مقالہ جات

اسلام اور سیکولرازم

islam-secularismاسلام اور سیکولرازم آج کی دنیا کے دو اہم ترین نظریات ہیں اور بنیادی طور پر آج ان ہی کی بنیاد پر دنیا دو گروہوں میں منقسم ہے ۔ ان میں سے ایک یعنی اسلام الہامی نظریہ ہے جبکہ دوسرا یعنی سیکولرازم انسانوں کا پیش کردہ نظریہ ہے ۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ تخلیق انسانی سے لیکر آج تک کبھی بھی الہامی نظریئے میں کسی قسم کا ردّ و بدل نہيں ہوا، وہ قطعی ہے تصوّر توحید و ملائکہ ، عقیدۂ رسالت و آخرت ، ایمان باالقدر اور اخلاقیات آدم(ع) سے لیکر آج تک اور آج سے قیامت تک کے لئے یکساں اور غیر متغیّر ہیں جبکہ دوسری طرف اسی عرصے میں ہزاروں انسانی نظریات  وجود میں آئے۔ پہلے پہل افراد امر معاشروں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا مگر کچھ ہی عرصے بعد خود انسانوں نے نہ صرف ان نظریات کی تکذیب کی بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انسان نے ان کی تضحیک بھی کرڈالی۔ علم فلکیات میں سورج کے سکون کا نظریہ، علم حیوانات میں جاندار اشیاء کے بے جان سے وجود کا نظریہ ، علم کیمیا میں دھاتوں کی تعداد کا نظریہ، علم ارضیات میں زلزلے کی وجوہات کا نظریہ و غیرہ و غیرہ اسکی روشن مثالیں ہیں اور اگر نظام ہائے حیات کے حوالے سے دیکھا جائے تو ماضی قریب میں فاشزم ، کمیونزم، سوشلزم اسکی مثالیں ہیں کہ کبھی تو یہ نظریات چھاگئے مگر چند سال بعد یہ انسانیت کے لئے مہلک ثابت ہونے کی بنا پر رد کردیئے گئے ۔ خلاصۂ بحث یہ ہے کہ الہامی نظریات قطعی ہوتے ہیں اور کوئی بھی انسانی نظریہ قطعی نہیں ہوسکتا ۔
انگریزی لفظ سیکولر در اصل لاطینی زبان کے لفظ ” سیکولم” سے مشتق ہے جسکا مطلب ہے "دور حاضر” اردو میں عموما” اسکا ترجمہ ” لادینیت ” کیا جاتا ہے ۔سیکولر نظریہ کے حامل افراد کی طرف سے اس ترجمہ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ سیکولرازم مذہب کی نفی نہیں کرتا۔ یہ تو صرف روزمرّہ زندگی اور اجتماعی معاملات میں مذہب کی مداخلت کے خلاف ہے اس لئے لوگ سیکولرازم کا ترجمہ ” لادینیت” کے بجائے ” دنیویت ” کرتے ہیں۔ اگر ذرا سا گہرائی میں جائیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہ خود اسکو لادینیت قرار دے رہے ہیں۔ دین کا مطلب ہے طرز زندگی۔ اگر یہ کسی مذہب کی بنیاد پر ہے تو یہ اس مذہب کا دین ہے جیسے اسلامی طرز زندگی کا مطلب دین اسلام ہے اور اگر یہ طرز زندگی کسی بھی مذہب کی راہنمائی کے بغیر چل رہا ہے تو یہ لادینی نظام یا لادینیت ہے ۔
سیکولرازم کا تاریخی پس منظر اس اصطلاح کی تفہیم میں مزيد معاون ثابت ہوتا ہے ۔ اس نظریئے کا بانی جارج جیکب ہولی اوک کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سنہ 1817 میں برمنگھم(برطانیہ ) میں پیدا ہوا تھا ۔ یہ دور کلیسا کی حکمرانی کا دور تھا ۔ یہ دور تاریخ کے ان اوراق سے متعلق ہے جب کلیسا نے مذہب کے نام پر لوگوں پر استبداد کیا حالانکہ حضرت عیسی (ع) اللہ کے نبی تھے انہوں نے عبادت الہی کا درس دیا تھا اور مؤاخذۂ آخرت کا احساس دلایا تھا مگر کلیسا اور اسکے اہلیاں نے حضرت عیسی (ع) کی تعلیمات میں تحریف کے ذریعے کلیسائی اسٹیبلشمنٹ قائم کردی اور عوام و خواص سب کو اسکے شکنجے میں جکڑ دیا ۔
