مقالہ جات

توہین رسالت کا ارتکاب اور امریکہ کی بے بسی

haramiگذشتہ ایک ہفتے کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی فلم کے انتشار پر مسلمانان عالم کے شدید ردعمل سے متعلق خبریں عالمی میڈیا پر چھائی رہیں اور باقی تمام خبروں کے حاشیہ نشین ہونے کا باعث بن گئیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران بھی یہی خبریں انتہائی اہم خبروں کے عنوان سے میڈیا پر چھائی رہیں گی اور اس المناک حادثے کے دوررس اثرات و نتائج موضوع بحث بنے رہیں گے۔ 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا یہ غم انگیز واقعہ انتہائی اہم ایشو بن چکا ہے اور اس افسوسناک واقعے نے دین اور انبیاء الہی کے بارے میں مغربی سوچ، عالم اسلام اور مغربی دنیا کے درمیان تعلقات کے مستقبل، اقوام متحدہ کے چارٹر اور ہیومن رائٹس سے متعلق اقوام متحدہ کے اعلامیہ کی اصلاح اور مذہبی مقدسات کے موضوعات پر اظہار خیال کے انداز کو غیرمذہبی موضوعات پر اظہار خیال کے انداز سے جدا کرنے کے بارے میں کئی سنجیدہ اور اہم قسم کے سوالات کو جنم دیا ہے۔
علمی حلقوں میں پیدا ہونے والے سوالات کی اکثریت اس مسئلے سے متعلق ہے کہ اگر حساس قسم کے فکری موضوعات کو صحیح طور پر مینیج نہ کیا گیا تو فتنہ گر اور شرپسند عناصر ایسے فکری میدان میں داخل ہو جائیں گے جس میں وارد ہونے کی وہ بالکل صلاحیت نہیں رکھتے اور اس میدان میں انکا ورود ایک طرف دین کے پیروکاروں کے درمیان بڑے پیمانے پر جنگ و جدل ایجاد ہونے اور دوسری طرف دین اور حکومت کے آپس میں ٹکراو کا باعث بن جائے گا۔ یہ عمومی احساس دراصل اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ دین مخالف عناصر کی جانب سے مذہبی مقدسات کی توہین کے منصوبے انسانی تعلقات کو انتہائی شدید نقصانات پہنچنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس بارے میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مذہبی مقدسات بالخصوص ایسے مقدسات جو نہ صرف ایک خاص دین میں مقدس جانے جاتے ہیں بلکہ تمام ادیان میں انکے تقدس پر اتفاق نظر پایا جاتا ہے پر یلغار کے نتیجے میں وہ خاص دین عالمی سطح پر رائے عامہ کی خصوصی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب قرآن مجید کی بے حرمتی کی جاتی ہے تو بہت سے ایسے افراد بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخرکار اس مقدس کتاب میں کونسی ایسی چیز ہے جو ایک خاص طرز فکر رکھنے والے افراد کیلئے قابل برداشت نہیں جو اس سے پہلے قرآن مجید کے بارے میں زیادہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے تھے۔ یا جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی انجام پاتی ہے تو ایسے افراد کی تعداد کم نہیں ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور انکی دوران زندگی کے بارے میں مطالعہ کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق سابق امریکی صدر جارج بش کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کے دوبارہ آغاز کے اعلان سے لے کر 2005ء تک کے چار سال کے دوران یورپ میں قرآن کریم خریدنے والے افراد کی تعداد 1 کروڑ 70 لاکھ تک جا پہنچی۔ اسی رپورٹ کے مطابق عیسائی ممالک میں مسلمان ہونے والے افراد کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مغربی حکام کی مرضی کے خلاف اسلام براعظم امریکہ اور یورپ میں دوسرے بڑے دین کی حیثیت رکھتا ہے اور اس وقت ان دو براعظموں میں مسلمانوں کی آبادی 7 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ دوسری طرف انتہائی موثق رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی کمبریج اور آکسفورڈ یونیورسٹیز میں 1632ء اور 1636ء میں اسلام سے متعلق تحقیقاتی شعبوں کے قیام سے آج تک امریکہ اور یورپ کی جانب سے تقریبا ان 400 سالوں کے دوران اسلام کے خلاف شدید فعالیت اور ہزاروں کی تعداد میں مستشرقین کو اسلامی ممالک میں بھیجے جانے کے باوجود انہیں اپنے مقاصد میں ذرہ بھر کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
