مقالہ جات

فلسطین اور عالمی یوم القدس

AL QUDSفلسطین، انقلاب اسلامی سے پہلے:
1897ء میں جب صہیونی تحریک نے ایک اجلاس میں یہودی حکومت کی تشکیل کا منصوبہ بنایا اور اس کے مقدمات کو فراہم کرتے ہوئے متعدد بین الاقوامی سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، تحقیقاتی، فوجی، جاسوسی، دہشت گردی اور دیگر بہت سارے غیر اخلاقی اور غیر انسانی تنظیموں کی بنیاد رکھی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انسانیت کے ماتھے پر پڑنے والا کلنک کا یہ ٹیکا امت مسلمہ کے قلب اور قبلہ اول (مسجد الاقصٰی) کو اپنا نشانہ بنائے گا۔
1917ء تک صیہونیوں کا وہ دہشت گرد ٹولہ جو ایک زمانے میں یہودی مملکت کا نام لینے سے بھی ڈرتا تھا، اب باقاعدہ طور پر ایک حکومت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ خلافت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لئے جو عرب مسلمان، برطانیہ کو مسیحا سمجھ رہے تھے، اسی برطانوی سامراج نے اپنے سفیر بلفور کے ذریعے 9 نومبر 1917ء کو قلب اسلام، بیت المقدس، میں ناسور یہودی حکومت کے قیام کا رسمی اعلان کرکے تمام مسلمانوں بالخصوص عرب مسلمانوں کو جام ِمذلت کا پہلا گھونٹ پلا دیا۔

29 نومبر 1947ء کو استعماری طاقتوں نے اقوام متحدہ سے اسرائیل کے ناجائز وجود کو قبول کروایا۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود اسلامی دنیا اور خاص طور پر عرب دنیا پر قابض حکمرانوں میں کوئی خاص حرکت نظر نہیں آئی؛ لیکن جب 15 مئی 1948ء کو برطانیہ دست بردار ہوگیا اور فلسطین کی پوری سرزمین پر یہودیوں نے قبضہ کرکے اسرائیل کی ناجائز حکومت کے استقلال کا اعلان کر دیا تو عرب دنیا میں کھلبلی مچ گئی۔ مختلف عرب ممالک نے تنہائی اور اجتماعی طور پر کئی جنگیں لڑیں، یہاں تک کہ 1967ء میں مصر، عراق، سعودی عرب، سوڈان، لیبیا، شام اور لبنان کی فوجوں نے مل کر اسرائیل پر حملہ کیا، لیکن عرب اپنی پوری قوت و طاقت صرف کرنے کے باوجود ایک نومولود اور غاصب جعلی ملک کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوسکے، بلکہ الٹا خود عبرت انگیز شکست سے دوچار ہوگئے۔

عرب ممالک کی مسلسل شکستوں اور اس کے ساتھ یہودی اور استکباری لابی کی بے پناہ پروپیگنڈوں کے نتیجے میں اسرائیل کو دنیا کے سامنے ایک شکست ناپذیر قوت کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ اس بات سے مسلمانوں پر مسلط استکباری پٹھو حکومتیں بوکھلا گئیں اور ایک ایک کرکے ان حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ ذلت بار صلح کا سلسلہ شروع کیا اور اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اسلام اور مسلمین کے ساتھ خیانت کی۔
اگرچہ فلسطینی عوام نے فلسطین پر قبضے کے ابتدائی دنوں سے ہی اپنی مقاومت اور پائیداری کا ثبوت دیا اور اپنی سرزمین اور مقدسات کی آزادی کے لئے مختلف جہادی گروہوں کو تشکیل دیا۔ چاہے وہ برطانیہ کی استعماریت کے زمانے میں ہو یا غاصب صہیونیوں کے قبضے کے زمانے میں؛ لیکن ملت فلسطین کو نہ فقط دشمن سے آزادی نہیں ملی بلکہ یکے بعد دیگرے عرب حکمرانوں اور فلسطین کی آزادی کے لئے بنائی گئی تنظیموں کے سربراہوں کی خیانتوں کی وجہ سے ان کی زندگی مزید مشکل میں پڑگئی۔

