امام علیؑ کے آخری جملہ "فُزتُ و رب الکعبه” کی گہرائی اور اس کے پیچھے چھپے معنوی پیغامات
"الفضل ما شھدت بہ الاعداء": امام علیؑ کی فضیلت کا اعتراف دشمنوں کی زبانی

شیعیت نیوز: "الفضل ما شھدت بہ الاعداء” (اصل فضیلت وہ ہے جس کے قائل دشمن بھی ہوں) یہ جملہ ایک ضرب المثل کی مانند مشہور ہوا، جو کہ عمرو عاص کے اشعار کا ایک فقرہ تھا۔ اس شعر کی حکایت کچھ یوں ہے کہ ایک روز مصر سے کچھ لوگ معاویہ کے لیے ایک نفیس قالین لائے۔ معاویہ و عمرو عاص نے یہ شرط رکھی کہ جو کوئی علی بن ابی طالب کی فضیلت میں شعر کہے گا، اس کو یہ قالین ہدیہ میں ملے گا۔ پھر کیا تھا، دربار معاویہ کی باطل زبانیں بول اٹھیں اور ہر کسی نے امام علیؑ کے فضائل بیان کرنا شروع کر دیے۔ معاویہ نے اس محفل کی شروعات کی اور کہا:
خیرُ الوری مِن بعدِ اَحمدَ حیدر و الناس اَرضٌ و الوصی سماءٌ
’’یعنی بہترین انسان بعد خدا و رسول، علی بن ابی طالب ہیں۔ ان کی مثال تمام انسانوں میں ایسی ہی ہے جیسی آسمان کی تمام زمین کے لیے‘‘۔ یعنی یہ کہ زمین کی تمام تر رنگینی و رعنائی آسمان کی بدولت ہے۔ اگر آسمان سے آب رحمت نہ برسے تو زمین پژمردہ ہو جاتی ہے۔ پس اگر علی ان خاکی بندوں میں نہ ہوتے تو تمام بشریت مردہ متحرک کی مانند زندگی گزارتی۔
اس شعر کے جواب میں عمرو عاص نے شعر کہا:
هذا الذی شَهِدَ العدوُّ بِفضلِهِ والفضلُ ما شهدت بهِ الاعداءُ
یعنی علی وہ ہیں جس کی فضیلت ان کا سب سے بڑا دشمن (معاویہ) بھی اپنی زبان سے بیان کر رہا ہے، اور کمال افتخار یہ ہے کہ دشمن اس کی گواہی دے رہا ہے۔
ایسی ہستی کے فضائل بیان کرنا ایک محب کے لیے نہایت دشوار ہے جو ان کی محبت میں غوطہ زن ہو۔ ایسی ذات جس کی مدح اس کا دشمن بھی کر رہا ہو، اس کے فضائل کا احاطہ ممکن نہیں۔ ایسے حالات میں محب لاچار ہو کر بول اٹھتا ہے: موالی لا احصی ثنائکم (اے ہمارے آقا و سردار، ہم آپ کے فضائل کا احاطہ نہیں کر سکتے)۔
ایسی بافضیلت و با کمال ذات جس کے فضائل کی انتہا تک کسی کی رسائی نہیں، اس کی زبان سے نکلے ہوئے ہر ہر جملہ میں انسانی زندگی کے بہرہ مند رمز نہاں ہیں، جن کی اتباع انسان کو زمین پر رہتے ہوئے عرش کی سیر کرانے کی سکت رکھتی ہے۔ ایسے نایاب جملات میں سے ایک جملہ یہ بھی ہے جو امام علی نے اپنے آخری ایام میں فرمایا، جو تاریخی صفحات میں مرقوم ہے: فُزتُ و رب الکعبه (رب کعبہ کی قسم، علی کامیاب ہو گیا)۔
یہ بھی پڑھیں: حضرت علی علیہ السلام کی شہادت تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے، علامہ سید ساجد نقوی
اہل سنت و شیعہ تاریخ نگاروں نے اس جملہ کو اپنی اپنی کتابوں میں مرقوم کیا۔ جیسا کہ سید مرتضیٰ، ابن قتیبہ دینوری، ابن اثیر نے لکھا کہ جس وقت ابن ملجم مرادی نے لا حکم الا اللہ کا نعرہ لگا کر پیشانی علی پر ضربت لگائی، امام علی نے بے ساختہ کہا: فُزتُ و رب الکعبه۔
شہید مطہری فرماتے ہیں کہ امام علیؑ کے اس فقرہ کو ادا کرنے کے بعد شہادت تک یعنی مکمل دو روز نے سب کو بتا دیا کہ علی تمام انسانیت میں اکمل ذات ہیں، خصوصاً اس جملہ نے، کیونکہ شہادت شہید کے لیے کامیابی کی کلید ہے، نہ کہ شکست۔
آیۃ مکارم شیرازی فرماتے ہیں کہ یہ جملہ شاہد ہے کہ علیؑ کی ذات اس مادی دنیا سے ماوراء تھی اور اس دنیا سے علیؑ کو کوئی ربط نہ تھا۔ اسی لیے جیسے ہی زندگی کا وہ واحد پیوند جو علیؑ کی ذات اور لقائے الٰہی میں بقدرہ حائل تھا، جب ابن ملجم کی ضربت سے ٹوٹ گیا تو علیؑ نے بے ساختہ کہا: فُزتُ و رب الکعبه۔
بعد شب ضربت، امامؑ کے گھر میں چاہنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر کوئی امام کی عیادت کے لیے آتا اور امام اس سے کچھ وعظ و نصیحت فرماتے۔ انہیں چاہنے والوں میں سے ایک حبیب بن عمر بھی تھے۔ جب یہ امام کی عیادت کے لیے آئے تو اس وقت طبیب امام کے زخم کو کھول کر اسے صاف کر رہا تھا۔ حبیب نے امام کے زخم کے عمق کو دیکھا تو بولے: مولٰی، آپ پر یہ کیسی مصیبت ڈھائی ہے!! امام نے نحیف آواز میں فرمایا: پس چند لمحوں میں، میں تم لوگوں سے جدا ہو جاؤں گا۔ اتنا سننا تھا کہ پشت پردہ ام کلثوم کی گریہ کی آواز بلند ہو گئی۔ امام نے بیٹی کی آواز سنی تو فرمایا: بیٹی، گریہ نہ کرو۔ اگر تم وہ دیکھ رہی ہوتی جو میں دیکھ رہا ہوں تو گریہ نہ کرتیں۔ حبیب نے پوچھا: مولٰی، آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا: ملائکہ کی صفوں کو جو میرے استقبال میں منتظر ہیں اور رسول اکرم کو جو باہیں پھیلائے مجھے بلا رہے ہیں۔ پھر امام نے سورہ نحل کی آیت 128 کی تلاوت فرمائی: إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَهُمْ مُحْسِنُونَ (بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور احسان کرنے والے ہیں)۔
علیؑ نے اس آیت میں مذکور دو حقیقتوں پر زندگی گزاری اور آخر وقت اپنے چاہنے والوں کو یہ تلقین کی کہ وہ بھی ان اصولوں پر زندگی گزاریں۔