مغربی مشنریز جو آج کل مڈل ایسٹ اسٹڈیز ایسوسی ایشن جیسی تنظیموں کی صورت میں سرگرم عمل ہیں کی اپنی شائع کردہ رپورٹس کے مطابق مسلمانوں کو عیسائی بنانے یا عیسائی اکثریت والے ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے سے متعلق تمام منصوبے بری طرح ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ مغربی ممالک نے متفقہ طور پر "دارالمسیحیت” اسٹریٹجی اپنا رکھی ہے جس کے تحت ان ممالک نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ یورپ میں حتی ایک ایسا ملک بھی معرض وجود میں نہ آنے دیں جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہو۔
اسکاٹ لینڈ کا مشنری ڈانکن بلیک مک ڈونلڈ جو امریکہ میں زندگی بسر کر رہا تھا نے اپنی کتاب "اسلام کا چہرہ” جو سو سال قبل 1911ء میں نیویورک میں شائع ہوئی کے صفحہ نمبر 12 پر لکھتا ہے:
"اسلام بہت جلد مغربی یلغار اور فوجی حملے کے باعث نیست و نابود ہو جائے گا۔ اسکے بعد عیسائی مشنریز کا یہ وظیفہ بنتا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو عیسائی بنائیں”۔
مک ڈونلڈ کا عقیدہ تھا کہ مغربی تہذیب اس قدرت طاقتور ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی نظریات کو نیست و نابود کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ایسے عیسائی مشنریز کی تعداد کم نہیں جو سمجھتے تھے کہ اسلام نام کا کوئی دین حقیقت نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر اڈنبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر منٹگمری واٹ اپنی کتاب "محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ میں” کے صفحہ نمبر 219 پر لکھتا ہے کہ اسلام کے نام پر متعارف کئے جانے والے دین میں زیادہ تر تعلیمات یہودی یا عیسائی مذہب سے متعلق ہیں۔ یہ عیسائی مشنریز ان دعووں کے ذریعے قرآن کریم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وحیانی پہلو کا انکار کرنا چاہتے تھے تاکہ ہیومنزم جیسے مشرکانہ مکتب فکر کے جھوٹے پیغمبروں کے کھل کر سامنے آنے کا زمینہ فراہم کیا جا سکے۔
قرون وسطی (مڈل ایج) کے خاتمے کے تقریبا 300 سال بعد جب دنیا میں تین بڑی مسلمان سلطنتیں (خلافت عثمانیہ، ایران میں صفویہ اور انڈیا میں گورکھانی سلسلہ) موجود تھیں تو برطانوی سلطنتی حکام نے محسوس کیا کہ مسلمان سلطنتوں کے خاتمے کیلئے انہیں کچھ خاص اداروں کی ضرورت ہے لہذا انہوں نے اس قانون کی پیروی کرتے ہوئے کہ "اپنے دشمن کو اچھی طرح پہچانو” 1698ء اور 1701ء میں مختصر وقفے کے بعد دو اداروں Society for promoting Christian knowledge اور Bible Publication Society in Foreign Lands کی بنیاد رکھی۔
تقریبا سو سال بعد ان دو اداروں نے مشنریز ایسوسی ایشنز کی تشکیل کا زمینہ فراہم کیا۔ عیسائی مشنری مراکز نے اسی عنوان کے تحت تقریبا 150 سال تک فعالیت انجام دی۔ برنرڈ لوئیس اور سر ویلیم مور جیسے افراد کی جانب سے اپنی شائع کردہ کتابوں میں کئے گئے اعترافات کے مطابق ان عیسائی مشنری مراکز کا مقصد ایک طرف مسلمانوں کی جانب سے کلیسا عیسائی عقائد جیسے تثلیث کے بارے میں اعتراضات کا جواب دینا تھا اور دوسری طرف اسلامی عقائد کے بارے میں شبہات پیدا کر کے مسلمانوں بالخصوص جدید علوم حاصل کرنے والے افراد کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار کرنا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانیہ کی جانب سے اپنی استعماری کالونیوں پر گرفت ڈھیلی ہو جانے کے نتیجے میں عیسائی مشنریز کا کام امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ موجودہ مدارک و شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ نے یورپ کی جگہ عالمی طاقت کا منصب سنبھالنے اور جدید استعمار کا دورہ شروع ہو جانے کے بعد اسلامی ممالک پر اپنا تسلط قائم کرنے کی خاطر ایسے بے شمار تحقیقاتی اداروں کی بنیاد رکھی جنکا مقصد اسلام اور مسلمانوں کی ثقافت اور انکے آداب و رسوم کا بغور مطالعہ کرنا تھا۔ ان تحقیقاتی اداروں کا محصول ان سینکڑوں محققین کی صورت میں ظاہر ہوا جنہوں نے "اسلام شناس” اور "شرق شناس” کے عنوان سے عیسائی مشنریز کی جگہ سنبھال لی اور تحقیق کے بہانے اسلامی ممالک میں موجود یونیورسٹیز، دینی مدارس اور سیاسی و تحقیقاتی مراکز سے رابطہ برقرار کیا۔ اسی بنیاد پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کارنیگی فاونڈیشن، فورڈ اسلامک فاونڈیشن، راک فلر اسلامک فاونڈیشن، راونڈ فاونڈیشن، ہڈسن اسلام فاونڈیشن، امریکن ایسوسی ایشن فار اسلامک اسٹڈیز اور بریڈلی فاونڈیشن جیسے ادارے قائم کئے گئے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ یہ تمام ادارے اور مراکز یہودیوں کے توسط سے مینیج کئے جا رہے ہیں اور ان میں کام کرنے والے "اسلام شناس” افراد کی اکثریت بھی یہودی ہے۔
امریکہ میں موجود اسلام سے متعلق تحقیقاتی اداروں نے 1960ء سے اسلامی ممالک میں ایک منظم اور ایکدوسرے سے مربوط نیٹ ورک بنانا شروع کر دیا۔ اس نیٹ ورک کے نتیجے میں دین مخالف سیکولر مسلمان متفکرین معرض وجود میں آئے جیسے مصر میں حامد ابوزید، بنگلہ دیش میں تسلیمہ نسرین، ترکی میں فتح اللہ گولن اور ایران میں ڈاکٹر سروش جیسے افراد موجود تھے جنہیں "مسلمان روشن فکر” یا "جدید مسلمان شناس” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس نیٹ ورک میں ایسے ہزاروں افراد موجود تھے جو اسلامی ممالک کی مختلف یونیورسٹیوں اور علمی مراکز سے وابستہ تھے اور مناسب مواقع پر امریکہ جا کر وہاں موجود اسلام سے متعلق تحقیقاتی اداروں میں فعالیت سرانجام دیتے تھے۔ اس فعالیت کا نتیجہ امریکی یہودیوں کے تیار کردہ نظریات اور افکار کا ان بظاہر اسلامی اور درحقیقت یہودی تحقیقاتی اداروں کے ذریعے مسلمان متفکرین کے دل و دماغ تک پنچنے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ محض ادعا نہیں بلکہ اس کے ثبوت کیلئے سینکڑوں ٹھوس شواہد و مدارک موجود ہیں اور راقم نے اس بارے میں انتہائی تفصِلی اور وسیع تحقیقات بھی انجام دی ہیں جو عنقریب شائع ہونے والی ہیں۔
امریکہ میں موجود اسلام سے متعلق تحقیقاتی ادارے ایک نکتے پر انتہائی تاکید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ
"عالم اسلام اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے جسکی وجہ سے اسلام کی نشات ثانیہ ممکن نہیں”۔
اسی طرح رگب ھملٹن اپنی کتاب "محمد ازم” کے صفحہ نمبر 43 اور الفرڈ گولرم اپنی کتاب "اسلام” کے صفحہ نمبر 59 پر اسلام کی نابودی کو یقینی ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسکی بڑی وجہ اسلام کا جعلی ہونا ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکہ میں اسلام سے متعلق تحقیقاتی اداروں کا بے فائدہ ہونے اور اس میں سرگرم اسلام شناس افراد کا دین کی حقیقت اور مسلمانوں کے اعتقادات کو درک کرنے سے قاصر ہونا عیاں ہو گیا۔ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں موجود اسلام سے متعلق تحقیقاتی اداروں میں سے ایک نے بھی ایک مذہبی انقلاب کی کامیابی کے امکان کو ظاہر نہیں کیا تھا۔ اس واقعے نے امریکی حکومت اور دوسرے مغربی ممالک کے حکام کو ان تحقیقاتی اداروں کی نسبت بدگمان کر دیا۔ لہذا اسکے بعد ان اداروں نے عالم اسلام میں رونما ہونے والی اجتماعی تحریکوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا۔ البتہ امریکہ کی سیاسی اور انٹیلی جنس تنظیموں نے بھی عالم اسلام پر اپنا تسلط بڑھانے کی خاطر نت نئے پراجیکٹس پر کام کرنا شروع کر دیا۔