1978ء تک تقریباً فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے والے تمام عرب ممالک اور شراب و کباب کے نشے میں مست حکمران، اسرائیل کے ساتھ مختلف بہانوں سے مذاکرات کرکے امت مسلمہ اور بالخصوص ملت فلسطین کی پشت میں چھرا گھونپ چکے تھے۔ یہاں تک کہ مصر جو جمال عبدالناصر کے زمانے میں فلسطینی مجاہدین اور عوام کے لئے ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا، انور السادات کے ہاتھوں فلسطین کے پشت پناہوں کی فہرست سے نکل کر غاصب اسرائیل کی غلامی کو تسلیم کرنے والوں کی لسٹ میں داخل ہوچکا تھا۔

فلسطین اسلامی انقلاب کے بعد:
یہاں تک کہ ایک طرف ظلم و بربریت اور دوسری طرف ذلت و خیانت کا یہ مقابلہ جاری تھا کہ بیسویں صدی کے 80 کی دہائی میں یعنی 11 فروری 1979ء کو دنیا کی سیاست میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوگیا، جس نے سب سے پہلے عرب اور مسلم اقوام کی نظر میں شکست ناپذیر بننے والی قوت اسرائیل کو مورد ہدف قرار دیا، اور وہ دھماکہ خمینی بت شکن ؒ کے ہاتھوں ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب کا دھماکہ تھا۔ امام خمینی ؒ نے غاصب اسرائیل کو انسانیت کے بدن میں کینسر کی جڑ قرار دیتے ہوئے فرمایا : اسرائیل کینسر کی جڑ ہے، اسے ضرور نکال پھینکنا ہوگا۔ امام خمینی ؒ نے اپنے اسی قول پر سب سے پہلے عمل کرتے ہوئے اپنے ملک کو سفارتکاروں کے نام پر موجود اسرائیلی اور امریکی جاسوسوں سے پاک کرتے ہوئے ان دونوں ملکوں کے سفارتخانے بند کروا دیئے اور اسرائیلی سفارت خانے کی عمارت میں فلسطین کا سفارت خانہ کھلوایا۔ ساتھ ہی دنیائے اسلام اور بالخصوص دنیائے عرب پر یہ واضح کر دیا کہ اسرائیل جسے صیہونی میڈیا کے پروپیگنڈے کی بنا پر تم ناقابل شکست سمجھ رہے ہو وہ مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے، اور اگر تمام مسلمان مل کر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر انڈیل دیں تو اسرائیل اس پانی میں بہہ کر نابود ہوجائے گا۔

امام خمینی ؒ کی طرف سے قدس کی آزادی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات میں سے ایک، انقلاب اسلامی کے بعد 7 اگست 1979ء کو عالمی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا خواب دیکھتے ہوئے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس کے نام سے اعلان کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں دنیا کے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو جو قدر کے ایام میں سے ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر بھی معین کرسکتا ہے، یوم القدس کے طور پر انتخاب کریں اور پروگرام بنا کر مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت میں عالمی یکجہتی کا اعلان کریں۔ ‘‘(فلسطین امام خمینی ؒ کی نظر میں ص ۱۷۵) فلسطین کے بارے میں امام امت ؒکے تمام فرمودات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دن کوئی عام دن نہیں ہے بلکہ یہ دن، اسلام کا دن، مستضعفین جہان کا دن، مظلوم قدسِ شریف کا دن اور عالمی استکبار سے مقابلے کا دن ہے۔

امام خمینی ؒ نے اس دن کا اعلان کیا، تاکہ ابلیس لعین کی کوکھ سے جنم لینی والی خباثت استکبار اور استکباریت کا خاتمہ ہو۔ قبلہ اول مسجد الاقصٰی پر قابض صہیونی دہشت گردوں کے چنگل سے اس بیت مقدس کو اور اس کے متولیوں کو نجات دلائی جائے۔ بشریت کے ماتھے سے اسرائیل نامی داغِ رسوائی کو دھو کر امت مسلمہ کی عظمت ِ رفتہ کو واپس دلا دے۔ عالمی مستضعفین اور کمزور قوموں کو درسِ خودی دے کر شرقی یا غربی بلاکوں کی غلامی سے نجات دلائے۔ شرک و بت پرستی اور ظلم و بربریت سے مقابلے کے لئے پرچم توحید و عدالت کو عالمی فضا میں لہرائے۔ امام خمینی ؒ کے فلسطین سے یکجہتی کے اظہار کا یہ نتیجہ نکلا کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں نے رنگ ونسل، ذات پات، قوم و قبیلہ، زبان و لہجہ اور مذہب و فرقے کی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر فلسطینی مسلمانوں کی( يا للمسلمين) کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اپنی بساط کے مطابق فلسطینی مظلوم عوام کے حق میں آواز اٹھانا شروع کیا۔

