مقالہ جات

تکفیری قاتل گروہ لشکر جھنگویحق نواز جھنگوی سے ملک اسحاق تک (1)

malon mallik ishaq90ء کی دہائی کے شروع میں ایرانی خانہ فرہنگ کے ڈائریکٹر صادق گنجی کو قتل کرکے فرار کے دوران لاہور ہی میں گرفتار ہونے والے دہشت گرد ملعون ریاض بسرا نے 90ء کی دہائی کے وسط میں پولیس تحویل سے فرار کے بعد افغانستان کے تربیتی کیمپوں میں پناہ لی اور وہاں اپنے عسکری گروپ کا نام جھنگ سے تعلق رکھنے والے دیوبندی مسلک کے ایک امام مسجد ملعون حق نواز جھنگوی کے نام پرلشکر جھنگوی(جنگلی) رکھا۔ ملعون حق نواز جھنگوی جھنگ کے علاقہ مسن میں پیدا ہوا۔ کبیر والا کے ایک معروف دیوبندی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی اور 70ء کی دہائی کے وسط میں جھنگ کی مسجد پیپلیاں والی میں بطور امام مسجد ملازمت اختیار کی۔

جھنگوی کا پہلا نشانہ جھنگ کے اہلسنت:
جھنگ پیپلیاں والا محلہ کی مسجد امام جمعہ اور بریلوی مسلک تعلق رکھنے خطیب جمعہ مولانا اشرف سیالوی کی کتاب مناظرہ جھنگ کے مطابق ملعون مولوی حق نواز ایک کم پڑھا لکھا اور فتنہ پرور آدمی تھا۔ مولانا اشرف سیالوی کہتے ہیں کہ 1976ء میں جب سے مولوی حق نواز ہماری قریبی مسجد میں آیا، کوئی دن ایسا نہیں گذارا جس دن پیپلیاں والی مسجد سے بریلوی مسلک کو گالیاں نہ دی گئی ہوں اور بریلوی مسلک کے بانی مولانا احمد رضا خان کے خلاف نازیبا زبان استعمال نہ کی گئی ہو۔ مناظرہ جھنگ نامی کتاب میں مولانا اشرف سیالوی لکھتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خان کو حرامزادہ تک کہا جاتا۔ ایک بات تکرار کے ساتھ بیان کی جاتی کہ بریلوی اور بریلوی مذہب کا بانی احمد رضا خان گستاخ رسول ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ تحریک نفاذ نظام مصطفٰی کے بعد ضیاءالحق نے مارشل لاء لگایا اور بھٹو کی پھانسی دے کر راستے سے ہٹا دیا تو حق نواز جھنگوی کی شرارتیں اور ہتھکنڈے انتہا کو پہنچ گئے۔ ہم نے مقامی لوگوں کو اکٹھا کرکے دیوبندی مسلک کی مسجد کی انتظامیہ سے بات کی کہ وہ اس شر پسندی کو بند کروائیں، تو انہوں نے بےبسی کا اظہار کیا۔ اس دوران مولوی حق نواز نے خصوصی طور لاوڈ سپیکر منگوا کر اس کا رخ بریلوی مسلک کی مسجد کی طرف رکھوایا اور اب تو جمعہ کے خطبہ کے علاوہ بھی گالم گلوچ کا سلسلہ چل نکلا۔

مولانا اشرف سیالوی کہتے ہیں کہ ہم نے جھنگ کے معروف اور غیر متنازعہ موثر آدمی منظور خان اور پولیس کے ضلعی افسر کو منصف بنا کر مولوی حق نواز اور چنیوٹ کے مولانا منظور چنیوٹی کے ساتھ مناظرہ کیا، جس کا عنوان تھا گستاخ رسول (ص) کون؟ اس مناظرے میں بریلوی مسلک کے عالم مولانا اشرف سیالوی نے دیوبندی مسلک کی کتابوں سے ثابت کیا کہ بریلوی نہیں بلکہ دیوبندی گستاخ رسول (ص) ہیں۔ منصفین نے انہیں فاتح قرار دیا اور مولوی حق نواز کو تنبیہ کی کہ وہ شرپسندی سے بعض آجائے۔

