مقالہ جات

کالعدم تحریک طالبان گروپنگ کا شکار،ولی الرحمان رہنما کے طور پر سامنے آ سکتا ہے

wali rehman hakem ula mehsoپاکستانی طالبان جو کہ دنیا بھر میں دہشت گرد گرہوں میں مشہورترین تنظیم ہے۔جس کی قیادت حکیمللہ محسود کر رہا ہے لیکن حالیہ دنوں گروپنگ کا شکار ہے اور ایک نیا ابھرتا ہو انام ولی الرحمان سامنے آ رہا ہے،اس گروہ کا کام افغانستان میں امریکی اور اتحادی فورسز کے خلاف کاروائیاں کرنا ہے۔جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کے ایک سینیئرافسر نے بتایا ہے کہ حکیم اللہ محسودگذشتہ تین برس سے تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر کے طور پر کام کر رہا ہے لیکن اب وہ تنظیم کے اندر اپنی مقبولیت اور کنٹرول کھو چکا ہے۔
فوجی زرائع نے بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئیٹرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 40سالہ ولی الرحمان تحریک طالبان میں انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہاہے جبکہ وہ اس وقت ڈپٹی کمانڈر کے عہدے پر فائز ہے۔ولی الرحمان تحریک طالبا ن پاکستان میں موجود طالبان جنگجوؤں کے درمیان انتہائی شہرت یافتہ اور اہمیت کا حامل بھی ہے۔
پاک فوج کے اعلیٰ افسر کاکہنا تھا کہ رحمان بہت تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کر رہاہے اور بہت جلد حکیم اللہ محسود کی جگہ لے سکتا ہے جبکہ ہمارے نزدیک وہ زیادہ اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے اگر وہ پاکستانی حکومت سے مذاکرات کرے کیونکہ محسود انتہائی سخت مزاج ہے اور مذاکرات نہیں کرنا چاہتا۔
واضح رہے کہ تحریک طالبان پاکستان سنہ 2007ء میں کالعدم دہشتگرد گروہوں کے دہشت گردوں کے مجموعہ سے عمل میں آئی تھی۔جس کا مقصد امریکی نواز پاکستانی حکومت کے خلاف کاروائیاں کرنا اور پاکستان کے ۲۰ کروڑ مسلمانوں پر اپنی مرضی کا اسام تھوپنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ افغانستان میں بھی امریکہ اور اس کے اتحادی فوجیوں کے خلاف کاروائیاں کرنا ہے۔تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی حکومت کے خلاف سنہ 2007ء میں اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کے بعد کاروائیاں کرنا شروع کیں کیونکہ لال مسجد طالبان کے لئے اہم ترین مورچہ اور حمایت کی آماجگاہ تھی۔
حکیم اللہ محسود نے 30سال کی عمر میں سنہ 2009ء میں اپنے بھائی بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان کی بطور کمانڈر ذمہ داری سنبھالی اور سنہ 2010ء میں اس وقت زیادہ شہرت یافتہ ہوا جب امریکہ نے افغانستان بیس پر 7سی آئی اے ایجنٹوں کے قتل کا مقدمہ محسود پر ڈالا۔
بین الاقوامی خبررساں ادارے روئیٹرز نے جنوبی وزیرستان کے تین روزہ دورے کے دوران متعدد فوجی افسران سمیت قبائلی رہنماؤں سے بھی انٹر ویو کئے،۔واضح رہے کہ سنہ 2009ء سے جنوبی وزیرستان کا علاقہ صحافیوں کے لئے نو گو ایریا بن چکا تھا کیونکہ پاک فوج نے وہاں آپریشن شروع کر دیا تھا۔
پاک افواج کے تین اعلیٰ افسران نے بتایا کہ ان کے مخبروں نے خبر دی ہے کہ حکیم اللہ محسود اب زیادہ عرصہ تک تحریک طالبان کا کمانڈر نہیں رہ پائے گا کیونکہ تنظیم کے اندر اس کے خلاف سخت مخالفت بھی پائی جاتی ہے۔
دوسری جانب ایک امریکی اعلیٰ عہدیدار کاکہنا ہے کہ محسود ہو یا رحمان ہم اس کو خطرہ ہی تصور کرتے ہیں اگر چہ محسود کمزور ہو رہا ہے لیکن تاحال اس کے ساتھ اس کے پیروکار موجود ہیں۔واشنگٹن نے رحمان یا محسود دونوں میں سے کسی ایک کی اطلاع دینے والے کے لئے 5ملین ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔
جنوبی وزیرستان میں دو سال سے کام کرنے والے ایک پاک فوج کے اعلیٰ افسر کاکہنا ہے کہ 6ماہ قبل ہی یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ محسود اپنے گرو پ میں کمزور پڑ رہا ہے جبکہ ڈرون حملوں اور اس کی خود کی طبعیت کی ناسازی کے باعث وہ زیادہ عرصے تک کمانڈر نہیں رہ سکے گا۔
جنوبی وزیرستان میں تعینات ایک فوجی افسر کاکہنا ہے کہ رحمان کے کمانڈر بننے سے پاکستان کے اندر ہونے والے طالبان حملوں میں کمی واقع ہو گی جبکہ محسود اس بات کا قائل ہی نہیں ہے اور وہ صرف اور صرف تباہی او بربادی پھیلانا چاہتا ہے ۔فوجی افسر نے مزید بتایا ہے کہ رحمان اپنے جنگجوؤ ں کو ہمیشہ سرحد پار افغانستان میں امریکی واتحادی فوجوں کو ہی نشانہ بنانے پر زور دیتا ہے۔