امام ؒ اور انقلاب اسلامی کی انہی خدمات کی وجہ سے ملت فلسطین کا مورال بلند ہوگیا اور جس کی ایک جھلک ہمیں 1987ء میں انتفاضہ اول کی صورت میں نظر آتی ہے کہ جس میں فلسطینی عوام نے ایک خود جوش تحریک شروع کی اور پہلی بار حماس کے مجاہدین نے اس میں شرکت کی۔ اس قیام نے اسرائیل کو بہت سارے مالی اور جانی نقصان سے دوچار کر دیا۔ 2000ء میں فلسطینی مجاہدین نے ابھی انتفاضہ دوم شروع کیا ہی تھا کہ مقاومت اسلامی لبنان (حزب اللہ ) کے پے درپے حملوں کی تاب نہ لا کر اسرائیل کو جنوب لبنان سے بھاگ نکلنا پڑا۔ حزب اللہ کی اس کامیابی سے فلسطینی مجاہدین کے حوصلے مزید بلند ہوگئے اور دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسرائیل کوئی شکست ناپذیر قوت نہیں ہے، اسے بھی شکست دی جا سکتی ہے، بلکہ بڑی آسانی سے شکست دی جاسکتی ہے۔

پھر 2006ء میں اسرائیل، حزب اللہ کی نابودی کا ناپاک ارادہ لے کر پورے لبنان کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہ رہا تھا مگر 33 دن فضائی حملوں کے باوجود منحوس اسرائیلی غنڈوں کو لبنان کی سرزمین پر ایک انچ بھی تجاوز کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اگر کچھ دن اور یہ جنگ جاری رہتی تو بعید نہیں تھا کہ خود غاصب اسرائیل کو مقبوضہ سرزمین کے بہت بڑے حصے سے ہاتھ دھونا پڑتا، اس لئے اسرائیل کے حامیوں نے فوراً جنگ بندی کے لئے کوششیں کی اور بالآخر غاصب حکومت کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔

اس جنگ کے بعد اسرائیل کے شکست ناپذیر ہونے کا نعرہ تو ہوا میں بکھر کر رہ گیا اور پھر ہم 2008ء اور 2009ء کے وسط میں دیکھتے ہیں کہ اسرائیل اپنے ایک سپاہی کو حماس کی قید سے چھڑانے کے لئے غزہ کی پٹی پر 22 دن بمباری کرتا ہے۔ چاروں اطراف سے غذا اور پانی حتیٰ کہ دواؤں کی ترسیل بھی روک دیتا ہے اور اس کام میں عرب حکمران بھی اسرائیل کی مدد کرنے کو اپنا فخر سمجھتے ہوئے ملت فلسطین پر قیامت کا پہاڑ توڑتے ہیں۔ تب بھی اسرائیل اپنا ایک سپاہی چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اس موقع پر ان فلسطینی مجاہدین کے حوصلے کو مزید بلند کرنے کے لئے قائد انقلاب اسلامی، رہبر مسلمین حضرت آیت اللہ خامنہ ای (دام ظلہ) نے اپنے ایک پیغام میں غزہ کے دفاع میں شہید ہونے والوں کو رسول خداؐ کے حضور میں شہید ہونے والے بدر و احد کے شہداء کے ساتھ محشور ہونے کی بشارت دی۔

اور آج کی دنیا کے حالات خصوصاً مشرق وسطٰی اور فلسطین کے پڑوسی ممالک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور عوامی انقلابات سے آپ آگاہ ہیں۔ وہ حکمران جو کل تک فلسطینی ملت کے ساتھ خیانت کرکے اپنی کرسی بچانا چاہتے تھے، آج وہ یا تو دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں یا انہیں کہیں چھپنے کے لئے کوئی بل نہیں مل رہا ہے۔
ابھی ملتیں آزاد ہوگئی ہیں، انشاء اللہ مشرق وسطٰی میں آنے والے انقلابات عوامی امنگوں کے مطابق پیشرفت کریں، تو وہ زمانہ دور نہیں ہے کہ ہم امام خمینی ؒ کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھیں کہ:
‘‘خدا ہمیں توفیق دے کہ انشاءاللہ ایک دن قدس میں جاکر نماز پڑھیں۔’’ (فلسطین امام خمینی ؒ کی نظر میں ص ۱۷۹)

متعلقہ مضامین

Back to top button