علامہ شہنشاہ نقوی کی شائستگی نے نفرت انگیزی کو شکست دی
ارشاد بھٹی کے اشتعال انگیز سوالات، سوشل میڈیا پر تحمل مزاجی کی داد

شیعیت نیوز : معروف عالم دین اور خطیب اہل بیتؑ علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی کا ایک پوڈکاسٹ انٹرویو آج کل سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ جہاں چند افراد ان کے جوابات پر تنقید کر رہے ہیں، وہیں اکثریت، بشمول اہل سنت سوشل میڈیا صارفین، ان کی حاضر جوابی اور تحمل مزاجی کی تعریف کرتے نظر آ رہے ہیں۔
چند روز قبل پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے اپنے نجی یوٹیوب چینل کے لیے علامہ شہنشاہ حسین نقوی کے ساتھ ایک پوڈکاسٹ کیا، جس میں سوالات کی اکثریت فرقہ وارانہ منافرت اور اشتعال انگیزی پر مبنی تھی۔ بیشتر سوالات مناظرانہ انداز کے تھے۔
بعض سوالات تو ایسے تھے کہ اگر علامہ شہنشاہ نقوی کی جگہ کوئی دوسرے مسلک کا عالم یا مفتی ہوتا تو منٹوں میں آگ بگولا ہو جاتا اور پروگرام بغیر کسی نتیجے کے ہی ختم ہو جاتا۔
فاروق نقشبندی نامی ایک اہل سنت سوشل میڈیا صارف، جن کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ سے ہے، نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا کہ:
"کیا شیعہ علما کو غصہ نہیں آتا؟ کتنا کنٹرول ہے ان لوگوں کو اپنے نفس پہ۔ میں تو ڈپریشن میں چلا گیا ہوں ان کے اخلاق اور تہذیب کو دیکھ کر۔”
انہوں نے مزید لکھا:
"سوشل میڈیا نے ہمیں ان سے تعارف کرایا ہے، ورنہ میرے والد صاحب تو کہتے تھے کہ شیعہ کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا حرام ہے۔ ہمارے پاس مولانا طارق جمیل صاحب اور ڈاکٹر طاہر القادری ہی اس شائستگی اور محبت کے عالم رہ گئے ہیں، لیکن ہم نے دونوں کو متنازع بنا دیا۔”
یہ بھی پڑھیں : امام خمینیؒ، ایران، حزب اللہ برسوں سے برسرِ پیکار، مفتیانِ پاکستان کو اب جہاد یاد آیا؟، علامہ صادق رضا تقوی
ایک شیعہ صارف نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ علامہ شہنشاہ نقوی کو بخوبی شعور تھا کہ ان کے کاندھوں پر مکتبِ اہل بیتؑ کی ترجمانی کی بھاری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی قوم بلکہ اس ملک میں بسنے والے دیگر مکاتبِ فکر کے افراد کو بھی دعوتِ فکر دی۔
ایسے افراد جو شعلہ بیانی، جھگڑالو انداز، دوسروں کی توہین اور خودنمائی کرتے ہیں، درحقیقت اپنے باطن کے عزائم اور پسِ پردہ موجود قوتوں کی عکاسی کرتے ہیں، جو ان سے کام لے رہی ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس، وہ لوگ جن کی زبان شائستہ، رویے پاکیزہ، اور طرزِ عمل مہذب ہو، وہ اپنی ذات نہیں بلکہ اپنے مکتب اور قوم کی عزت کو دنیا کے سامنے رکھتے ہیں۔ وہ خاموشی میں بھی بولتے ہیں، اور ان کی سادگی میں بھی ایک پیغام ہوتا ہے۔ جیسا کہ خود اہل بیتؑ کی نصیحت ہے:
"ہمارے لیے باعثِ زینت بنو، باعثِ ننگ و عار نہ بنو”۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ارشاد بھٹی ملکی رائج سیاست کا ایک تیز ترار اور چرب زبان صحافی ہے، جسے کرپٹ سیاستدانوں کو لتاڑنا آتا ہے۔ لیکن مذہبی، مسلکی اور فرقہ وارانہ موضوعات اس کا میدان نہیں۔
لہٰذا، 100 فیصد یقین ہے کہ وہ کسی سازشی اسائنمنٹ پر کام کر رہا ہے اور یہ تلخ سوالات کسی گھاگھ تکفیری ملا نے لکھ کر دیے ہیں۔ چونکہ ہم اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، اس لیے ایسے میڈیا ماحول میں بہت احتیاط سے بات کرنی پڑتی ہے۔ اپنے شیعہ مجمع میں امام بارگاہوں میں یہ سوالات مناظرانہ انداز میں پیش ہوتے ہیں، لیکن میڈیا پر ایسا ممکن نہیں۔
ورنہ پانچ منٹ میں پورے ملک میں آگ لگ سکتی تھی، جو کہ اس پروگرام کا بنیادی مقصد معلوم ہوتا ہے، تاکہ فلسطین جیسے مظلوم مسئلے سے توجہ ہٹا کر ایک غیر ضروری بحث میں امت کو الجھا دیا جائے۔