مقالہ جات

فتحِ بلوچستان اور دشمن کی سازشیں

dharnaاپنی نوعیت کا انوکھا اور منفرد کارنامہ انجام دینے والی ملتِ کے اتحاد، جرات، ہمت، استقامت، شجاعت، جواں مردی، بہادری کو سلام پیش کرنا چاہئے کہ جہاں 4 روز تک 50 لاکھ کے قریب انسان کسی ریاست کی سڑکوں پر جمع رہیں نہ ہی کسی درخت سے پتہ ٹوٹے، نہ ہی کوئی پتھر چلے، نہ صرف یہ بلکہ پورے ملک کا زمینی، ریلوے اور فضائی رابطہ بھی منقطع کردیں، مرد و زن، پیر و جوان اور معصوم بچے بلکہ شیر خوار بھی گھر میں نہ رہیں اور استقامت، جرات و بہادری کا ایسا مظاہرہ کریں کہ ایوان اقتدار لرزہ بر اندام ہوجائیں اور موجودہ وزیراعظم خود سر کے بل ان احتجاجیوں کے پاس آئے اور ایک صوبے میں اپنی حکومت کے خاتمے کا اعلان کرے جو ان ملک گیر مظاہرین کا مشترکہ مطالبہ تھا۔ واقعاً ملک گیر دھرنوں میں اقبال کے اس شعر کو عملی صورت میں ملاحظہ کیا گیا۔

مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

میں مشرقِ وسطیٰ کی کسی شورش زدہ ریاست کی بات نہیں کر رہا، کہیں آپ سمجھیں کہ تیونس، مصر، لیبیا، بحرین یا یمن کا قصہ بیان ہورہا ہے۔ میں اسی کرپشن کے جنگل، لٹیروں کی آماجگاہ، درندوں کی پناہ گاہ، دہشتگردوں کی کمیں گاہ، خون آلود، مغربی پنجوں میں جکڑے ہوئے وطن عزیز پاکستان کی بات کر رہا ہوں جہاں خودکش بمباروں کا جمعہ بازار لگا ہو، جہاں 13 برس کا ایک طالب علم خود ساخطہ جنت کے حصول کے لئے بیک وقت 100 لوگوں کو بے دردی سے مساجد، امام بارگاہوں، مزارات اور بازاروں میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ جہاں عام شہری سے لیکر ایوانِ اقتدار میں موجود حکمرانوں تک سب اس ظلم و بربریت پر چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہوں، ایسے کرب ناک وہشت زدہ معاشرے میں ایک جمیعت اٹھے اور اپنے جائز حق کے حصول کا نعرہ بلند کرے اور ظالم حکمرانوں سے اپنا حق چھین لے۔ جی ہاں ہم تذکرہ کر رہے ہیں سانحہ کوئٹہ کے خلاف ہونیوالے 4 روزہ ملک گیر پر امن احتجاجی دھرنوں کا کہ جس میں 86 شہداء کے خاکستر جنازوں سمیت کوئٹہ میں اور علامتی جنازوں کے ساتھ پورے پاکستان میں دھرنے دیئے گئے۔

مثلِ صدائے ہل من ناصر ینصرنا کربلائے کوئٹہ سے بلند ہونے والی یہ ندائے استغاثہ پوری دنیا میں سنی گئی اور پاکستان سمیت دنیا کے 30 سے زائد ممالک سے لبیک کی صدائیں بلند ہوئیں نہ صرف یہ بلکہ اس صدانے دنیا بھر کے بے ضمیر حکمرانوں کو جھنجھوڑا اور نام نہاد انسانی حقوق کے ٹھکیداروں کو بھی۔ غرض یہ کہ یہ احتجاجی تحریک معاشرتی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ مملکت خداداد پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ 66 سال میں کبھی کسی تنظیم، جماعت، گروہ یا مسلک نے اس طرز کا پرامن، پر عزم و منظم احتجاج نہیں کیا کہ جس کے نتیجے میں پہلی بار کسی صوبے کی نااہل، قاتل اور خائن حکومت کو مسندِ اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا ،یہ سہرا بھی اسی ملّتِ مظلومِ تشیع کے سر ہے کہ جو 1400 سالوں سے قربانیاں دیتی چلی آرہی ہے لیکن کبھی کسی جابر، ظالم اور خائن حاکم کے آگے سرِ تسلیم خم نہیں کرتی۔

