مقالہ جات

حجر ابن عدی ، قربانی شقاوت و تعصب

hujar bin udaمرج العذراء کی سرزمین وہ علاقہ ہے جسے خلیفہ دوم عمر ابن خطاب کے زمانے میں ” حجر ابن عدی ” نے فتح کیا تھا اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تھی اورآج بھی اس سرزمین پر ان کی بے شمار یادگاریں موجود ہیں ۔جب حکومت کے اہلکار ان کا ہاتھ باندھ کر اس سرزمین پر لائے تو انہوں نے کہا : میں سب سے پہلا مسلمان تھا جس نے اس علاقے میں تکبیر کہی تھی اور خدا کو یاد کیا تھا اور اس وقت یہ لوگ مجھے یہاں قید کرکے لائے ہیں ۔

امیر شام معاویہ ابن ابو سفیان کی نظر میں حجر ابن عدی کا سب سے بڑا جرم ان کا محب علی ہونا تھا۔اسی لۓ اس نے ایک گروہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ موجودہ شام کے علاقے مرج العذراء جائیں اور حجر ابن عدی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیں۔ جب امیر شام معاویہ ابن سفیان کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کیا تو ان سے کہا : اگر تم لوگ علی سے اظہار برات اور دوری اختیار کرو اور ان کی شان میں گستاخی کرو تو ہم تمہیں آزاد کردیں گے اوراگر ایسا نہیں کروگے تو تمہیں قتل کردیں گے حجرابن عدی اور ان کےساتھیوں نے کہا : تیز تلوار کےمقابلے میں صبر ورضا پر ایمان ہمارے لئے اس چیز سے بہت ہی آسان ہے جس کے بارے میں تم ہمیں دھمکیاں دے رہے ہو۔ خدا و رسول اور حضرت امام علی علیہ السلام کے دیدار پر ایمان، دوزخ میں داخل ہونے سے زیادہ محبوب تر ہے ۔اس وقت حجر ابن عدی نے کہا : کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا اے حجر تم علی کی محبت میں ظلم و بربریت سے قتل کئے جاؤگے اور جب تمہارا خون زمین پر گرے گا تو اس کے نیچے سے ایک چشمہ جاری ہوگا جو تمہارے سر کے زخموں کو دھو دے گا ۔

اور پھر یکے بعد دیگرے حجر ابن عدی کے باوفا ساتھی اپنے خون میں غلطاں ہوئے اور انہوں نے شہادت کا جام پی کر اپنی پاکیزہ زندگی کے نقوش کو تاریخ کے دامن میں ہمیشہ کے لئے ثبت کردیا اور آخر میں حضرت حجر بھی شہید ہوگئے ۔

