مقالہ جات

شام ،نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن/روضہ حضرت زینب ع پر حملہ

hazrat bibi zainabشام کے بارے میں اب یورپی ممالک ،خاص کر امریکہ اور اسرائیل کو یہ پریشانی لاحق ہوئی ہے کہ انہوں نے مختلف گرہوں کو جو جدید اور منفرد حثیت کا اسلحہ دیا تھا اسے مختلف گروہ پیسوں کی خاطر فروخت کر رہے ہیں اور یہ اسلحہ شامی فوج کے علاوہ لبنانی اسرائیل مخالف جماعت حزب اللہ کے ہاتھوں جارہا ہے اور یہ بات کسی طور پر بھی امریکیوں اور اسرائیلوں کو پسند نہیں ۔

امریکی سابق صدارتی امیدوار سنیٹر جان مک مکین نے دوماہ قبل جب ترکی کے راستے شام میں حکومت مخالف باغیوں سے ملاقات کی تھی تو ان سے اس بات کی ضمانت مانگی تھی کہ وہ ان کو دیا جانے والا اسلحہ کسی اور ہاتھوں میں جانے نہیں دینگے ،جس پر فری سیرین آرمی نامی گروہ نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکہ کی لیسٹ میں بلیک ہونے والاالقاعدہ نواز سب سے بڑا گروہ النصرہ فرنٹ میں ایسے جرائم پیشہ اور منشیات کے عادی افراد ہیں جو پیسوں کی خاطر یہ کام کر سکتے ہیں ،جس پر امریکی سنیٹر نے النصرہ فرنٹ سے ملاقات کی اور ان سے اس بات کی ضمانت مانگی کہ وہ اس قسم کے اسلحے کا کنٹرول چچنیا اور لیبیا سے آئے ہوئے جنگجوں کے ہاتھوں نہیں دینگے جو زیادہ تر منشیات کے عادی ہیں ۔
لیکن اب جب کہ امریکہ اور یورپ کی جانب سے اسلحے کی دوسری اہم کھیپ نے پہنچنا تھا کہ اس سے قبل ہی انہیں اس بات کا علم ہوا کہ خطرناک اور اہم اینٹی ٹینک راکٹ شامی افواج سمیت حزب اللہ کے پاس بھی پہنچ گئے ہیں جسے انہوں نے جنگجوں سے بھاری رقم دیکر خریدا ہے ۔
جنگجوں کے ایک اہم کمانڈر نے ایک امریکی صحافی کو حلب میں کہا کہ ان کے کچھ لوگوں نے یہ کام انتقاما کیا ہے کیونکہ ترکی سے انہیں ماہوار ملنے والے ڈالروں کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ جعلی تھے اور انہیں ترکی کے حکام نے دھوکہ دیا ہے جبکہ نئے بھرتی ہونے والے افراد کے لئے یہ رقم دوہزار ڈالر ماہوار سے کم کر کے کر پندرہ سوڈالر کردی گئی ہے ۔
معروف عرب رائیٹر اور القدس انٹرنیشنل کے بانی انطوان عبدالباری کے مطابق یورپ کی جانب سے مزید اہم اسلحے کی کھپ بند ہونے کے سبب سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ بند ربن سلطان نے فرانس کا دورہ کیا کہ کسی طرح اس اسلحے کو بحال کیا جا سکے لیکن وہ ناکام رہے ۔
دوسری جانب پریشانی اس وقت مزید بڑھ گئی کہ مصر میں صدر مرسی اور اخوان المسلمین کی حکومت کے خاتمے میں سعودی عرب کے کردار پر ترکی کو سخت اعتراض ہوا یہاں تک کہ سعودالفیصل کی جانب سے اردگان کوکی گئی فون کال پر اردگان سعود الفیصل پر برس پڑے کہ ’’آخر یہ کیا کام ہے کہ ایک عوامی منتخب دینی جماعت کے صدر کو اس طرح پیسہ اور طاقت سے ہٹایاجائے‘‘
یہی وجہ ہے کہ ترکی نے ابتک عبوری مصری حکومت کو قبول نہ کرنے کے ساتھ ساتھ معزول صدر مرسی کی حمایت میں مسلسل بیانات دئے ہیںیہاں تک کہ مصر کی عبوری حکومت نے اسے مصری معاملات میں مداخلت قراردیتے ہوئے کہا کہ مصر ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے جو کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لیتا،جس پر اردگان نے اخوان المسلمین کی عالمی کانفرنس انقرہ میں بلائی ،کہا جاتا ہے کہ تیونسی النہضہ کے بانی راشد الغنوشی نے اردگان کو خبردار کیا ہے کہ جو کچھ اخوان کے ساتھ مصر میں کیا گیا ہے وہ اردگان کے ساتھ ترکی میں پیش آسکتا ہے اس لئے انہیں عرب بادشاہتوں سے احتیاط برتنی چاہیے ۔