امریکہ میں اسلام سے متعلق تحقیقاتی اداروں نے دنیا میں رونما ہونے والی اجتماعی تحریکوں پر اس قدر توجہ مرکوز کر لی کہ ایک رپورٹ کے مطابق 1980ء سے 2000ء تک قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں پی اچ ڈی کرنے والے 900 اسٹوڈنٹس کے تھیسز کا موضوع ایران اور اس میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب سے متعلق تھا۔ ان تحقیقاتی اداروں نے بعد میں اعتراف کیا کہ انکی جانب سے ایران میں اسلامی انقلاب کی نسبت برتی جانے والی غفلت کی اصل وجہ مذہبی روشن فکر افراد پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرنا اور اس ملک میں موجود اصلی مذہبی طبقے کو نظرانداز کرنا تھا۔
برطانیہ میں سوشل ریسرچ سنٹر کے بانی اور ڈائریکٹر پروفیسر ارمانڈو سلواٹور 1997ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب "اسلام اور تجدد سے متعلق ابحاث” کے صفحہ نمبر 273 پر لکھتے ہیں:
"چونکہ مغربی دنیا میں اجتماعی شعور کا احساس ایک اندرونی احساس ہے لہذا انہوں نے اسلام کو بھی اسی طرز تفکر کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اسلامی دنیا کے روشن فکر متفکرین جو اسلام کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی کے خواھاں تھے نے بھی مغرب سے مختص اسی طرز تفکر کی روشنی میں اسلام کے بنیادی اصولوں کو مغربی متفکرین کی سوچ کے مطابق تبدیل کرنے کی کوشش کی جسکا نتیجہ ناکامی کے سوا کچھ نہ نکلا۔ یہ طرز فکر سب سے پہلی بار علی عبدالرازق کے ذریعے عالم اسلام کے روشن فکر متفکرین میں رائج کی گئی اور اسے بروئے کار لانے والے آخری فرد پروفیسر محمد ارغون ہیں”۔
اسلامی ممالک میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک کے نتیجے میں مصر اور تیونس میں اسلام پسند عناصر کے برسراقتدار آ جانے اور خاص طور پر ایسے مسلمان مفکرین کے سامنے آ جانے کے بعد جو ارغون، سروش، گولن اور ابونصر جیسے افراد سے کوئی مماثلت نہیں رکھتے امریکہ کی جانب سے اسلامی دنیا میں موجود سکولر مفکرین پر بڑے پیمانے پر سرمایہ گزاری کا بے فائدہ اور بے نتیجہ ہونا پوری طرح آشکار ہو چکا ہے۔ یہ ناکامی اور شکست حقیقی اسلامی شعائر کی نسبت عالمی استکباری نظام کے سرکردہ کے طور پر امریکہ کے برتاو پر براہ راست اثرانداز ہوئی اور امریکی حلقوں میں اسلام کے خلاف شدت پسندانہ رویہ معرض وجود میں آنے کا باعث بنی۔ مڈل ایسٹ اسٹڈیز سرکل کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ "مریب” کے صفحہ نمبر 19 پر آیا ہے:
"امریکہ میں جدید اسلام شناس افراد نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف اپنے توہین آمیز رویے کو خاصی حد تک معتدل کر دیا ہے تاکہ امریکی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی حساسیت کو کم کر سکیں لیکن وہ ایسی اصلاحات انجام دینے کی خاطر جنکے ذریعے اسلامی ممالک میں امریکی مفادات کو حفظ کیا جا سکتا ہے اسلام کو ایک ایسے پسماندہ دین کے طور پر متعارف کرواتے ہیں جو ہر قسم کے تجدد اور علمی پیشرفت کے مخالف ہے”۔
اس روش کی ناکامی اور شکست کے بعد ایک بار پھر حقیقی اسلامی اقدار کی توہین اور ہتک حرمت اپنائی جا رہی ہے۔ اس بار اسلام کے خلاف اس شدت پسندانہ رویے کی پیچھے عیسائی صہیونیست اور انجلسٹ افراد کا ہاتھ ہے جو امریکہ کے اندر تمام مسلمانوں کو امریکہ سے نکال باہر کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی بنیاد پر گذشتہ سال امریکہ میں مقیم ایک معروف یہودی اسلام شناس "اسٹنلے کورٹز” نے 19 ستمبر کو ہفتہ وار مجلے "اسٹنڈرڈ واشنگٹن” میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں امریکہ میں اسلام سے متعلق تحقیقاتی اداروں کی جانب سے انجام دی جانے والی تمام تحقیقات اور پیش کی جانے والی تمام پیشنھادات کو ناکارہ قرار دیا اور مشورہ دیا کہ اسلام اور اسلام کی معاشرتی اقدار کو براہ راست حملوں کا نشانہ بنایا جائے۔
تحریر: سعداللہ زارعی

متعلقہ مضامین

Back to top button