دوسری جانب طالبان کے دوسرے گروہ جن کی قیادر نذیر اور حکمت گل بہادر کر ہے ہیں وہ شمالی وزیرستان سے کام کرتے ہیں اور انہوں نے پاکستان آرمی کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے جس کے تحت وہ پاکستان کء اندر کاروائیاں نہیں کرتے جبکہ سرحد پار کاروائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔
پاکستان سفارت کار ریاض محمد خان جو کہ افغانستان مسائل سمیت متعدد اعلیٰ عہدو ں پر فائز رہے ہیں کاکہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب امریکہ اور نیٹو فورسز 2014ء میں افغانستان سے انخلاء کرنا چاہتی ہیں پاکستانی طالبان کی قیادت میں تبدیلی انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ان کاکہنا ہے کہ امریکہ پہلے ہی افغانستان اور پاکستان میں موجود طالبان سے جنگ میں مصروف ہے جبکہ حقانی گروپ جو کہ افغانستان اور پاکستان دونوں جگہ موجود ہے ۔ریاض محمد خان نے کہا ہے کہ آخری خیال یہی ہے کہ امریکہ 2014ء سے پہلے ایک نیا دشمن چاہتا ہے تا کہ انخلاء کا عمل ملتوی ہو سکے۔
ایک اور نقطہ نظر سے
پاکستانی طالبان جو کہ القاعدہ سے بھی منسلک ہیں اور پاکستانی افواج کی جانب سے طالبان کے خلاف آپریشن کے باوجود خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔انہوں نے سنہ 2009ء میں پاک فوج کے اڈوں اور ہیڈ کوارٹر کو بم دھماکوں سے نشانہ بنا یا اور حال ہی میں اکتوبر میں ملالہ یوسف زئی نامی لڑکی پر بھی حملہ کیا جو امریکہ کے لئے کام کر رہی تھی۔
واضح رہے کہ سنہ 2008ء میں اسلام آباد میں میرٹ ہوٹل میں ہونیو الے بم حملے کا الزام بھی پاکستانی طالبان پر ہے جس میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
لیکن پاکستانی طالبان کی اندر کی خاموشی انتہائی پیچیدہ ہے۔محسوس جو کہ اس بات کا قائل ہے کہ پاکستانی حکومت سے جنگ کرتا رہے جبکہ رحمان کا کہنا ہے کہ افغانستان مین امریکی و مغربی افواج کے ساتھ لڑائی کی جائے۔
وانا بیس پر تعینات ایک فوجی افسر کاکہنا ہے کہ رحمان ماضی میں پاک فوج کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرتا رہا ہے جبکہ محسود اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے او ر چاہتا ہے کہ پاکستان افواج کے ساتھ لڑائی جاری رکھی جائے۔
ایک اور فوجی افسر کاکہنا ہے کہ دونوں کے اختلافات کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان پہلے سالوں کی نسبت زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔
طالبان کے ایک قریبی زرائع کاکہنا ہے کہ گذشتہ چند ماہ میں پاکستانی طالبان اپنی پرانی حیثیت اور طاقت کھو چکے ہیں جس کی وجہ پاکستانی حکومت سے منسلک چند قبائلیوں کا قتل بھی ہے۔طالبان یہ بات جانتے ہیں کہ وہ ایک عوامی تعلق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ اسے کھو دیں گے۔اس لئے یہ بات بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ محسود اختیارات رحمان کو بغیر جنگ کئے دے گا۔طاقت کی اس جنگ کی وجہ سے نئے جنگجوؤں کو شامل کرنا بھی مشکل ہو رہاہے جبکہ پاکستان جو ہمارے لئے ایک جنت ہے وہ جنت بھی ختم ہونے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔شوریٰ اور ہمارے قبول شدہ نظام کے تحت آخر کار یہ فیصلہ ہونا ہی ہے کہ محسود کمانڈر رہے یا رحمان۔
خفیہ ایجنسیوں کے زرائع کاکہنا ہے محسود کافی عرصے سے کسی بھی دہشت گردانہ کاروائی میں حصہ نہیں لے رہا حتیٰ کہ منہاس بیس پر ہونے والے حملے سمیت مارکیٹ میں ہونے والے بم دھماکے میں جس میں 24افراد قتل ہوئے تھے۔
فوجی زرائع کاکہنا ہے کہ رحمان 15اپریل کو بنوں کی جیل کو توڑنے اور 384قیدیوں کو آزاد کروانے میں ملوث تھا جبکہ ایک القاعد ہ دہشت گرد سابق صدر پرویز مشرف پر حملے میں بھی ملوث تھا۔
علاقہ انٹلی جنس ذرائع کاکہنا ہے کہ محسود اپنے ساتھیوں کے درمیان اپنی اہمیت کھو رہاہے جبکہ رحمان تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کر رہاہے۔اگرایک رہنما اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہنما کی طرح پیش نہیں آئے گا تو وہ اپنی مقبولیت کھو بیٹھے گا۔محسود اپنے ڈپٹی رحمان کے ساتھ اچھا رویہ نہیں رکھتا جس کو طالبان رہنماؤں نے بھانپ لیا ہے۔

علاقے میں ایک مقامی دکاندار جس کا محسود کے ساتھ خاندانی تعلق بھی ہے کاکہنا ہے کہ محسود اپنے ساتھیوں سے چوبیس گھنٹے کام لیتا ہے اور کسی بھی جنگجو کو سر پر بندوق رکھ کر معمولی سی بات پر قتل کر دیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button