مقالہ جات

کہ میرا سر ہے تیرے نوکِ سناں کی رونق

yahussainخن وروں کا حضرت امام حسین (ع) اور آپ کے انصار و اعوان سے عقیدتوں کا اظہار، میدان کربلا میں فرزند علی (ع) و نواسہ رسول (ع)، جگر گوشہ بتول (ع)، حضرت امام حسین (ع) نے تاریخِ انسانی کی ایسی قربانی پیش کی کہ آج لگ بھگ چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی ان کی یاد اور غم کی چادر چہار سو پھیلی دیکھی جاسکتی ہے۔ حضرت امام حسین (ع) نے جو تاریخی کردار ادا کیا، اس سے رُشد و ہدایت اور رہنمائی لیتے ہوئے کائنات کا ہر ذی شعور چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتب، مذہب، فرقہ، مملکت اور ثقافت سے ہو متاثر نظر آتا ہے۔
 
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ دانشور حضرات نے اس واقعہ کو اپنی تحریروں، مقالوں اور کتب کی صورت میں نہایت خوبصورت انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے، صاحبان علم و منبر نے اسے خطابت کے جوہر دکھانے اور لوگوں کی فکر و شعور کی گتھیاں سلجھانے کا کام لیا ہے۔ آزادی و حریت کی جدوجہد کرنے والے گروہوں نے اسے اپنے لیے ایک نمونہ اور مثال قرار دیتے ہوئے استبدادی و استعماری حکمرانوں کے خلاف اپنی انقلابی جدوجہد کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ 61 ہجری میدان کربلا کے گرم ریگزار پر پیش آنے والے اس عظیم واقعہ کو جہاں دیگر طبقات، گروہوں اور شخصیات نے اپنا موضوع سخن قرار دیا، وہاں ادب و آہنگ سے تعلق رکھنے والے حضرات نے بھی اسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔

شاعروں نے اس واقعہ کے مختلف پہلوؤں پر نوحے، مرثیے، غزلیں، نظمیں اور سلام و سرور لکھے اور خوش گلو حضرات نے اسے عقیدت و محبت سے پیش کرکے داد تحسین وصول کی، یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ کے مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف ممالک کے بہت سے لوگوں کو شہرت و عزت کی بلندیوں پر دیکھتے ہیں۔ بلاشبہ ان لوگوں نے "کربلا” کے حوالے سے اپنی مہارت، عقیدت و محبت اور رغبت و لگاؤ کے اظہار سے نام کمایا اور زندہ کرداروں میں شامل ہوگئے۔
 
اس مضمون میں ہم مختصراً چند شعرا اور ان کے کلام کا تذکرہ کرتے ہیں، جنہوں نے عقیدت کے پھول نچھاور کئے، ان کے گلہائے عقیدت اور خود انہوں نے وادی عشق حسین (ع) میں بلند مقام پایا۔ یاد رہے کہ کربلا اور اس کے دکھ و غم اور مصائب پر لکھے جانے والے کلام چاہے وہ سلام ہو، غزل ہو، نوحہ ہو، مرثیہ ہو یا سرود و ترانہ ہو، اسے رثائی ادب میں شمار کیا جاتا ہے۔ اردو ادب کی یہ صنف اب صرف "کربلا” اور اس کے کرداروں و استعاروں تک مخصوص ہو کر رہ گئی ہے۔ میر انیس سے لے کر حضرت جوش ملیح آبادی تک اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال سے لے کر فیض احمد فیض تک سب کے سب کربلا سے متمسک و متاثر نظر آتے ہیں۔ موجودہ دور کے شاعر حضرات بھی اپنی اپنی بساط اور عقیدت کے مطابق کربلا کے مختلف پہلوؤں کو موضوع سخن بنا رہے ہیں۔ چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
 
مولانا محمد علی جوہر کا یہ شعر بہت زیادہ معروف ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
علامہ اقبال نے تو "معنی حریت اسلامیہ و سرِحادثۂ کربلا” کے عنوان کے تحت عقل و عشق اور کردار حسین (ع) کی کرنوں کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے اظہار فرمایا ہے اور اس کے ذریعے ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی اور بیداری کی کوشش کی ہے، علامہ نے اس عظیم واقعہ کو ذبح عظیم سے تعبیر کیا ہے۔
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر
اور پھر کہا
نقشِ الا اللہ بر صحرا نوشت
سطرِ عنوان نجات مانوشت

