مقالہ جات

پاراچنار اب بھی جل رہا ہے

armyجمعہ 17 فروری 2012ء کے بعد ابھی تک بم دھماکے کے شہداء کی یاد تازہ ہی تھی اور زخمیوں کے زخم بھی نہ بھرنے پائے تھے کہ چھ ماہ بیس دن (6ماہ 20دن) کے بعد پیر 10 ستمبر 2012ء کو دشمنان اسلام نے پاراچنار شہر کے اندر پیروکارانِ آل محمد (ع) پر بم دھماکے کے ذریعے ایک اور وار کیا۔ دھماکے کے نتیجے میں شہید ہونے والے 14 شہداء گزشتہ 5 برسوں کے 1400 شہداء اور فروری کے دھماکے کے 43 شہداء سے جا ملے۔ 70 مجروحین تاحال ملک کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جن میں سے اکثر عمر بھر کیلئے معذور بن گئے۔ 30 سے زائد دکانوں کی مکمل تباہی اور درجنوں گاڑیوں کا جل کر تباہ ہونا اس کے علاوہ ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ملکی سلامتی کے ذمہ دار سکیورٹی ادارے تاحال ذمہ داری قبول کرنے والے افراد اور گروہوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکے۔ ابتدا میں تو تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ذمہ داری قبول کی جاتی تھی، جن میں براہِ راست بیت اللہ محسود کا نام آتا تھا۔ دیگر کچھ واقعات میں خیبر ایجنسی سے منگل باغ کا لشکر اسلام بھی ملوث پایا گیا۔ حکیم اللہ محسود بھی اہلیان کرم پر ستم ڈھانے میں شریک رہا۔ حقانی نیٹ ورک نے بھی سرفروش طوری و بنگش قبائل کو بند گلی میں دھکیلنے کیلئے دہشت گردی کی درجنوں کارروائیاں کیں۔

فضل سعید حقانی، سابق طالبعلم مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک یہ بانگ دہل اہل تشیع کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرتا رہا اور پیروان اہلبیت (ع) کو امریکہ سے بھی بڑا دشمن قرار دیتا رہا۔ اس سلسلے میں اُسے کئی ایک کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کی حمایت و تعاون بھی حاصل رہا۔ گزشتہ برس وسطی کرم میں پاک آرمی کے آپریشن "کوہِ سفید” کے دوران وہ بالکل آزادی سے گھومتا پھرتا رہا کیونکہ آپریشن سے قبل اُس نے "تحریک طالبان اسلامی” کے نام سے (بظاہر ” تائب”) تنظیم بنائی تھی۔

فروری 2012ء کے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد گرینڈ جرگے نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اُسے گرفتار کرکے سزاد ی جائے، یا طوری بنگش قبائل کے حوالے کر دیا جائے۔ سیکورٹی ادارے تاحال صرف اُس کا گھر ہی منہدم کرسکے ہیں۔ اگرچہ ٹل پاراچنار شاہراہ کو محفوظ بنانے کے حوالے سے ان اداروں کی حالیہ کوششوں کو عوام نے سراہا ہے، جن میں چیک پوسٹس کی بڑی تعداد قائم کرنے اور گشت بڑھانے جیسے اقدامات شامل ہیں اور جن سے یقیناً دہشت گرد عناصر کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے، مگر پاراچنار شہر میں 7 ماہ کے اندر دو بم دھماکے لمحۂ فکریہ ہیں، یعنی اُس شہر میں جسے چاروں طرف سے پاک آرمی نے محاصرے میں رکھا ہوا ہے، بارود سے بھری گاڑیاں شہر کی حدود میں داخل ہوئی تو کیسے؟؟ کیا یہ ملکی سلامتی و دفاع کا طرہ لے کر نشان حیدر پانے والے اور اُن گمنام شہداء کی کارکردگی پر حرف لانے کے مترادف نہیں، جنہوں نے انہی اداروں کی طرف سے یا انفرادی طور پر جانوں کا نذرانہ پیش کیا؟۔