ادھر اس تمام تر صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کی آرمی نے قصیر کے بعد حمص جیسے اہم شہر پر دہشتگردوں کے قبضے کے خاتمے کے لئے ایک تیزرفتار آپریشن شروع کیا اور غیر متوقع طور پر اس شہر کے زیادہ تر حصے کو تیز ی کے ساتھ آزاد کرالیا ،تو دوسری جانب حلب شہر کے اہم حصوں کے محاصرے کو بھی ختم کراکے ایسی راہداریاں قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ جس سے ایک سال سے زائد عرصے سے محاصرے میں دبی عوام تک ریلیف پہنچایاجاسکے ۔
دمشق کی اس تیزی رفتار ی کو دیکھ کر امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ اسد حکومت کا خاتمہ اتنی جلدی میں ممکن نہیں یہاں تک یورپی ممالک میں بھی اس خیال کو تقویت ملی کہ اس کا سیاسی حل نکلنا چاہیے ۔
دوسری جانب العہد میگزین کے رائٹر حماد نضال کے مطابق بندر بن سلطان کے لئے یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ بیرون ملک بیٹھی شامی اپوزیشن اور فری سیرین آرمی کی قیادت کو قطر سے چھین کر اپنے من پسند شخص کے حوالے کرنے کے بعد وہ گرونڈ میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرسکے جس کا ممکنہ نقصان اسے بادشاہ عبداللہ کے بعد سعودی خاندان میں مستقبل قریب میں اہم عہدوں کی تقسیم کے وقت ہوسکتا ہے ۔
اس وقت اسرائیل کا امریکہ پر شدید دباو ہے کہ حلب شہر کے ان حصوں کو نوفلائی زون قراردیا جائے جہاں النصرہ فرنٹ اور دیگر القاعدہ نواز جنگجوں کا قبضہ ہے جس کی جانب ابھی حال ہی میں امریکی وزیر دفاع جنرل ڈمپسی نے بھی ایک مجوزپلان جاری کیا ہے البتہ ڈمپسی نے حکومت کو خبردار بھی کیا ہے کہ وہ افغانستان اور عراق کے تجربے کی روشنی میں یہ بات سمجھ لیں کہ عسکری طاقت سے کسی ملک میں حکومت کی تبدیلی کافی نہیں ہے ۔ادھر پینٹاگون کے خفیہ ادراے کے اہم آفیسر نے ڈیوڈشلیڈ نے خبردار کیا ہے کہ شام کی لڑائی سالوں تک طول پکڑ سکتی ہے اور بقول ان کے سیکولر اور معتدل گروہ کو اسلحہ نہ ملنے کے سبب سخت مایوسی کا شکار ہیں جبکہ دوسری جانب سخت گیر اسلامی شدت پسند القاعدہ گروپ حاوی نظر آتے ہیں،ڈیوشلیڈ نے بھی برطانوی وزیر اعظم کی بات دھراتے ہوئے تاکید کی کہ انہیں بشار الاسد کی حکومت ختم ہوتے نظر نہیں آرہی ہے جبکہ حالیہ مہینوں میں بشار الاسد کا پلڑا بھاری بھی ہوچکا ہے ۔
اسرائیل کی جانب سے شام میں نوفلائی زون بنانے کی اس قدر کوششوں کے پیچھے اس کے اپنے خدشات اور اہداف پوشیدہ ہیں شام میں موجود وہ بارہ سو کے قریب جنگجوگروہ میں اکثر کی تعدادکسی کے بھی کنٹرول میں نہیں ہے جوبشارالاسد کی حکومت کے ممکنہ خاتمے کے بعد اسرائیل کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں اور نیز شام کے پاس موجود اہم ہتھیار ان گروہوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں ۔
شام مخالف ممالک کو ایک اور پریشانی گرونڈ میں موجود شدت پسندوں کی جانب سے بھی لاحق ہوچکی ہے جو اس وقت آپس میں بھی دست و گریباں ہیں جیسے کہ النصرہ نامی القاعدہ نواز گروہ نے فری سیرین آرمی کے اہم کمانڈر کو سیکولر بے دین کہہ کر قتل کردیا جس کے سبب دونوں میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھاوا ملاہے تو دوسری جانب النصرہ اور لواء الشام والعراق کے درمیان بھی باہم چپقلش میں متعدد افرادمارے گئے ہیں ۔
روضہ حضرت زینب ع پر حملہ کچھ ضروری وضاحتیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام کی افواج اور باہر سے آئے ہوئے شدت پسندوں کی لڑائی میں مقدس مقامات کے تحفظ کو یقینی بناناچاہیے،کیونکہ یہ مقامات مقدسہ صرف شام سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔
شام کی عوام مزارات مقدسہ کا شدت سے نہ صرف احترام کرتی ہے بلکہ وہ عقیدہ کے اعتبار سے بھی احترام کے قائل ہیں (کیونکہ اکثریت کا تعلق فقہ حنفی اور شافعی سے ہے) خواہ یہ مقدس مقام کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتا ہوا،شام میں روضہ حضرت زینب ع کی حفاظت اور مجاورت صدیوں تک اہل تشیع سے پہلے سنی بھائیوں کے پاس رہی ہے اور اب بھی روضے کے صحن میں شیعہ اور سنی دونوں مساجد قائم ہیں جبکہ روضے کے مینار سے دونوں ازانیں نشر ہوتی ہیں جبکہ روضے کی اوقاف میں بھی دونوں مذاہب کے افراد موجود ہیں جو شامی حکومت کے تحت ہے ۔
اس وقت بھی جب باہر اس آئے تکفیری گروہ نے روضہ مبارک کیخلاف دھمکیاں دیں تو روضے کی حفاظت کے لئے تشکیل پانے والی رضاکار فورس میں شیعہ اور سنی دونوں رضاکاروں نے شرکت کی ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ العباس بریگیڈ میں اکثریت شیعوں کی ہے تو الذوالفقار بریگیڈمیں سنیوں کی ۔
دوسری جانب شامی حکومت بھی مزارات مقدسہ اور اہم تاریخی عمارتوں کی حفاظت پر سخت کوشش رکھتی ہے کیونکہ ایک تو یہ کسی مذہب کے نزدیک عقیدت رکھتے ہیں تو دوسری جانب یہی مقامات ان کے لئے سیاحت کے لہذا فائدہ مند بھی ہیں ۔لیکن باہر سے مسلط کی گئی موجودہ لڑائی میں ایسے دہشتگرد ہیں جو عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے ان مقامات کو بدعت و شرک کہتے ہیں جس کا انہوں نے برملا اظہار کیا ہوا ہے اورلڑائی کے دوران یہی دہشتگرد مساجد اور بعض مقامات کو ڈھال بناتے ہیں ۔
تکفیری سوچ کے دہشتگرد وں نے مسجد ایمان میں مفتی شام ڈاکٹر رمضان بوطی پر خودکش حملہ کیا ،حضرت حجر بن عدی اور حضرت عمار یاسر کے قبر کو شہید کردیاجبکہ قبرستان نامی مشہور جگہ پر متعدد اصحاب اور واقعہ کربلا سے منسوب اہم مقامات کو شہید کردیا جبکہ حمص میں دسیوں مساجد شہید کئے ،عیسائیوں کے تین تاریخی چرچ کو شہید کیا دُورُوز مذہب کی بھی متعدد عبادتگاہوں کوبھی تباہ کیا گیا۔جبکہ دسیوں بار وہ اعلان کرچکے ہیں کہ حضرت زینب ع کے مزار کو وہ شہید کرینگے اور متعدد بار دہشتگردوں نے حملے کی کوشش بھی کی ہے جس میں روضہ کے مینار اور گنبد تک پر گولیاں لگیں ہیں جبکہ اس بار ہاون راکٹ لگا جس سے منتظم شہید ہوگئے۔تکفیری مولوی فتوا دے رہے ہیں کہ حضرت زینب ع کے گنبد اور حرم کو شہید کردو کیونکہ یہ شرک کی علامت ہے وہ وضاحت بھی کرتے ہیں کہ ھم صرف گنبد اور چار دیواری گرانے کا کہتے ہیں نبش قبر کا نہیں،کیونکہ اس سے قبل دمشق کے مضافات میں صحابی رسول اللہ جناب حجر بن عدی کے روضے کی نبش قبر کی گئی تھی جس کی ووڈیو انہوں نے خود یہ کہتے ہوئے جاری کی کہ ہم یہاں موجود بقول ان کے علامات شرک کو یک بعد دیگر گرادینگے ۔
دوسری جانب دہشتگرد مساجد اور مساجد کی میناروں کو ڈھال یا سنائپرز فائر کے لئے استعمال کرتے ہیں
جس پر شامی فوج گولہ باری کرتی ہے البتہ یاد رہے کہ ان مقدس مقامات کی صدیوں تک شامی حکومت ہی دیکھ بھال اور حفاظت کرتی رہی ہے جن میں حمص میں خالد بن ولید مسجد اور اس کے ساتھ ملحق مقبرہ بھی ہے۔
بحثیت مسلمان قرآنی تعلیمات کی رو سے ،ان زمینی حقائق کے باوجود ہمیں کسی بھی مذہب کے یا ماننے والوں کے مقدس مقامات کی توہین یا بمباری یا کرنا چاہیے اور کرتے ہیں
ع ۔صلاح ایم ڈبلیوایم خارجہ امور
جاری ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button