مقالہ جات

دال میں کچھ کالا یا پوری دال ہی کالی ؟

d i khan jailایک عجیب و غریب واقعہ جو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آچکا ہے جہاں پر 150 لوگ چار گھنٹے شہر کے اندر، جیل کے اردگرد باردوی سرنگیں بچھا کر، بڑے ہتھیار سے مسلح ہوکر حملہ آور ہوتے ہيں اور چار گھنٹے جیل کے اندر رہتے ہیں اور چن چن کر اپنے بندوں کو منتخب کرکے فرار کراتے ہیں اور صرف مسلک تشیع سے تعلق رکھنے والوں کو علیحدہ کرکے ذبح کرتے ہیں جن میں ممتاز حسین اور جمعہ خان ملتان کے، اختر حسین، اسلم حسین اور ذوالقرنین شاہ ڈی-آئی-خان کے اور رجب علی پاڑہ-چنار کے قیدی کو ذبح کیا گیا۔ ان چھ افراد کو صرف ان کے مسلک(شیعہ) کی وجہ سے ذبح کردیا گیا ان کا سر جسم سے جدا کردیا گیا اور پھر جیل میں موجود 6 خواتین قیدیوں کو بھی حملہ آور مجرمین اپنے ساتھ لے کر چلے گۓ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کہا جاتا ہے کہ حملہ آور وزیرستان سے آۓ تھے، ڈی آئی خان تا وزیرستان کم و بیش دو گھنٹے کا راستہ ہے اور راستے میں درجن بھر آرمی، ایف-سی، پولیس کے چیک پوائنٹس ہیں جہاں عام مسافر گھنٹوں زحمت برداشت کرتے ہيں لیکن یہ کیسے ہوا کہ رمضان المبارک میں جب لوگ راتوں میں بیدار رہتے ہيں، ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ 150 لوگ اتنے بھاری ہتھیار ساتھ لاتے ہیں، اتنی بڑی کاروائی کرتے ہيں، 250 سے اوپر قیدیوں کو چھڑا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور چار گھنٹے تک کاروائی کرتے ہیں، 60 سے زائد دھماکے کرتے ہیں۔۔۔۔۔ میڈیا براہ راست دکھا رہا تھا کہ فوج اور ديگر اداروں نے گھیرے میں لے لیا تھا لیکن حیرت ہوئی کہ وہ فوج کہاں گئ کہ کسی فوجی، ایف-سی یا پولیس والے کو کوئی نقصان نہ پہنچا مگر 6 بندے ذبح ہوگۓ، اتنی بڑی تعداد میں حملہ آور آۓ اور اس سے بڑی تعداد میں بندوں کو چھڑا کر لے گۓ مگر کسی ایک کی کوئی شناخت وغیرہ کچھ نہیں ہوی اور فوری طور پر کرفیو کا اعلان کردیا گیا۔ بظاہر جو نظر آتا تھا کہ کرفیو کے اعلان کے بعد مجرموں کو پکڑنے میں مدد ملے گی لیکن ہم سمجھتے ہيں کہ کرفیو ان مجرموں کو بحفاظت بھاگنے کا ایک راستہ فراہم کرنا تھا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے جیل میں جہاں تقریبا 5000 قیدی ہیں اور ایک ہفتے پہلے تمام اداروں کو اطلاع تھی بلکہ جزئیات تک کا پتہ تھا کہ حملے کے بعد اندر پہلے لڑائی وغیرہ ہوگی اور قیدی بھی شامل ہونگے اور قیدیوں کو بھی اس کا پتہ تھا، لیکن اب بلیم-گیم شروع ہوچکا ہے، دراصل یہ سب عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے اور آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ ان اداروں کی جانب سے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہرانے میں کوئی صداقت نہیں بلکہ یہ سب ملے ہوۓ تھے اور انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ کاروائی –

متعلقہ مضامین

Back to top button