پیغمبر اسلام (ص) کے عظیم صحابی حجر ابن عدی جوانی کے دور ہی سے شجاعت و بہادری جیسی صفت سے مزین تھے اور جس دن سے وہ اسلام لائےتھے اسی دن سے مشرکوں اور کافروں سے بر سر پیکار تھے آپ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران فتح شام ، سرزمین مدائن اوراسلام کی اہم جنگوں میں بڑی شجاعت ودلیری کے ساتھ اسلام کا دفاع کرتے رہے اور مرج العذراء علاقے کے وہ سب سے پہلے مسلمان شہید تھے جنہوں نے مصلی شہادت پر پہنچنے کے باوجود دورکعت نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تاکہ عظمت پروددگار کے حضور میں راز ونیاز کرکے اپنی روح کو بالیدگی بخشیں ۔چنانچہ آپ نے مصلی شہادت پر دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت طلب کی ۔ دشمنوں کی نظرمیں ان کی نماز طولانی ہونے لگی تو انہوں نےکہا : تم نے نماز کو بہت طول دیدیا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ موت سے ڈر گئے ؟ حضرت حجر نے نہایت دلیری سے کہا یقین کرو کہ میری زندگی کی یہ سب سے کم وقت میں پڑھی جانے والی نماز تھی جو میں نے ابھی پڑھی ہے بالآخر حجر ابن عدی شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے اور جہاد کے سنگین بوجھ کو سرحد شہادت یعنی آخری منزل تک پہنچادیا لیکن تاریخ کے رنگین صفحات پر ہمیشہ کے لئے امیر شام کی ذلت وخواری کی داستان لکھ دی ۔
حضرت حجرابن عدی کی شہادت کے بعد معاویہ بن سفیان نے اعتراف کیا ” اگر میرے ساتھیوں میں حجر ابن عدی جیسے چند افراد ہوتے تو میں بنی امیہ کی حکومت کو پوری دنیا میں قائم کردیتا لیکن افسوس صد افسوس ، میں کس طرح حجر ابن عدی جیسے افراد کو، جو پوری شجاعت ودلیری اور جذبہ ایمانی کے ساتھ میدان عمل میں ڈٹےرہے ، اپنے پاس اکٹھا کرسکتا ہوں ؟
حجر ابن عدی کو شہید کرنے کے بعد امیر شام کو بہت سی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور جب حج کے ارادے سے مدینہ گئے تو ام المومنین عائشہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن حضرت عائشہ نے دو دلیلوں کی بنیاد پر ملنے سے انکار کردیا پہلے یہ کہ انہوں نے ان کے بھائی محمد ابن ابو بکر کو کیوں شہید کیا دوسرے یہ کہ اس نے حجر ابن عدی کو کیوں شہید کیا ۔امیر شام نے حضرت عائشہ سے معافی مانگی لیکن انہوں نے مناقات کی اجازت نہ دی مگر جب اصرار زيادہ بڑھا تو حضرت عائشہ نے مجبورا ملاقات کی اجازت دے دی اور پھر پیغمبر اسلام (ص) کی یہ حدیث پڑھ کر اسے سنائی کہ پیغمبر (ص) نے فرمایاتھا کہ ” سرزمین مرج العذراء پر ایک گروہ قتل ہوگا جن کے قتل سے پروردگار عالم اور اہل آسمان بہت زيادہ غضبناک ہوں گے ” کہتے ہیں کہ امیر شام زندگی کے آخری لمحے تک اس دلخراش منظرکو یاد کرتا رہا اور حجر ابن عدی کے قتل پر اظہار پشیمانی کرتارہا ۔یہاں تک کہ موت کی ہولناک وادی میں جا پہنچا مگر مرج العذراء میں شہید ہونے والے زندہ جاوید ہوگئے اور ان کا نام عشق و آزادی اور شرافت میں سرفہرست درج ہوگیا ۔
یقینا حجر ابن عدی جیسے افراد کا ایمان ، انسان کی روحانی و باطنی عظمتوں اور جلوؤں کو خاشع و خاضع بنا دیتا ہے یہی ایمان و شجاعت تھی جو پیروان حق کی جانب سے آشکار ہوئی جس نے باطل طاقتوں کو لرزہ براندام کردیا ایسا خوف، جو چودہ سو برسوں کے بعد آج بھی جاری ہے کیونکہ پیغمبر اسلام (ص) ، اہل بیت طاہرین اور آپ کے عظیم صحابیوں کی حقانیت کے خلاف اہل باطل کے دلوں میں آج بھی بغض و کینہ اور حسد بھرا ہوا ہے اسی لئے کبھی وہ توہین آمیز کارٹون بناکر ، کبھی توہین آمیزمن گھڑت داستانیں لکھ کر، تو کبھی مضحکہ خیز فلم دکھاکر اپنی عداوت و دشمنی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔اور اب تو حد یہ ہوگئی ہے کہ حال ہی میں انہوں نے ایک گھناؤنا اور بدترین کام انجام دیا ہے اور وہابیت کے ٹکڑوں پر پلنے والے ان کے ایجنٹوں نے پیغمبر اسلام کے جلیل القدر صحابی حجر ابن عدی کے مرقد مطہر پر حملہ اور نبش قبر کرکے ان کی ضریح مبارک کو مسمارکردیا اور ان کے جسد اطہر کو جو چودہ سو برسوں کے بعد آج بھی تر وتازہ اور خون آلود تھا نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ۔ نبش قبر جیسے غیرانسانی فعل کی نسبت کسی بھی مسلمان کی طرف نہیں دی جاسکتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سینکڑوں بے گناہ بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں کا خون بہاتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ نوجوانوں کی گردنوں کو بڑی بے رحمی سے تلواروں سے اڑاکر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور پھر ان لاشوں کی تصاویر کو انٹرنیٹ اور سیٹیلائٹ پر نشر کرتے ہیں اور خود کو مسلمان ثابت کرکے اسلام کا بدترین چہرہ دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
