پاکستان میں میڈیا بحران: ریاست کے چار ستون کمزور ہو چکے ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
پیکا ایکٹ کے ذریعے میڈیا کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، عوام کے شعور سے خوفزدہ حکمران آزادی صحافت پر قدغنیں لگا رہے ہیں، علامہ ناصرعلامہ راجہ ناصر عباس جعفری

شیعیت نیوز : پاکستان یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام پیکا ایکٹ کے خلاف منعقدہ سیمینار "Media Crises In Pakistan” سے سربراہ مجلس وحدت مسلمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور میڈیا ریاست کے چار بنیادی ستون ہیں، آئین کے اندر ان کی خودمختاری اور استقلال لکھا گیا ہے۔ اگر یہ تین یا چار ستون مستقل نہیں ہوں گے تو ریاست کا سسٹم نہیں چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت مقننہ کا ستون ڈھے چکا ہوا ہے۔ یہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ نہیں ہے بلکہ ایک مقبوضہ پارلیمنٹ ہے، جس میں سے لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے، رات کو اغوا کیا جاتا ہے، اور آج تک پتہ نہیں چلتا کہ انہیں کس نے اٹھایا ہے۔ اس مقبوضہ پارلیمنٹ میں لوگوں کو خوف زدہ کرکے ووٹ لیے جاتے ہیں، انہیں خریدا جاتا ہے اور لوگ بکتے بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قرآن سے محبت، اللہ و رسول(ص) اور اہلبیتؑ سے محبت ہے، علامہ حافظ ریاض حسین نجفی
انہوں نے کہا کہ ریاست کا دوسرا اہم ستون عدلیہ اس وقت مقبوضہ فلسطین اور کشمیر بن چکی ہے، اپنا استقلال کھو بیٹھی ہے۔ ایڈمنسٹریشن ہو یا دوسرے ادارے، جن کا اثر و نفوذ بڑھ چکا ہے، ان کی وجہ سے عدلیہ کا استقلال اور خودمختاری ختم ہو چکی ہے۔
تیسرا ستون مجریہ یعنی حکومت جو کہ آج ایک پیرالائزڈ حکومت ہے، اصل میں فالج زدہ ہے، نہیں چل رہی ہے، یہ ستون بھی ڈھے چکا ہوا ہے۔
آخری ستون، میڈیا، جو کہ پیکا ایکٹ کے ذریعے ڈھایا گیا ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ گونگوں، بہروں اور اندھوں کا معاشرہ بن جائے، جدھر مرضی ہانکیں لے جائیں۔ یہ عوام کے شعور، بصیرت، آگہی، عزم اور حوصلے سے ڈرتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ عوام گمراہ، بے شعور ہو جائیں۔
علامہ راجہ ناصر عباس نے مزید کہا کہ اس وقت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے نفاق اور منافقت کو ایک طرف پھینکنا ہوگا۔ ہمیں سچے دل اور سچائی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر ہم قاتل سے بھی ملیں اور مقتول سے بھی، پھر یہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم قاتلوں کے ساتھ بھی بیٹھتے ہیں اور مقتولوں کا بھی ماتم کرتے ہیں، ان کا نوحہ اور مرثیہ بھی پڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نفاق کو ختم کرنا ہوگا۔ جتنی بھی ترامیم منظور ہوئیں، اگر ان میں منافقت نہ ہوتی تو یہ ترامیم کبھی منظور نہ ہوتیں، یہ بل کبھی بھی پاس نہیں ہو سکتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہاں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ان شاء اللہ۔ خدا نے انسانوں کو بولنے کی طاقت دے کر خلق کیا ہے۔ انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے کہ وہ بولے، اور یہ بولنا دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
ہم بولیں گے، کل بھی بولے تھے، آج بھی اور آئندہ بھی بولیں گے۔ اور کہیں گے یہ بادشاہ ننگا ہے، سب کہیں کہ بادشاہ ننگا ہے۔
حامد میر صاحب نے کہا کہ یہاں مارشل لاء ہے۔ مارشل لاء کا سرپرست کون ہے؟ یہاں پر کون چلا رہا ہے یہ مارشل لاء؟؟
یہ ننگے ہیں، سارے کے سارے برہنہ ہیں، انہیں رسوا کرنا ہوگا عوام کے سامنے، جرات اور حوصلے کے ساتھ۔ پھر جا کر ہم منزل کو پہنچیں گے۔ ان شاء اللہ جیت ان کی ہوتی ہے جو میدان میں اترتے ہیں، سچائی کے ساتھ، اخلاق کے ساتھ، ثابت قدم رہتے ہیں، اور کسی ظالم کے آگے سر نہیں جھکاتے۔
مجھے امید ہے یہ تحریک اسی طرح آگے بڑھے گی اور عوام کے حقوق اور اپنے حق کی جنگ لڑے گی اور کامیاب ہوگی۔