالبان کے دہشتگردانہ حملوں سے سب سے زیادہ شیعہ ہی متاثر ہوئے ہیں، چنانچہ شیعوں کو اعتماد میں لئے بغیر اس عمل میں پیچیدگیوں سے انکار کرنا حقیقت سے انکار ہوگا۔ اگرچہ شیعوں کے مذہبی جماعتوں میں سے شیعہ علماء کونسل کے رہنما علامہ سید ساجد علی نقوی نے مذاکراتی عمل کی حمایت کا اعلان کیا ہے تاہم ایک بااثر اور حال ہی میں تیزی سے ابھرنے والی جماعت مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ نے گذشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والی شہید عارف حسینی کی برسی کے موقع پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک شیعوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا، دہشتگردوں سے مذاکرات ہمیں ہرگز قبول نہیں۔ انکے علاوہ بھی حکومت نے پاکستان میں دیگر بااثر شیعہ تنظیموں کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی نشست نہیں رکھی نیز کسی اور ذریعے سے شیعوں کے تحفظات کو دور کرنے کی بھی کوئی مثبت کوشش نہیں کی گئی۔ صرف سیاسی جماعتوں، طالبان فکر کو ڈیویلپ کرنے والی فیکٹریوں کی مذہبی جماعتوں اور انکے اہم رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر مذاکرات کا عمل شروع کیا گیا۔ تا دم تحریر مذاکرات نتیجہ خیز دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ اس حوالے سے طالبان میں کافی دلچسپی پائی جاتی ہے۔ اہم طالبان رہنماؤں نے اس پر اپنے مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

مذاکرات پر اتفاق رائے ہونے کے بعد دونوں جانب سے مذاکراتی کمیٹیوں کے ارکان کو حتمی شکل دینے کے لئے صلاح مشورے تیز ہو گئے ہیں۔ آئندہ 2 سے 3 روز میں کمیٹیوں کے ارکان کا اعلان متوقع ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اس بار مذاکرات میں دونوں جانب سے گرمجوشی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، جسکے پیش نظر کامیابی کے قوی امکانات ہیں۔ ذرائع کے مطابق گذشتہ روز شمالی وزیرستان میں طالبان کا باقاعدہ اجلاس ہوا جس میں مذاکراتی کمیٹیوں کے ناموں اور شرائط پر مشاورت کی گئی۔ طالبان کی جانب سے جن 10 ارکان کے نام زیرغور ہیں، ان میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ، دارالعلوم کورنگی کراچی کے مہتمم مفتی رفیع عثمانی، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مہتمم ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، بنوری ٹاؤن کے استاذ الحدیث مولانا فضل محمد اور جامعۃ الرشید کراچی کے مولانا ابو لبابہ شاہ منصور شامل ہیں۔

البتہ دیگر 5 ارکان کے بارے میں ابھی تک طالبان کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ اسکی وجہ یہ معلوم ہوئی ہے کہ طالبان نے مذاکرات کے لئے جو پالیسی طے کی ہے اسکے مطابق کسی مذہبی سیاسی شخصیت کو کمیٹی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ بعض ناموں پر حکومت کی جانب سے بھی اعتراض کا خدشہ ہے، جسکے پیش نظر سپاہ صحابہ کے سربراہ احمد لدھیانوی، عبداللہ شاہ مظہر، لال مسجد کے خطیب شاہ عبد العزیز اور مولانا مسعود اظہر پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ جامعۃ الرشید کے مفتی ابولبابہ شاہ منصور معروف جہادی رہنما عبداللہ شاہ مظہر کے بھائی ہیں، چنانچہ مفتی ابولبابہ کے مذاکراتی کمیٹی میں شامل ہونے کی صورت میں عبداللہ شاہ مظہر کے شامل ہونے کا امکان ختم ہو جائے گا۔ اسکے علاوہ ملا نذیر اور حافظ گل بہادر گروپ سے پہلے ہی حکومت کے معاہدے ہو چکے ہیِں، چنانچہ اب اصل مذاکرات حکیم اللہ محسود گروپ سے ہونے ہیں، جسکے لئے حکیم اللہ محسود گروپ کی جانب سے عدنان رشید، شاہد اللہ شاہد اور سجنا محسود کی مذاکراتی کمیٹی میں شمولیت کا بھی امکان ہے اگر ان کی براہ راست شمولیت نہ ہوئی تو تب بھی ان افراد کا کمیٹی پر اثر ہوگا۔

