مقالہ جات

رسول اللہ (ص) کی شان میں گستاخی؛ سعودی عرب اور قطر کا کردار

saudia qatarقطر اور آل سعود کے درمیان "عالم اسلام اور عالم عرب کی قیادت” کے حوالے سے مسابقت ہورہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی قوم یا امت کی قیادت کے لئے اس امت کے مفادات کا تحفظ مطمع نظر ہونا چاہئے یا نہیں؟ اس وقت دنیا بھر میں امریکی ـ صہیونی سازش کے تحت توہین آمیز فلم کے حوالے سے ـ مظاہروں اور احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے؛ تو سعودیوں نے امریکیوں کو سفیر کی ہلاکت پر تعزیتی پیغام دیا ہے، فلم کی توہین آمیزی کا انکار کیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ قطر نے اس فلم میں سرمایہ کاری کی ہے!!

رپورٹ کے مطابق بلاد الحرمین پر مسلط آل سعود اور قطر پر مسلط آل ثانی خاندان علاقے میں کردار ادا کرنے کے لئے یکسان انداز سے مسابقت کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور ان کے مقاصد کافی حد تک مشترک نظر آرہے ہیں اور وہ شام میں اسلام کے مفادات کا نام لے کر نہتے مسلمانوں کا قتل عام کروا رہے ہیں لیکن اب جو اسلام پر سخت دن آیا ہے اور دشمنان اسلام نے اپنی صلیبی جنگ کو آگے بڑھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی پر مبنی فلم بنائی ہے اور امریکی پاگل پادری ٹیری جونز نے ڈنکے کی چوٹ اس فلم کی تیاری کی ذمہ داری قبول کرکے ڈیڑھ ارب انسانوں کی دلآزاری کا ساماں کیا ہے اور مسلمانان عالم نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور شمالی افریقہ میں اب تک کم از کم تین امریکی سفارتخانے ٹیری جونز کی قرآن سوزی اور توہین رسالت کی آگ میں جل کر راکھ ہوچکے ہیں، اور درجنوں مسلمان سفارتخانوں میں مقیم امریکی میرینز کی فائرنگ سے شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں اور کئی اسلامی ممالک نے اس فنی دہشت گردی کی مذمت کی ہے، دنیائے اسلام کی قیادت کے دعویدار سعودی اور آل ثانی خاندانوں کا کردار بالکل مشکوک ہے۔ دیکھئے:
حال ہی میں "مسلمانوں کی نجات کے لئے” امریکہ کو شام پر حملہ کرنے اور اس حملے کے تمامتر اخراجات برداشت کرنے کا وعدہ کرنے والے آل سعود خاندان نے توہین رسالت کی طرف اشارہ کئے بغیر، لیبیا میں امریکی سفیر کے "مشکوک قتل” پر امریکہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
آل سعود کی حکومت نے توہین آمیز فلم پر لیبیا اور مصر کے عوام کی طرف سے امریکی مفادات پر حملوں کی "شدید مذمت” کرتے ہوئے لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملے کے سلسلے میں امریکی حکومت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
ادھر آل سعود سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا ہے کہ "امریکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی توہین نہيں ہوئی!”۔
ایسے حال میں کہ امریکہ میں بننے والی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین پر مبنی فلم کو دنیا کے مسلمانوں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا ہے اور حتی کہ عیسائیوں اور بعض غیر صہیونی یہودیوں نے اس کی مذمت کی ہے آل سعود سے وابستہ ذرا‏ئع ابلاغ نے ایک مفصل رپورٹ کے توسط سے ایسی کسی فلم کی تیاری کا سرے سے انکار کردیا ہے!!
آل سعود کے العربیہ نیٹ ورک سے وابستہ ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ بعنوان "حیرت انگیز خبر … توہین آمیز فلم سرے سے موجود ہی نہیں” میں لکھا ہے: اس فلم کی تشہیر کی مدت انٹرنیٹ پر 15 منٹ سے بھی کم ہے جس میں اداکاری کا کردار غیر معیاری اور بالکل غیرماہرانہ ہے … اس فلم کا اتنا ہی حصہ اب تک منظر عام پر آیا ہے جو مختلف ٹکڑوں پر مشتمل ہے اور اس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے متصل اور متعلق نہیں ہیں۔ یہ فلم جو امریکہ میں بنی ہے امریکہ ہی میں انجانی ہے اور جب اس کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور اس میں ملوث عناصر کے قصاص کا مطالبہ کیا گیا تو یہ فلم موجودہ شہرت تک پہنچی۔
سوال: العربیہ نے یوٹیوب پر بعض ٹکڑوں کے نشر ہونے کی تصدیق کی ہے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ان غیرمتعلقہ ٹکڑوں میں رسول اللہ (ص) کی توہین ہوئی ہے یا نہیں؟
نکتہ: العربیہ کے کہنے کے مطابق اگر مسلمان اپنے مقدسات کی توہین پر احتجاج نہ کرتے تو یہ فلم مشہور نہ ہوتی!
العربیہ نے الوطن کے حوالے سے لکھا: امریکی ذرائع نے فلم کا سراغ لگانے کی کوشش کی تو انہیں جھوٹ اور بے بنیاد دعوؤں کا سامنا کرنا پڑا اور یوں فلم کا وجود ہی متنازعہ بن گئی!
العربیہ نے لکھا: سام باسیل نامی شخص کہیں بھی موجود نہیں ہے اور یہ بات اب امریکیوں کے لئے معما بن گئی ہے۔