آج ایک مرتبہ پھر ملّتِ تشیع پاکستان نے اپنے پرُکھوں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایک اور تحتِ شاہی کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔ ملّتِ سرفرازِ جعفریہ کا یہ تاریخ ساز کارنامہ جہاں اس کی جرات، ہمت، استقامت، شجاعت، جواں مردی، بہادری کی بدولت ممکن ہوا وہیں تائیدِ غیبی، نصرتِ امام عصر عج اور علماء حقّہ کی مدبرانہ و شجاعانہ رہبری کا بھی مرہونِ منت ہے۔ طویل عرصے کے بعد ملّتِ مظلوم نے اپنی روحانی قیادت کو کربلائے کوئٹہ کے محاذ کی فرنٹ لائن پر پایا ہے۔ علماء کرام نے بھی خوب حقِ رہبری ادا کیا ہے۔ تحریک کے روزِ اول سے روزِ آخر تک اپنے مؤقف پر قائم رہے، ایک لمحے کے لئے بھی محاذ خالی نہ چھوڑا، نہ یہ کہ کوئٹہ میں موجود مجاہدین کی رہنمائی کرتے رہے بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے کونے کونے تک اس مظلومیت کا دفاع کرتے رہے۔ پوری ملّت خواہ پاکستان میں ہو یہ دنیا کے کسی کونے میں اپنا ہر ایک قدم اپنی فرنٹ لائن پر موجود قیادت کے حکم کے مطابق اٹھا رہی تھی۔ ایک زمانے کے بعد ملتِ جانبازِ تشیع کو اجتماعی طور پر علماء کے احکامات کا تابع پایا گیا۔

پوری دنیا یعنی ملکی و غیر ملکی حکمرانوں، انٹرنیشنل و لوکل میڈیا، سماجی و انسانی حقوق کے قومی و بین الاقوامی اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خوب ملاحظہ کیا کہ جس قوم کو گذشتہ کئی دھائیوں سے مختلف حیلوں بہانوں سے اندرونی و بیرونی سازشوں کے ذریعے کمزور کرنے، تقسیم کرنے کی کوششیں کی گئیں، خاص طور پر ملّی حقوق کے حصول کی جدوجہد اور اپنی سیاسی شناخت کے ساتھ میدان عمل میں حاضر رہنے سے باز رکھا گیا کس طرح علماء کے احکامات کی پابند نظر آئی۔ اب آتے ہیں اپنے اصل مقصدِ تحریر کی جانب کے جس کے لئے آپ کی توجہ حاصل کی گئی۔ اس تاریخ ساز احتجاجی تحریک کے کامیاب آغاز و نتیجہ خیز انجام کے بعد اور اس تحریک میں شامل شیعیانِ پاکستان کی استقامت پر دشمن بھی گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

ملت تشیع پاکستان کے خلاف ایک عالمی ایجنڈے کے تحت مشکلات و مصائب پیدا کئے گئے کیونکہ عالمی سامراج و استعمار انقلاب اسلامی کی کامیابی اور لبنان میں شیعہ مکتب فکر کے باوقار سیاسی کردار کے بعد اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ شیعہ مکتب وہ واحد مکتب ہے جو ملتوں اور مملکتوں کی قیادت کا بہترین ہنر جانتا ہے نہ صرف یہ کہ شیعہ بلکہ عالم بشریت کا نجات دہندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر اس ملت کو فرصت ملے تو وہ اس کام میں کبھی کوتاہی نہ برتے اس نکتہ نظر کے تحت ملت تشیع پاکستان کی جڑوں کو کمزور کرنے کے لئے، آپس کے اختلافات میں الجھانے کے لئے، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے خوف زدہ کرنے کے لئے، اجتماعی سیاسی حقوق کے حصول کی جدوجہد سے باز رکھنے کے لئے خطیر رقم کی سرمایہ کاری کی گئی۔ دشمن کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ملّت شیعہ اب کبھی علماء کے زیر اثر نہیں رہی گی، یہ ملّت کبھی ایک مرکز و محور کے گرد جمع نہیں ہوگی، یہ ملّت مردہ ہوچکی ہے، اس کی سیاسی اجتماعی حس ختم ہوچکی ہے۔ ملّت شیعہ اپنے اجتماعی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کے حصول کے لئے بانجھ ہوچکی ہے۔ استعماری سرمایہ کاری کی بدولت یہ ملّت تقسیم در تقسیم اور ہمیشہ کے لئے معذور ہوچکی ہے۔

لیکن اس 4 روزہ کامیاب ملک گیر تحریک کے بعد دشمن کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں ہیں، ساری سرمایہ کاری خاک میں مل چکی ہے، سارا کا سارا پلان فلاپ ہوچکا ہے۔ ملّی اتحاد، وحدت و اخوت کے اس عظیم منظرنامے اور اس تحریک کی نتیجہ خیز کامیابی کے بعد دشمن اپنی حکمتِ عملی ازسرِ نو ترتیب دے رہا ہے۔ اب اسے ملّت تشیع کے خلاف پہلے سے زیادہ مضبوط و مؤثر حکمت عملی مرتب کرنی ہے۔ جس کا آغاز اس نے کردیا ہے۔ کیوں کہ ملّت اس کے پلان کے بر خلاف اکھٹی ہوئی، ایک مرکز پر جمع ہوئی، علماء کی مطیع ہوئی، اجتماعی سیاسی حق کے حصول کے لئے قیام کیا اور ایک نتیجہ خیز تحریک کی بنیاد ڈالی۔