مناظرہ جھنگ میں جھنگوی کی بریلوی مسلک کے ہاتھوں شکست اور شیعہ مسلک کے خلاف شرپسندانہ سرگرمیوں کا آغاز:
جھنگ انتظامیہ اور معززین کے دباو پر بریلوی مسلک کی مسجد کی طرف لگایا گیا لاوڈ سپیکر بھی ہٹا لیا گیا اور غلیظ زبان کا استعمال بھی بند ہوگیا۔ مولانا اشرف سیالوی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد مولوی حق نواز نے شیعہ مسلک کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ان دنوں میں ایران میں انقلاب آیا تھا اور اس انقلاب کے بانی شیعہ مجتہد آیت اللہ خمینی تھے۔ اس انقلاب سے پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی متاثر ہوا، پاکستان میں ہر شخص کی زبان پہ ایرانی شیعہ مجتہد کا نام تھا کہ لیڈ ر ہو تو آیت اللہ خمینی جیسا۔ یہ بات بھی مولوی حق نواز کے غم و غصے کا سبب تھی کیونکہ وہ شیعہ مسلک کے لوگوں کو بریلوی مسلک کے لوگوں کی طرح کافر سمجھتا تھا۔ یہ بہت توجہ طلب ہے کہ مولوی حق نواز بریلوی مسلک کے لوگوں کو گستاخ رسول (ص) ہونے کی وجہ سے کافر سمجھتا تھا اور شیعہ مسلک کے لوگوں کو گستاخ صحابہ ہونے کا الزام دیکر کافر سمجھتا تھا۔

جھنگ میں اہلسنت کے بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث مسالک اور شیعہ مسلک کی درجنوں مساجد ہیں، جو صدیوں سے امن و آتشی کے ساتھ رہ رہے ہیں، لیکن پیپلیاں والی مسجد میں جب سے مولوی حق نواز جھنگوی بطور امام مسجد ملازم ہوا، شرپسندی اور مسلکی اختلافات نے دشمنی کی صورت اختیار کرنا شروع کر دی۔ حق نواز جھنگوی ایک ہی نعرہ لگواتا کہ
شیعہ کافر بریلوی سور
دیوبندی نور ہی نور

تکفیری جماعت کا جھنگ کے الیکشن میں پہلی دفعہ فرقہ وارنہ بنیادوں پر حصہ لینے کے عمل کا آغاز:

1988ء کے انتخابات میں حق نواز جھنگوی نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر حصہ لیا، لیکن نعرہ یہ لگایا کہ جھنگ کے جاگیردار اور وڈیرے سب شیعہ سید اور سیال ہیں، جو سنی آبادی کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں، لہذاٰ انہیں ووٹ مت دو۔ جھنگوی کے اس نعرے کی تائید میں جھنگ کی تاجر برادری کے دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے مہاجر طبقے نے اس وجہ سے جھنگوی کا ساتھ دیا کہ ان کے نزدیک جھنگ میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے جاگیردار انہیں دوسرے درجے کا اور بعض دفعہ تیسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں، حالانکہ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ حق نواز جھنگوی کو سیاسی مخالفت کی بنیاد پر قتل کروانے والوں کا تعلق سنی مسلک سے ہے اور وہ جاگیردار نہیں بلکہ تاجر اور صنعت کار ہیں۔