نکتہ: امریکیوں نے خود کہا ہے کہ سام باسیل کو ڈھونڈتے ہوئے ان کو ناکول باسیلی ناکول نامی شخص کا سامنا کرنا پڑا جو مصری قبطی عیسائی ہے اور اس نے اس فلم میں اداکار کی حیثیت سے کام بھی کیا ہے اور آج ہی (14 ستمبر 2012 کو) اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے کام سے پشیمان نہیں ہے بلکہ وہ پوری فلم ریلیز کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
سعودیوں نے امریکہ اور صہیونی ریاست کو اس فلم میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ: باسیلی کی تلاش میں ہی ایک اور شخص سامنے آیا جس نے پروڈیوسر کے مشیر کے طور اپنا تعارف کرایا اور اس نے کہا کہ باسیلی اسرائیلی نہیں ہے حالانکہ سام باسیل کے نام سے انٹرویو دینے والے شخص نے کہا تھا کہ وہ 56 سالہ امریکی ـ اسرائیلی ہے۔ یہ شخص انتہا پسند انجیلی عیسائی ہے اور مسلمانوں اور کیتھولک عیسائیوں کے خلاف سرگرم عمل رہا ہے۔ اس شخص کا نام "اسٹیون کلین” ہے۔ اسٹیون نے ایک انٹرویو میں کہا کہ "باسیلی امریکہ میں پناہ گزین بعض عرب عیسائیوں کا جعلی نام ہے؛ یہ عیسائی عرب اس سے قبل (حسنی مبارک کے زمانے میں) مصر میں ہی سرگرم تھے اور انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اسلام کے خلاف فلم بنائیں گے اور جس شخص نے اپنا تعارف سام باسیل کے عنوان سے کرایا ہے وہ درحقیقت ایک قبطی عیسائی ہے جو ڈر کے مارے منظر عام سے ہٹ کر کہیں چھپ گیا ہے۔
نکتہ: العربیہ کے اس اقتباس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ فلم کا وجود ہے جس بات پر العربیہ نے اختلاف کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ فلم امریکیوں اور اسرائیلیوں نے نہيں بنائی لیکن ساتھ اس بات کا اعتراف بھی ہوا ہے کہ اسٹیون ایک انجیلی عیسائی ہے جس کو مسلمانوں اور عیسائیوں کی زبان میں "عیسائی صہیونی” کہا جاتا ہے چنانچہ صہیونی ہم صرف یہودیوں کو ہی نہيں کہتے بلکہ وہ عیسائی جو مسجد الاقصی کی شہادت کے لئے کوشاں ہیں اور اسرائیلیوں کے شانہ بشانہ مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں وہ بھی صہیونی ہیں اور پھر یہ فلم امریکہ میں بنی ہے تو سوال یہ ہے کہ امریکہ جہاں عام امریکیوں کی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی ہورہی ہے، اس فلم کے مختلف مراحل سے کیا بے خبر تھا؟ باسیلی نے کہا ہے کہ 100 صہیونیوں نے اس کو پچاس لاکھ ڈالر چندہ دیا تھا۔ کیا یہی یہ باور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ یہ فلم امریکہ اور صہیونیوں کی حمایت اور اطلاع سے بنی ہے؟ کیا العربیہ کو اس سادہ سی بات کا ادراک ممکن نہيں ہے یا ہر قیمت پر اسرائیل اور امریکہ کی صفائی دینا چاہتی ہے؟
دریں اثناء امریکی حکومت نے اس فلم کی موجودگی اور اس میں اپنی انتظامیہ کے ملوث ہونے یا کم از کم مطلع ہونے کی تردید نہیں کی اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت بیان کی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور کسی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس موضوع پر فلم بنائے!!!
توہین آمیز فلم کا مالی سرپرست؟
سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کی مانند قطر کی حکومت نے ابھی تک عوام کو اس فلم کے خلاف کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں دی ہے اور عالم اسلام کی قیادت و پیشوائی کے خواب دیکھنے والے اس "چھوٹی سی ریاست” کے حکمرانوں نے بظاہر ایک نہایت مختصر سے بیان میں اس فلم مذمت کی ہے لیکن براثا نامی نیوز ویب بیس نے ایک تصویر شائع کرکے کہا ہے کہ قطر کی آل ثانی حکومت نے اس فلم کی تیاری میں باقاعدہ کردار ادا کیا اور اس کو مالی امداد فراہم کی ہے۔
براثا نے معتبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین پر مبنی فلم قطر کے ایک مالی ادارے "النور القابضہ” کی مالی امداد سے تیار ہوئی ہے۔
براثا نے نے لکھا ہے کہ اسی اثناء میں انٹرنیٹ پر سماجی ویب سائٹس کے بعض صارفین نے ایک تصویر شائع کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ فلم مذکورہ بالا قطری ادارے کی مدد سے بنی ہے۔ اس تصویر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی پر مبنی فلم کے پروڈیوسر بیری اسبورن (Barrie M. Osborne) کو قطر کے مفتی جناب شیخ یوسف القرضاوی اور النورالقابضہ کے نمائندے کو ساتھ دکھایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ بیری اوسبورن لارڈ آف دی رنگ نامی فلم کا ڈائریکٹر ہے اور اس نے 2009 میں کہا تھا کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور عیسی (علیہ السلام) کے بارے میں بھی فلم بنائے گا۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ چونکہ توہین آمیز فلم بنانے کا دعویدار ناکول باسیلی ناکول فلم بنانے کی صلاحیت سے بالکل محروم ہے چنانچہ ممکن ہے کہ اوسبورن نے بالواسطہ طور پر اس کو فلم بنانے میں مدد فراہم کی ہو گو کہ اس بارے میں کوئی دقیق اور ناقابل انکار ثبوت ابھی تک سامنے نہيں آسکا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button