اس بربریت اور اہلکاروں کی غفلت کے خلاف آئی ایس او پاکستان نے فوری طور پر مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے۔ دھماکے کے بعد علماء کرام اور عمائدین کی اپیل پر عوام نے ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا، ممبر قومی اسمبلی ساجد طوری نے پریس کانفرنس کے ذریعے صدائے احتجاج بلند کی۔ قومی انجمن "انجمن حسینیہ” نے بھی ہنگامی پریس کانفرنس میں اسے سکیورٹی اہلکاروں کی غفلت قرار دیا اور واضح کیا کہ اگر فضل سعید حقانی کو عبرتناک سزاد ی جاتی تو دوبارہ اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوتے، چونکہ فضل سعید حقای پہلے دھماکے کے بعد دوبارہ اس قسم کے حملوں کا اعلان کرچکا تھا، لہٰذا سکیورٹی اداروں کو اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ غازی گروپ (جس نے حالیہ دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے) اور فضل سعید حقانی گروپ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں، لہٰذا ان کو گرفتار کرکے عوام کے حوالے کیا جائے۔

پاراچنار میں ایک عرصے سے ذرائع مواصلات کے مسائل کی وجہ سے عوام کی صدائے احتجاج شہرہائے اقتدار کے مکینوں تک نہیں پہنچ پاتی، تاہم کمشنر نے دورہ کرکے ہمدردی کا اظہار کیا، امن واک کی اور یقین دہانیاں کروائیں۔ انجمن کی اپیل پر چیک پوسٹوں پر تعینات تمام اہلکاروں کو معطل کیا گیا، نئے اہلکاروں کو اہم مقامات پر میٹل ڈیٹکٹرز مہیا کیے گئے، تمام چیک پوسٹوں پر علمدار فیڈریشن کی طرف سے تجربہ کار نمائندوں کو تعینات کیا گیا۔ شہر میں داخل ہونے والے غیر معروف راستوں کو بند کر دیا گیا اور عوامی سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت سکیورٹی بڑھانے کیلئے لائحہ عمل تیار کیا گیا۔

گزشتہ کئی سالوں سے ملک بھر میں ملت کو درپیش جن چیلنجز کا سامنا ہے، اہلیان پاراچنار نے اُن کے حق میں بھی آواز اُٹھائی ہے۔ شدید مشکلات و محاصروں کے باوجود ہنگو، کوہاٹ، پشاور، لاہور، خانیوال، ڈی آئی خان، کوئٹہ، کراچی، گلگت بلتستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات حتٰی کہ مسئلہ فلسطین و عراق و لبنان کے حوالے سے کسی نہ کسی صورت میں ضرور احتجاج کیا اور تعاون کرنے کی کوششیں کیں۔ گزشتہ چند ماہ میں ہونے والے پے در پے واقعات (گلگت بلتستان، کوئٹہ، کراچی اور پاراچنار) نے ملت کو لیڈ کرنے والی ملی تحریکوں، تنظیموں اور جماعتوں کی مستقل مزاجی کا صحیح اندازہ ہوا۔ محض روایتی تقاریر و بیانات کے علاوہ کس نے کیا؟ سب کے سامنے ہے۔ یعنی اب تمام مستضعفینِ ملت کو یہ جان لینا چاہیے کہ بلند و بانگ دعوے کرنے والوں کی مدد کا انتظار کئے بغیر اپنے قوتِ بازو سے اپنے مسائل حل کرنے کی جدوجہد کریں۔

اگر قومی سطح کی تنظیمیں فعال کردار ادا کر بھی رہی ہوں تو ان کو مقامی لوگوں کی مدد کی لازمی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک شہداء کے ورثاء اور متاثرہ علاقے کے لوگ فعال کردار ادا نہ کریں، دشمن کا مقابلہ ممکن نہیں، بہرحال ہمیں مقامی سطح پر منظم اور فعال ہونا ہوگا ورنہ ہمارے شہداء کا پاکیزہ لہو قائدین کے تفرقے اور کی ضد پر مبنی جذبۂ مسابقت اور دیگر سیاسی مصلحتوں کی نذر ہو سکتا ہے۔ ملت کے غیور افراد سے یہی اپیل ہے کہ وہ کسی جماعت یا گروہ کا سہارا لیے بغیر ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹیں اور جماعتوں اور شخصیات کے پیدا کردہ تفرقوں کو بھلا کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کی جدوجہد کریں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button