دوسری جانب پنجابی طالبان کے عصمت اللہ معاویہ گروپ سے الگ مذاکرات ہونے کا امکان ہے۔ حکومت کی جانب سے ابھی کمیٹی کے ارکان کے نام سامنے نہیں آ سکے ہیں، لیکن یہی پالیسی رکھی گئی ہے کہ اس میں سیاسی و فوجی شخصیات شامل نہیں ہونگی۔ کمیٹی کے حکومتی ارکان کا انتخاب مذہبی پس منظر رکھنے والی غیر سیاسی معتبر شخصیات ہونگی۔ اس ضمن میں ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ میجر (ر) عامر اور انصار الامہ کے امیر فضل الرحمان خلیل دونوں جانب سے رابطہ کار کے طور ہر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا دونوں جانب اثر و رسوخ ہے۔ میجر عامر اشاعت التوحید و السنہ پاکستان (پنج پیری) کے امیر شیخ طیب کے بھائی ہیں، جن کی جماعت کا سواتی طالبان اور منگل باغ گروپ پر گہرا اثر ہے۔ گذشتہ دو ماہ سے وہ فریقین میں مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لئے رابطہ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب فضل الرحمان خلیل حرکت المجاہدین کے امیر رہے ہیں، جنکی جماعت کا نام تبدیل کرکے انصار الامہ رکھدیا گیا ہے۔ انکی سابقہ تنظیم حرکت المجاہدین کے وابستگان کی ایک بڑی تعداد بھی طالبان کا حصہ بن چکی ہے، جس کی وجہ سے وہ تنظیم میں اچھا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ حکومتی اداروں کے لئے بھی قابل قبول شخصیت ہیں۔

دوسری جانب یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت کی صورت میں حکومت فاٹا سے فوج نکالے گی کیونکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر نے غیر ملکی دباؤ پر فاٹا میں فوج بھیجی، جس سے ملک میں آگ لگی۔ چنانچہ ماضی میں طالبان کے اہم مطالبات میں سے ایک اہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ فاٹا سے فوج کو نکال دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق حکومت اور طالبان کے مابین ماضی میں بھی مذاکرات کی کوششیں ہوئی ہیں لیکن بوجوہ کامیاب نہیں ہو سکیں، کئی وجوہات میں سے ایک وجہ مشرف اور زرداری کی حکومتوں اور طالبان کے درمیان عدم اعتماد تھا۔ مشرف کے ساتھ طالبان کی دشمنی کی سب سے بڑی وجہ لال مسجد آپریشن کو قرار دیا جاتا ہے، جسکے بعد مشرف پر درجن بھر حملے بھی ہوئے۔ اسکے علاوہ امریکہ نے بھی مذاکرات کی مخالفت کرکے بار بار اثر انداز ہونے کی کوشش کی، یہاں تک کہ جب بھی مذاکرات کا عمل شروع ہو جاتا تو اسی دوران ایک ڈرون حملہ کیا جاتا جس میں طالبان کے اہم کمانڈر ہلاک ہو جاتے، ردعمل میں وہ اپنا غصہ امریکہ کی بجائے پاکستانی افواج، سکیورٹی فورسز یا سویلین پر اتارتے اور یوں مذاکرات اور پھر دوبارہ جیسے تھے کی حالت میں چلے جانے کا یہ طویل سلسلہ چلتا رہا۔

دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں الیکشن سے قبل ہی طالبان کی طرف سے اشارہ مل چکا تھا کہ وہ انکے ذریعے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ اسکے علاوہ موجودہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی دہشتگردی کے خلاف غیر ملکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کے پرجوش حامی ہیں۔ اسکے علاوہ موجودہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا سب سے اہم اور موثر عنصر نواز فیملی اور سعودی شاہی خاندان کے تعلقات ہیں۔ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ اسکے اتحادی اور زیر اثر خاندان کی حکومت کے پانچ سالہ دورانیے میں کوئی گڑبڑ نہ ہو اور انکی شہرت کو کوئی زک نہ پہنچے، تاکہ پاکستان پر اس خاندان کی سیاسی جکڑ کو مضبوط سے مضبوط تر بناکر اس ملک پر سعودی عرب کی گرفت اور اثر و رسوخ کو مزید بڑھا دے۔ اس لحاظ سے خیال کیا جاتا ہے کہ اس بار طالبان اور حکومت میں مذاکرات کامیاب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

امیدیں:
مذکورہ مذاکرات کے حوالے سے کافی حلقوں میں امیدیں پائی جاتی ہیں کہ اس سے ملک میں ایک بار پھر امن و امان بحال ہو جائے گا۔ کوئی شہر، گاؤں اور قصبہ ایسا نہیں رہا تھا جو خودکش حملوں سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جس کی وجہ سے کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا تھا۔ چنانچہ اس حوالے سے ایک بڑے حلقے میں امیدیں پائی جاتی ہیں کہ مذاکرات سے ملک کی معیشت اور کاروبار پر مثبت اثر پڑے گا۔ انکا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے علاوہ کوئی راہ حل نہیں، کیونکہ انکے آلہ کاروں کی پہچان دیگر افراد سے ناممکن ہے۔ یہ لوگ معاشرے کے اندر رہ کر چپکے سے اپنی کاروائیاں کر رہے ہیں۔ جن پر قابو پانا حکومت کے بس کی بات نہیں، چنانچہ جنگ سے یہ معاملہ بارہ سال کے عرصے میں نہ ہو سکا تو اب مزید کئی دہائیاں لگ جائیں گی لیکن مسئلے کا حل نکلنا مشکل ہو گا۔

خدشات اور تحفظات
جو طبقات خصوصا مذہبی حلقے دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں۔ ان میں کافی مایوسی پائی جاتی ہے، اہل تشیع اور بریلوی مکاتب فکر کے علاوہ، دہشتگردوں کا نشانہ بننے والی بعض سیاسی جماعتیں بھی تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ انکا خیال ہے کہ دہشتگردوں کے ساتھ انہی کے شرائط پر مذاکرات کرنے سے مستقبل میں ایک بار پھر اس مذموم پیشے کو شہہ ملی گی۔ لوگوں کے حوصلے بڑہیں گے۔ نیز تاریخ میں یہ بات رقم ہو جائے گی کہ جتنے بھی جرائم کرو، کرتے رہو، حتی کہ جرائم میں اتنی گہرائی تک جاؤ اور جرائم کا دائرہ کار اس حد تک بڑھاؤ کہ مقابل فریق مذاکرات پر یہاں تک مجبور ہو جائے کہ وہ خود تمہاری شرائط پر مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ چنانچہ اس حوالے سے ایک بڑے حلقے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔ اہل تشیع اور بریلوی مکاتب فکر اس حوالے سے کچھ تحفظات یہ بھی رکھتے ہیں، کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انکا کہنا ہے کہ طالبان کو شکایات امریکی ڈرون حملوں سے تھیں جبکہ ردعمل میں انہوں نے شیعوں اور بریلویوں کے مقدسات کو ہدف بنایا، چنانچہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ ان لوگوں کو کس جرم میں نشانہ بنایا گیا، اگر ابھی اس مقام پر یہ تعین نہ کیا گیا تو مستقبل میں جب وہ معاشرے میں مزید گھل مل جائیں، ان سے یہ ضمانت کیسے لی جا سکتی ہے کہ شیعہ بریلوی، اور انکے مقدسات اور مزارات کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button