علامہ اقبال(رہ) کی اردو شاعری میں بھی یادگار اور فکر انگیز اشعار نسل انسانی کی رہنمائی اور کربلا سے ان (اقبال(رہ)) کے تعلق و تمسک کا بہترین اظہار ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
اور اس شعر میں ایک تاریخ کو کیسے سمایا ہے اقبال(رہ) نے
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین (ع) ابتداء ہے اسماعیل (ع)
اور کربلا کے زندہ و تابندہ کرداروں سے والہانہ عشق و محبت کرنے والے علامہ اقبال (رہ) نے عشق و صبر کا تصور یوں پیش کیا ہے
صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین (ع) بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں، بدر و حنین بھی ہے عشق

غزل گو شعراء نے بھی اپنی غزلوں میں ظلم و ستم اور قربانی و ایثار و وفا کی اس داستان کو اپنے کلام کا حصہ بنایا۔ مثال کے طور پر ذوق کا یہ شعر دیکھئے
لکھوں جو میں کوئی مضمونِ ظلم چرخ بریں
تو کربلا کی زد میں ہو مرے غزل کی زمیں
نجم آفندی کی غزل کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں
جاں نثاروں نے ترے کر دیئے جنگل آباد
خاک اُڑتی تھی شہیدانِ وفا سے پہلے
بہادر شاہ ظفر نے کربلا کی پیاس کا استعارہ اس شعر میں استعمال کیا ہے
ترسا نہ آبِ تیغ سے ظالم تو کر شہید
کوچہ نہیں ہے تیرا کم از کربلا مجھے

معروف شاعر پروین شاکر کی غزل کا یہ شعر بھی پیاس و تشنگی کی علامت لیئے ہوئے ہے
پہروں کی تشنگی میں یہ بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں، روح مجھے کربلائی دے
حضرت جوش ملیح آبادی نے اپنے زمانے کے حالات اور حضرت امام حسین (ع) کی عظیم و شاہکار قربانی کو اس بند میں خوب پیش کیا ہے
اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
 اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
 تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو
 لازم ہے کہ ہر فرد حسین (ع) ابن علی (ع) ہے
حضرت جوش نے ہی تو یہ معروف شعر کہا ہے
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین (ع)

معروف شاعر مصطفٰی زیدی کی غزل کے یہ اشعار دیکھئے
دیکھنا اہل جنوں ساعتِ جہد آ پہنچی اب کے توہینِ لبِ دار نہ ہونے پائے
دشت میں خونِ حسین ابن علی بہہ جائے بیعتِ حاکم کفار نہ ہونے پائے
یہ نئی نسل اس انداز سے نکلے سر رزم کہ مؤرخ سے گنہگار نہ ہونے پائے
شہرت بخاری کا ایک شعر کئی کلاموں پر بھاری دکھائی دیتا ہے
جُز حسین ابنِ علی مرد نہ نکلا کوئی
جمع ہوتی رہی دنیا سرِ مقتل کیا کیا

منیر نیازی کربلا کی پیاس کے عنوان سے کیا کہتے ہیں
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
ان کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں
میری طرح کوئی اپنے لہو سے ہولی کھیل کے دیکھے
کالے کٹھن پہاڑ دکھوں کے سر پر جھیل کے دیکھے
مولانا محمد علی جوہر کربلا کی یادوں کے چراغ جلائے رکھنے کو ہی یزیدیت سے نجات سمجھتے ہیں جب تک کہ دل سے محو نہ ہو کربلا کی یاد
ہم سے نہ ہوسکے گی اطاعت یزید کی

صبا اکبر آبادی فرات پر پہرہ کو یوں بیان کرتے ہیں
کتنے یزید و شمر ہیں کوثر کی گھات میں
پانی حسین (ع) کو نہیں ملتا فرات کا
امید فاضلی نے کیا خوب اظہار فرمایا ہے
نکل کے جبر کے زنداں سے جب چلی تاریخ
نقاب اُٹھاتی گئی قاتلوں کے چہروں کا

اور عرفان صدیقی کی غزل کا یہ شعر بھی قابل غور ہے
کیوں زباں خنجر قاتل کی ثناء کرتی ہے؟
ہم وہی کرتے ہین جو خلقِ خدا کرتی ہے
اور جناب حسرت موہانی کا یہ شعر بھی تاریخ کے ایک طویل و کربناک باب کی یاد دلاتا ہے
کیا نہیں شوقِ شہادت کو یہ کافی اعزاز
کہ مرا سَر ہے ترے نوکِ سناں کی رونق

متعلقہ مضامین

Back to top button