شاید یہ بات بےجا نہ ہوگی اگر ہم ان لوگوں کا تذکرہ کریں جنہوں نے پیغمبر اسلام (ص) کے صحابی کی قبر کی بے حرمتی کی ہے وہ کن فکروں کے پروردہ تھے آئیے ذرا تفصیل سے وہابیت کے عقائد سے آشنائی پیدا کرتے ہیں ۔ درحقیقت وہابیت کا آغاز ابن تیمیہ کے افکار سے ہوتا ہے سورہ طہ کی پانچویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ ” وہ رحمن عرش پر اختیار اور اقتدار رکھنے والا ہے ۔ لیکن ابن تیمیہ اس آیت کی تفسیر میں کہتا ہے کہ خدا آسمان پرایک تخت پر بیٹھا ہے۔ حالانکہ خدا جسم و جسمانیات سے مبرہ ومنزہ ہے لیکن وہ خدا کے جسم کا قائل ہوا ہے ۔اس کے فکری انحرافات صرف خدا سے ہی مخصوص نہیں رہے بلکہ اس نے پیغمبر اسلام(ص) اہل بیت طاہرین اور صالحین کے بارے میں بھی اپنی ناقص فکروں کو روا رکھا ہے چنانچہ اس نے پیغمبر اسلام (ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے طلب دعا کو توحید کے خلاف اور شرک شمار کیا ہے یہی نہیں بلکہ اس نے پیغمبر اسلام اور اہل بیت طاہرین کے قبور کی زیارت و احترام کو بھی غلو ، بدعت اور مشرکوں کے کام سے تعبیر کیا ہے البتہ اہل سنت حضرات نے ابن تیمیہ کے اس نظریئے کی سخت مخالفت کی ہے کیونکہ یہ عقیدہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں اور بے شمار معتبر روایتوں کے منافی ہے ۔
ابن تیمیہ کا ایک شاگرد بنام محمد ابن عبد الوھاب تھا جس نے عصر حاضر میں موجود وہابیت کا بیج بویا ۔وہابیوں کے عقیدے کے مطابق خدا کے علاوہ کسی کی قسم کھانا شرک ہے حالانکہ قرآن کریم میں خدا کی قسم کے علاوہ تقریبا چالیس مقامات پر آسمان، چاند ، سورج ، زمین ، رات ، دن، انجیر، زیتون ، اور پیغمبر کی جان کی قسم کھائی ہے خلاصہ یہ کہ اس فرقے کا عقیدہ بے بنیاد مفروضوں پر مشتمل ہے جس نے دولت و ثروت اور غلط پروپگینڈے کے ذریعے اس بات کی کوشش کی ہے کہ مغرب زدہ استعماروں کے اہداف و مقاصد کے مطابق مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان تفرقہ پیداکردے۔
بہرحال پیغمبر اسلام (ص) اور امیرالمومنین کے عظیم صحابی حجر ابن عدی کی قبر کو کھود کر ان کے جسداطہر کو نامعلوم مقام پر منتقل کرنا سلفیوں کی ایک نئی سازش اور بدترین جارحیت ہے ۔مذہب اسلام میں قبر کھودنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے جب کہ اس وقت کچھ لوگوں نے مسلمان ہونے کے باوجود صدر اسلام کی عظیم و موثر شخصیتوں میں سے ایک عظیم فرد کی قبر اقدس کو مسمار کردیا ہے۔ اور بے حیائی و جسارت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس متعصب گروہ نے اعلان کردیاہے کہ بارگاہ حضرت زينب اور حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کو مسمار کرکے ان کی بھی قبریں بھی کھود ڈالیں گے ۔ یہ بات عقل قبول نہیں کرتی کہ شام کے حکومت مخالفین جو شام کو آزادی دلانا چاہتے ہیں اس طرح کی غیر انسانی حرکتیں انجام دے کر کیاکرنا چاہتے ہیں اور اس کا رونماہونے والے توہین آمیز واقعات سے کیا تعلق ہے ؟ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ عالمی ادارے ، سیاسی حلقے اور مغربی ذرائع ابلاغ جنہوں نے دوہزار ایک میں افغانستان کے صوبہ بامیان میں سلفی ہمفکر گروہ کے ہاتھوں بدھشٹوں کے مجسموں کو مسمار کرنے پر بہت زیادہ شور مچایا تھا مسلمانوں کی اس عظیم و بزرگ ہستی کی ویرانی قبر پر کیوں خاموش تماشائی بنےہوئے ہیں اور ظالموں اور مجرموں کی پشت پردہ حمایت کررہے ہیں ۔
پییغمبر اسلام (ص) کے عظيم صحابی حجر ابن عدی کے مزار اقدس کی توہین اور اس طرح کے امور کے دوبارہ انجام دینے کی دھمکی ، شاید اس سلفی گروہ کی ایک نئی سازش اور حربہ ہو کیونکہ جو لوگ شام کے بحران اور قتل و غارتگری کے باوجود اپنے اہداف و مقاصد تک نہیں پہنچ سکیں ہیں انہوں نے توہین آمیز اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے تاکہ اس کے ذریعے شام میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑکا سکیں۔
لیکن جس طرح سے حجر ابن عدی کو قتل کرکے امیر شام معاویہ ابن سفیان ہمیشہ کے لئے ذلیل و خوار ہوگیا اسی طرح وہابیوں کے ہاتھوں ، جو اپنے کو مسلمان کہتے ہیں ،حجر ابن عدی کی قبر کو کھود کر ان کی لاش کو غائب کرنے سے اس گروہ کا حقیقی چہرہ پہلے سے زيادہ کھل کر سامنے آگیا ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button