جھنگ سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کی رائے یہ بھی ہے کہ انگریز دور سے لیکر آج تک اقتدار میں رہنے والے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے جھنگ کے جاگیردار اگر لوگوں کی محرومیوں کا خیال رکھتے تو یہ افراط و تفریظ پیدا نہ ہوتی، نہ ہی انجمن سپاہ صحابہ وجود میں آتی۔ فروری 1990ء میں ملعون حق نواز جھنگوی کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ کھسہ پہنے اپنے گھر کے دروازے پر ایک شادی کی تقریب میں جا رہا تھا۔ اس دوران شادی کی وجہ سے محلے میں شور تھا، جس کی وجہ سے کسی کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ محلے کے امام مسجد کو مسجد کے پاس اس کے گھر کے نزدیک قتل کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس خبر کے پورے جھنگ میں پھیلتے ہی انجمن سپاہ صحابہ جو بعد میں سپاہ صحابہ کہلانی لگی، کے شر پسندوں نے کئی مکانات، گاڑیاں اور مارکیٹیں جلا دیں۔ جھنگ میں کئی روز تک آگ اور خون کا کھیل جاری رہا، کرفیو کے بعد حالات میں بہتری آئی۔

ضیاءالحق اور جھنگوی کی تکفیری جماعت:
حق نواز جھنگوی پر پنجاب کے اکثر ضلعوں میں جانے اور تقریر کرنے پر نقص امن کے الزام میں پابندی لگائی گی، لیکن وہ برقع پہن کے اور بعض دفعہ دیگ میں چھپ کر مختلف شہروں میں پہنچ جاتا۔ کئی بار گرفتار ہوا۔ جیل میں رہا اور جہاں شیعہ مسلک بالخصوص سید خاندان سے تعلق رکھنے والے پولیس آفیسرز تعینات ہوتے وہ مولوی حق نواز جھنگوی کو مرغا بنا دیتے اور کان پکڑوا کر چھترول کرتے۔ ایک دفعہ تو کہا جاتا ہے کہ کسی تھانیدار نے حق نواز جھنگوی کی ناک میں باقاعدہ نکیل ڈال دی تھی۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے بظاہر اس خیال کی نفی ہوتی ہے کہ صدر پاکستان اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاءالحق مولوی حق نواز جھنگوی کی براہ راست یا بلواسطہ سرپرستی کرتا رہا ہے۔ یہ سوال بھی موجود ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا آدمی جس کی سرپرستی براہ راست ملک کا صدر وہ بھی آمر کر رہا ہو اور اس کو آئے روز پولیس نہ صرف تنگ کرتی ہو بلکہ اسکو نکیل تک ڈال دی جاتی ہو۔ اس معاملہ کا دوسرا رخ یہ کہ ضیاءالحق نے براہ راست سپاہ صحابہ کو جنم تو نہیں دیا، لیکن ایسا ماحول ضرور فراہم کیا، جس میں سے ایسے گروہ ابھر کر سامنے آئے اور مختصر مدت میں پاکستان کے طول عرض میں پھیل گئے۔

حق نواز جھنگوی کے سیاسی قتل کے بعد سپاہ صحابہ کے راہنما ایثار الحق قاسمی کو بھی الیکشن مہم کے دوران ٹارگٹ بنا کر قتل کر دیا گیا اور پورے ملک میں شیعہ مسلک کے خلاف اور ایرانی انقلاب کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اگست1988ء میں شیعہ راہنما علامہ عارف حسین الحسینی پشاور میں فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہوگئے۔ تفتیش کاروں نے اس وقت کے گورنر صوبہ سرحد اور جھنگ سے تعلق رکھنے والے جنرل ضیا ءالحق کے اے ڈی سی جی کیپٹن ماجد گیلانی کو علامہ عارف الحسینی کے قتل کی سازش کا ذمہ دار قرار دیا۔ اسی تناظر میں یہ تاثر ابھرنا شروع ہوا کہ عراقی صدر صدام حسین اور امریکی انٹیلی جنس پاکستان میں ایران کے اسلامی انقلاب کے حامیوں کے خلاف دیوبندی گروہوں اور دیگر ایجنٹوں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ اور تخریبی کاروائیاں کر رہے ہیں اور سپاہ صحابہ ان شیعہ مخالف سرگرمیوں میں سرفہرست ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ تھی اور اس طرح کی کئی اور وجوہات کی بدولت شیعہ مسلک کے لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سپاہ صحابہ کو ضیاء حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

Back to top button