مقالہ جات

عید مباهلہّ؛ جشن توحید – نبوت، امامت و ولایت مبارک

mubaihla” انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا "
بسم الله الرحمن الرحیم
” انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا "
جشن توحید – نبوت و امامت
گھر سے مباہلے کے لیے پنجتن (ع) چلے
کچھ پھول تھے جو بن کے وقار چمن چلے
اس قافلے کی جیت پہ کیوں نہ یقین ہو
جس کارواں کی پشت پہ خیبر شکن (ع) چلے
٭٭٭
عید مباہلہ
مباہلہ حق و صداقت کے فیصلے کا واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
عبدالرحمان بن کثير نے جعفر بن محمد (ع)، ان کے والد بزرگوار کے واسطے سے امام حسن (ع) سے نقل کيا ہے کہ مباہلہ کے موقع پر آيت نازل ہونے کے بعد رسول اکرم (ص) نے نفس کى جگہ ميرے والد کو ليا، ابنائنا ميں مجھے اور میرے بھائي کو ليا، نساءنا ميں ميرى والدہ فاطمہ (ع) کو ليا اور اس کے علاوہ کائنات ميں کسى کو ان الفاظ کا مصداق نہيں قرار ديا لہذا ہميں ان کےا اہلبيت (ع) گوشت و پوست اور خون و نفس ہيں، ہم ان سے ہيں اور وہ ہم سے ہيں۔
(امالى شیخ طوسى 564 / 1174، ينابيع المودة)
زمخشرى کا بيان ہے کہ جب رسول اکرم (ص) نے انہيں مباہلہ کى دعوت دى تو انھوں نے اپنے دانشور عاقب سے مشورہ کيا کہ آپ کا خيال کيا ہے؟
اس نے کہا کہ تم لوگوں کو معلوم ہے کہ محمد اللہ کے رسول (ص) ہيں اور آپ (ص) نے حضرت مسيح (ع) کے بارے ميں قول فيصل سنا ديا ہے اور خدا گواہ ہے کہ جب بھى کسى قوم نے کسى نبى بر حق سے مباہلہ کيا ہے تو نہ بوڑھے باقى رہ سکے ہيں اور نہ بچے پنپ سکے ہيں اور تمہارے لئے بھى ہلاکت کا خطرہ يقينى ہے، لہذا مناسب ہے کہ مصالحت کرلو اور اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ۔
دوسرے دن جب وہ لوگ رسول اکرم(ص) کے پاس آئے تو آپ اس شان سے نکل چکے تھے کہ حسين (ع) کو گود ميں لئے تھے، حسن (ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے فاطمہ (س) آپ کے پيچھے چل رہى تھيں اور على (ع) ان کے پيچھےـ اور آپ فرما رہے تھے کہ ديکھو جب ميں دعا کروں تو تم سب آمين کہنا۔
اسقف نجران نے يہ منظر ديکھ کر کہا کہ خدا کى قسم ميں ايسے چہرے ديکھ رہا ہوں کہ اگر خدا پہاڑ کو اس کى جگہ سے ہٹانا چاہے تو ان کے کہنے سے ہٹا سکتا ہے، خبردار مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور روئے زمين پر کوئي ايک عيسائي باقى نہ رہ جائے گا_
چنانچہ ان لوگوں نے کہا يا ابا القاسم ہمارى رائے يہ ہے کہ ہم مباہلہ نہ کريں اور آپ اپنے دين پر رہيں اور ہم اپنے دين پر رہيں؟ آپ نے فرمايا کہ اگر مباہلہ نہيں چاہتے ہو تو اسلام قبول کرلو تا کہ مسلمانوں کے تمام حقوق و فرائض ميں شريک ہوجاؤ۔
ان لوگوں نے کہا يہ تو نہيں ہوسکتا ہے۔
فرمايا: پھر جنگ کے لئے تيار ہوجاؤ۔
کہا: اس کى بھى طاقت نہيں ہے، البتہ اس بات پر صلح کرسکتے ہيں کہ آپ نہ جنگ کريں نہ ہميں خوفزدہ کريں، نہ دين سے الگ کريں، ہم ہر سال آپ کو دو ہزار حلّے ديتے رہيں گے، ايک ہزار صفر کے مہينے ميں اور ايک ہزار رجب کے مہينے ميں اور تيس عدد آہنى زرہيں چنانچہ آپ نے اس شرط سے صلح کرلى اور فرمايا کہ ہلاکت اس قوم پر منڈ لارہى تھي، اگر انھوں نے ملاعنت ميں حصہ لے ليا ہوتا تو سب کے سب بندر اور سور کى شکل ميں مسخ ہوجاتے اور پورى وادى آگ سے بھر جاتى اور اللہ اہل نجران کو جڑ سے اکھاڑ کر پھينک ديتا اور درختوں پر پرندے تک نہ رہ جاتے اور ايک سال کے اندر سارے عيسائي تباہ ہوجاتے۔
اس کے بعد زمخشرى نے يہ تبصرہ کيا ہے کہ آيت شريف ميں ابناء و نساء کو نفس پر مقدم کيا گيا ہے تا کہ ان کى عظيم منزلت اور بلندترين مرتبت کى وضاحت کردى جائے اور يہ بتا ديا جائے کہ يہ سب نفس پر بھى مقدم ہيں اور ان پر نفس بھى قربان کيا جاسکتا ہے اور اس سے بالاتر اصحاب کساء کى کوئي دوسرى فضيلت نہيں ہوسکتى ہے۔
(تفسير کشاف 1 ص 193 ، تفسير طبرى 3 ص 299 ، تفسير فخر الدين رازى ص8 ص 88 ، ارشاد 1 ص 166 ، مجمع البيان 2 ص 762 ، تفسير قمى 1 ص 104)
واضح رہے کہ فخر رازى نے اس روايت کے بارے ميں لکھا ہے کہ اس کى صحت پر تقريباً تمام اہل تفسير و حديث کا اتفاق و اجماع ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button