لفظ دین کا مطلب اللہ کی عبادت تھا مگر جب کلیسا نے عبادت الہی کے بجائے عبادت انسان سکھانی شروع کی تو یہ فطرت کے خلاف بغاوت تھی اور اسکا نتیجہ تباہی کی صورت میں ظاہر ہونا ہی تھا ۔ ایک طرف اہل کلیسا خود مذہب کے ٹھیکے دار بن گئے اور حضرت عیسی (ع) کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا ۔ کروڑوں افراد نے اس نظریئے کو قبول کرلیا مگر یہ خلاف فطرت تھا اس لئے ایک معین عرصہ بعد اسکے خلاف ردّعمل ظاہر ہوا ۔ دوسری طرف کلیسا نے علم کی حقیقت کو اپنی اجارہ داری قرار دیکر انسانی عقل کے استعمال کے دروازے بند کردیئے ۔ یہ وقت تھا جب کلیسا کی اس بڑھتی ہوئی اجارہ داری کے خلاف بغاوت کا ظہور ہوا اور مذہب کے خلاف اس بغاوت کو سیکولرازم کا نام دیا گيا ۔ سیکولرازم کے علمبرداروں نے مذہب کو نظام زندگي سے الگ کرکے آزادی کے اصول کی بنیاد ایک نظام زندگي ترتیب دیا ۔انہوں نے جہاں مذہب کو ایک طرف رکھ کر علم کی حقیقت کی تلاش شروع کردی اور کسی بھی غیر مرئی قوت کے وجود کو ماننے سے انکار کردیا وہیں انہوں نے کلیسا کی مخالفت میں یہ نظریہ بھی قائم کیا کہ ارتقاء کے باعث عقل انسانی اسقدر مکمل اور ترقی یافتہ ہوچکی ہے کہ جسطرح وہ قوانین فطرت سے واقف ہوگئی ہے یوں ہی اپنی ذات سے متعلق اسے کسی قسم کی الہامی ہدایات کی ضرورت قطعا” نہیں رہی ان کی اس سوچ نے مذہب کا رابطہ انکے نظام زندگی سے مکمل طور پر ختم کردیا۔
اسطرح مغرب کی وضع کردہ اصطلاح سیکولرازم کا مطلب ہوا مذہب کو کلّی طور پر مسترد کرتے ہوئے آزادی کے اصول کی بنیاد پر نظام حیات مرتب کرنا۔انکے ہاں فرد آزاد ہے ، قوم آزاد ہے پارلیمنٹ آزاد ہے ۔ آزادی کا یہ اصول ایسا ہے کہ اس سے بالا کچھ نہیں ، اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ۔ یہی مادر پدر آزادی آج مغرب والوں کا مذہب ہے اور یہ کلیسا و اسکی ہدایات سے برتر ہے جسکی روشن مثال یہ ہے کہ 17 ممالک میں ہم جنس شادیوں کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے ۔ یہ آزادی کا آئینہ دار تو ہے لیکن مذہب سے اسکا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے سیکولرازم کے اس تاریخی پس منظر نے اس حقیقت کو بے نقاب کیا کہ اس سے مراد انفرادی زندگي اور اجتماعی معاملات میں مذہب کی عدم مداخلت ہے ۔
سیکولرازم کے پیروکاروں کے نزدیک مذہب کی قدر و قیمت کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دور میں کلیسا کی حکومتوں اور عوام دونوں پر حکمرانی تھی مگر سیکولرازم کے ظہور کے بعد یورپ و امریکہ میں سیکولرازم کو اپنالیا گیا اور مذہب کو ویٹی کن سٹی میں محبوس کردیا گيا ۔ سیکولر ریاستوں کے جغرافیئے دن بدن وسیع ہوتے چلے گئے اور مذہبی ریاست یعنی ویٹی کن سٹی آج دنیا کی سب سے چھوٹی ریاست کا درجہ پاگئی جسکا رقبہ 17 مربع میل ہے ۔ سیکولرازم کے علمبرداروں نے صرف مذہب سے بغاوت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک ہاتھ مزید آگے بڑھ کر ارتقاء کا نظریہ پیش کردیا ، جس کی رو سے انسان کا نقطۂ آغاز انسان نہیں تھا بلکہ اس کی اصل جانور ہے ۔ اسی نظریئے پر انہوں نے اپنی علمی ڈھانچے کی بنیاد رکھی ۔ اگر اس نظریئے کی بنیادوں پر غور کیا جائے تو یہ خودبخود مردود قرار پاتا ہے ۔اوّلا” یہ کہ جن حقائق پر اس نظریئے کا دارو مدار ہے وہ ہنوز نامعلوم ہیں ۔ سائنسدان آج بھی نباتاتی ارتقاء کے وقوع پذیر ہونے کی اصل تراکیب کے لئے سرگرداں ہیں اور یہ منطق کا اصول ہے کہ اشیاء کو نامعلوم حقائق کی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جا سکتا وہ صرف معلوم حقائق کی بنیاد پر ہی ثابت کی جا سکتی ہیں ۔ثانیا”یہ کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انسان کی موجودہ شکل و صورت اور کیفیت ارتقاء کا نتیجہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ارتقاء کے عمل کو جاری رہنے سے کس نے روک دیا ؟ مزید تبدیلیاں کیوں نہیں ہورہی؟ زمانۂ قدیم سے انسان نے خود کو ایسا ہی انسان پایا ہے جیسا وہ آج ہے وہی دو ٹانگیں ، دو ہاتھ، دو آنکھیں ۔ ایک ناک و منہ و غیرہ ۔ اگر یہ صورت ارتقاء کا مظہر ہے تو پھر لازما” مزيد تبدیلیاں بھی ہونی چاہیں جو کہ نہیں ہورہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس نظریئے کی کوئی علمی و عقلی بنیاد نہیں ۔
سیکولرازم کے دیئے ہوئے اس نظریئے کی بدولت انسان خود کو جانوروں کی ایک قسم سمجھ کر ان جیسے افعال کا مرتکب ہوتا ہے ۔کبھی لباس سے عاری، کبھی اخلاقیات سے بے بہرہ ، کبھی خواہش نفس کا پیروکار تو کبھی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں ۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے یہ فرد کے انفرادی و اجتماعی ہر دو معاملات میں شامل ہوتا ہے ۔ اسکی بنیاد محکم عقائد جو کہ ناقابل تغییر واقع ہوئے ہیں اور انسانی فلاح کے منشور پر مبنی نظام عبادات و اخلاقیات پر رکھی گئی ہے ۔ اسلام کا مطلوب انسان کو تمام زنجیروں کے شکنجے سے نکال کر، سب خودساختہ خداؤں کی خدائی کو مسترد کرکے ایک رب کے آگے جھکانا ہے ۔ با الفاظ دیگر اسلام حقیقی آزادی کا دوسرا نام ہے ، فکر و اظہار کی آزادی ، عزم و عمل کی آزادی ۔ جبکہ دوسری طرف سیکولرازم ایک ایسا نظام زندگی ہے جو مذہب سے مربوط نہیں ۔اس نظریئے نے روزمرّہ کی زندگي کے معاملات میں ہدایت الہی کی ضرورت کو رد کردیا ہے اسکے مطابق انسان ارتقاء کے عمل کے نتیجے میں عقل و شعور اور فہم و ادراک کے اس مرتبے پر پہنچ چکا ہے کہ اب وہ خود کو کسی غیر مرئی قوت کے حوالے کئے بغیر اپنی دنیا کے معاملات چلا سکتا ہے یعنی ایک سیکولر فرد کےلئے اسکی مرضی اسکا طرز حیات ہے اسکی عقل و دانش اسکی راہنما ہے ۔
ایک ممکنہ سوال ؟؟؟
آج کا جدت پسند طبقہ اسلام اور سیکولرازم کو ایک قرار دینے پر تلا ہوا ہے ۔ مندرجہ بالا تحریر سے سیکولرازم کا مفہوم تو واضح ہو ہی چکا ہے اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرازم کا ایک ہونا تو کجا وہ تو ایک دوسرے کی متضاد بنیادوں پر استوار ہیں ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سیکولرازم کلیسا کے خلاف بغاوت کا نام ہے اور اسلام میں کوئی کلیسا ہے ہی نہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ۔
” و رھبانیۃ، ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم "
اور حدیث رسول (ص) ہے :” لارھبانیۃ فی الاسلام”
اور جب آیت ” اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ "
کا نزول ہوا تو عدی بن حاتم نے اس پر اعتراض کیا کہ ہم تو ایسا نہیں کرتے تھے مگر حضور(ص) کے توجہ دلانے پر انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ہم اپنے علماء کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام مانتے تھے آپ (ص) نے فرمایا کہ تمہارے اسی فعل کو قرآن نے رب ماننے سے تعبیر کیا ہے مگر تاریخ اسلام میں ہزاروں خامیوں کوتاہیوں کے باوجود آج تک کسی نے کلیسا کی طرح حلال و حرام کو متعین کرنے کی جسارت نہیں کی تو پھر اسلام کے ماننے والوں کو سیکولرازم کی ضرورت کہاں ؟ اسلام میں قطعا” اس چیز کی گنجائش نہیں کہ کوئی مخصوص طبقہ مذہب کا اجارہ دار بن جائے ۔قرون اولی میں سب لوگ براہ راست قرآن و سنت سے راہنمائي لیتے تھے اور آج بھی بنیادی اصول یہی ہے کہ جسطرح ہر فرد کےلئے اگرچہ ڈاکٹر بننا ضروری نہیں لیکن صحت کے بنیادی اصولوں سے واقفیت ضروری ہے اسی طرح ہر فرد کے لئے شریعت میں مہارت تامّہ حاصل کرنا تو ضروری نہیں لیکن بنیادی زندگي سے متعلق انکی تعلیمات سے آگاہی ضروری ہے ۔یوں اسلام نے مذہبی اجارہ داری کاخاتمہ کردیا ۔
کلیسا نے خود کو رب اور بندے کے درمیان لازمی وسیلہ قراردیا اسکے برعکس اسلام نے ” و اذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان "
کا پیغام دیکر انسانی تکریم کو چار چاند لگادیئے ۔ حضور (ص) نے اپنی بیٹی کو خود اپنی نجات کا سامان کرنے کو کہا اور انکی نجات کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔اس میں بھی دراصل انسانی تکریم کا یہ پہلو غالب ہے کہ ہر فرد کا معاملہ اسکے رب کے ساتھ ہوگا۔ کلیسا نے عیسی (ع) کے مصلوب ہونے کی کہانی اختراع کرکے ہر شخص کے لئے گناہوں کے ارتکاب کے دروازے کھول دیئے جبکہ اسلام نے لاتزدوا ذرۃ و زد اخری کا سنہری اصول دیکر ہر فرد کو اپنے اعمال کی جزا و سزا کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اس میں انصاف کو اسقدر ملحوظ رکھا کہ ” تبت یدا ابی لھب و تب” کہہ کر قرابتداری کے لحاظ کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا۔
کلیسا نے پہلے عورت کی مذمت کی ، اسکو برائی کا سرچشمہ قرار دیا اور پھر اسکو یہ باور کرادیا کہ مقام عزت پانے کے لئے تمہیں مرد کے شانہ بشانہ آنا پڑے گا اور جب عورت مردوالے کام کرتی بھی ہے تو حقیقت میں برتری اسکی نہیں مرد کی ثابت ہوتی ہے مگر اسلام نے مرد و عورت کے لئے فرائض کا تعین کرنے کے بعد دونوں کو یکساں جزا و سزا کے وعدے دیئے ، جنس کی بنیاد پر دونوں کے مقام میں کوئی تضاد نہیں رکھا ۔
کلیسا کی مندرجہ بالا خامیوں کا نتیجہ سیکولرازم تھا اور اسلام میں تو یہ خامیاں ہیں ہی نہیں سیکولرازم کی گنجائش کہاں ؟
آج کے سیکولر طبقے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی مغرب والوں سے لے رہے ہیں تو اسکا طریقۂ استعمال کیوں نہیں ؟ اس میں کیا قباحت ہے ؟ اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم ان سے ٹیکنالوجی تولے سکتے ہیں مگر نظام زندگی نہیں دوسرا یہ کہ انہوں نے بھی جدید علوم ہم سے لئے تھے کیا انہوں نے ہمارا نظام زندگی بھی قبول کیا تھا ؟
مندرجہ بالا حقائق سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اوّلا” سیکولرازم مغرب سے درآمد شدہ اصطلاح ہے ہمیں اسکی قطعا” ضرورت نہیں دوسرا یہ کہ تاریخ اسلام میں کبھی بھی ایسے حالات پیدا ہی نہیں ہوئے کہ ہمیں بھی کلیسا کے استبداد کے متاثرین کی طرح مذہب کے خلاف بغاوت اور سیکولرازم کی ضرورت پڑتی ۔
اسلام اور سیکولرازم دو متضاد نظام ہائے حیات ہیں ۔
ادارے کا مقالہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔
از قلم: حنیفہ بی بی ۔ پاکستان

متعلقہ مضامین

Back to top button