ان تمام حقائق کے پیشِ نظر اب پاکستان میں موجود استعماری گماشتوں نے ملّت شیعہ کی سرکوبی، اس کے اتحاد میں رخنہ اندوزی اور باہمی اختلاف اور انتشار کا کام تیزی کے دوبارہ شروع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ادارے مکمل حرکت میں آگئے ہیں اور اس نتیجہ خیز تحریک میں شیعہ قوم کی عظیم کامیابی اور اپنی شکست و حزیمت کا بدلہ لینے کے لئے بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں اس تحریک میں شامل ملت کے جوانوں اور فعال تنظیمی افراد کو علماء، مرکزیت اور مذہبی قیادت سے دور کرنے کے لئے حکمت عملی مرتب کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں وہ جوان اور فعال کارکنان جن کی شب و روز محنت و کاوش سے یہ نتیجہ خیز تحریک تکمیل کو پہنچی، جو مستقل کوئٹہ میں موجود اپنے مرکز کے احکامات پر عمل پیرا رہے، ایک محور سے ہٹانے کیلئے انہیں اس مرکزیت سے بدظن کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور انہیں کسی طور قومی تحریک یا پلیٹ فارم سے دور رکھنے کے لئے علاقائی سطح پر کردار دیا جا رہا ہے۔ جوانوں کے کسی بھی سطح پر مرکزیت سے ارتباط کو روکنے کے لئے علاقائی سطح پر انہیں ٹولیوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔

اس کے ساتھ ہی وہ فرقہ پرست کالعدم گروہ جو اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں سمیت عالمی استعماری طاقتوں کی تنخواہ پر پاکستان میں شیعہ مکتب کے خلاف منفی پروپگینڈے میں مصروفِ کار ہیں ان کے کام میں بھی تیزی آگئی ہے۔ ان کالعدم گروہوں نے میڈیا کی مدد سے شیعہ مکتب کے خلاف بھرپور تشہیری مہم چلا رکھی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی معاونت خاص طور پر نٹ میڈیا کر رہا ہے۔ حیدرآباد میں 9 ربیع الاول کے دن قاتلِ امام حسین (ع) ملعون عمر ابن سعد کے پتلے کے جلائے جانے کو خلیفہ دوئم حضرت عمر سے منسوب کیا جا رہا ہے، اندرون سندھ مختلف شہروں میں علم حضرت عباس (ع) کو شہید کرنے کے واقعات میں تیزی آگئی ہے۔ خفیہ ادارے ایک منظم سازش کے تحت ان کالعدم گروہوں سے وابسطہ لوگوں کو نشانہ بنا کر قتل کر رہے ہیں۔ اس کام کا پہلا مقصدیہ ہے کہ شیعہ ان ہی ثانوی اور جزوی مسائل میں الجھے رہیں اور اپنے اصل مقصد اور حدف یعنی سیاسی اور اجتماعی جدوجہد اور مرکزیت سے توجہ ہٹا لیں، جس کی جانب ملّت شیعہ گذشتہ چند ماہ سے خصوصی توجہ دی رہی ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان بھر میں مظلومیت اور شہادت کے قصے شیعہ مکتب فکر کی شان میں تحریر ہوئے اس کا توازن بگاڑ کر ان کالعدم فرقہ پرست گروہوں کو بھی حصہ دیا جائے تاکہ مظلومیت کا ٹائٹل فقط شیعہ استعمال نہ کریں۔ الیکشن کے نزدیک آتے ہی اس طرح کی گھناؤنی سازشوں میں ان خفیہ اداروں، اسٹیبلشمنٹ، کالعدم فرقہ پرست گروہوں کے ساتھ ساتھ شیعہ حقوق کی نام نہاد علمبردار بعض سیاسی جماعتیں بھی ملوث ہیں۔ وہ بھی نہیں چاہتیں کہ شیعہ نوجوان اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ اپنا سیاسی کردار ادا کریں۔

لہٰذا بہت محتاط اور سنجیدہ رویے کے ساتھ ہمیں خصوصاً جوانوں کو سمجھنے اور عمل کر نے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ ہم اپنی مکتبی شناخت کے ساتھ سیاسی کردار ادا نہ کریں ہمیں اس کردار کو ادا کرنے کے لئے زیادہ توجہ کرنی ہوگی۔ دشمن کی تمنا ہے کہ ہم کسی شیعہ سیاسی پلیٹ فارم پر متحد نہ ہوں ہمیں یہ کام جلد از جلد اور منظم انداز میں کرنا ہوگا۔ دشمن شناس معاشرہ تشکیل دینا ہوگا۔ دشمن کی تشخیص اس کی سازشوں سے باخبری وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہماری ملّت Deffensive نہیں بلکہ Attacking پوزیشن میں تیار رہے۔ یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس سے غفلت برتنا ذلت کی ذندگی اور ذلت کی موت کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا خبرداری، بیداری اور ہوشیاری کے ساتھ میدان میں حاضر رہنا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button