فلسطینیوں نے امت کو متحد کیا! تکفیری عناصر شام میں امت کو تقسیم کرنے میں مگن، صہیونیوں کے پشتبان ترکی کا منافقانہ چہرہ بے نقاب ہوگیا :علامہ محمد امین شہیدی
غزہ کی جنگ نے شیعہ اور سنی کو متحد کر دیا تھا غزہ کی جنگ نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ شیعہ کا خون بھی وہی ہے جو اایک سنی کا ہے اور سنی کا بھی وہی ہے جو شیعہ کا ہے ۔
شیعیت نیوز:امت واحدہ کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے اپنے خصوصی بیان میں کہا ہے کہ
لبنان میں فلسطین کے کاز کے لیے حزب اللہ نے جو قربانیاں دی ھیں ان کے بعد پوری دنیا کا رخ تشیع کی طرف ہوا اور دنیا کو اندازہ ہو گیا کہ اگر اسلام کا کوئی حقیقی مقاومتی چہرہ دنیا میں موجود ہے تو وہ تشیع ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو براہ راست لبنان جنگ میں شدید نقصان اور ہزیمت و ذلت اٹھانی پڑی ۔
یہ امریکہ کی بھی شکست تھی اور اسرائیل کی بھی۔
اس صورتحال میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ براہ راست جنگ میں ان کو جو ذلت اٹھانی پڑی ہے اس کے مقابلے میں بالواسطہ جنگ میں وہ زیادہ شاید کامیاب ہو سکے اس لیے کہ بالواسطہ جنگ میں ایندھن وہ بیوقوف سادہ لوح تکفیری مسلمان بنیں گے جو انہی کی کھاتے ہیں اور مسلمانوں کو کافر قرار دے کر قتل کرتے ہیں اور امت میں نفرت اور تعصب پیدا کرتے ہیں۔
لہذا انہوں نے سیریا میں اس جنگ کا دوبارہ سے اغاز کیا سیریا میں کیوں کیا ؟
وجہ واضح ہے کہ سیریا خط مقدم ہے مقاومتی بلاک چاہے حماس ہو یا حزب اللہ ان کی اگر مدد ہوتی ہے تو وہ بالعموم سیریا کے راستے سے ہوتی ہے تمام عرب ممالک اور عرب حکمرانوں کے درمیان سیرین نظام اور بشار الاسد واحد عرب لیڈر ہے جو اینٹی اسرائیل بھی ہے اور مقاومت کا بھرپور حامی بھی ۔
یہ بھی پڑھیے : اسلام آباد میں طاقت اور پسماندہ علاقوں میں بے بسی کیوں؟ : علامہ امین شہیدی
لہذا اس کو راستے سے ہٹانا مقاومت کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت ضروری ہے۔
اسی ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے داعش کی باقیات کو دوبارہ سے امریکہ ترکی اور خطے کے بعض دیگر عرب ممالک میں نئے سرے سے منظم کیا گیا
اور جیسے ہی اسرائیل اور لبنان کے درمیان صلح اور جنگ بندی کا اعلان ہوا یہاں پر وہ جنگ چھیڑ دی گئی،
اب اسرائیل مدد تو کر رہا ہے لیکن پیچھے رہتے ہوئے براہ راست اس کو جنگ کا نقصان نہیں پہنچ رہا اور ترکی نے صہیونی اسرائیلیوں کا دوست اور یار ہونے اور ان کے غم میں شریک ہونے کا بھرپور ثبوت دیا کہ اسرائیل کو بچا لو اور تکفیریوں کو جنگ کا ایندھن بناؤ لیکن اس میں اس جنگ کا ایک مثبت پہلو بھی سامنے ایا ھے وہ یہ ہے کہ ترکی کا چہرہ بے نقاب ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیئے : تحریر الشام کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل ڈالا، ہیڈکوارٹر تباہ کر دیا، شامی فوج کا دعویٰ
پوری دنیا کے اندر امریکی اور سعودی ایڈ پر چلنے والے تکفیری جتنے گروپس تھے ان کو دوبارہ سے شیعہ سنی کے نام پر اس لڑائی کو پیش کرنے اور لوگوں کے درمیان شیعہ سنی اختلافات کو دوبارہ فروغ دینے کا ایک موقع مل گیا ۔
عالم اسلام میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ فلسطین اور غزہ کی جنگ ہے ۔
غزہ کی جنگ نے شیعہ اور سنی کو متحد کر دیا تھا غزہ کی جنگ نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ شیعہ کا خون بھی وہی ہے جو اایک سنی کا ہے اور سنی کا بھی وہی ہے جو شیعہ کا ہے ۔
سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین اور حزب اللہ کی اعلی ترین قیادت کی شہادت کے بعد دنیا کو شیعہ اور سنی کے اتحاد اور وحدت کا جو پیغام ملا تھا وہ دو ارب مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ امید افزا تھا اور لوگوں کی توجہات کا مرکز تھا
جبکہ یہ بھی تلخ حقیقت ھے کہ عالمی استکبار امریکہ اسرائیل اور خطے کے عرب ممالک کو سب سے زیادہ تکلیف امت کے اتحاد سے ہوتی ہے کیونکہ امت کے اتحاد کا مطلب غیر قانونی ریاستوں غیر جمہوری ریاستوں اور بادشاہتی نظاموں کو خطرہ ہے لہذا امریکیوں کو ایسے ہی حکمرانوں کی ضرورت ہوتی ھے۔
ان حکمرانوں کو سب سے زیادہ فائدہ تب ہوتا ہے جب امت کے درمیان شیعہ اور سنی کی تفریق پیدا ہو اور اس کے نتیجے میں قوم بٹ کر تقسیم اور کمزور ہو جائے فلسطین غزہ اور بیروت کے واقعات نے امت کو متحد کیا
اور یہ چیز ان تمام ممالک کے لیے خوف کا سبب بنی لھذا انھوں نے شام کے اندر دوبارہ انہی تکفیریوں کو میدان دے کر غزہ کی ان شہادتوں کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور فلسطین میں اس وقت بھی قتل عام جاری ہے لیکن شامی تکفیری کبھی بھی اسرائیل کے حوالے سے بات نہیں کرتے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں جو تکفیری ان شامی تکفیریوں کی حمایت میں اس وقت تشیع کے خلاف زہر اگل رہے ہیں
یہ وہی لوگ ہیں جو اسرائیل کے خلاف نہ کبھی بولتے ہیں نہ کوئی عملی قدم اٹھاتے ہیں عملا یہ صہیونی اسرائیلیوں کے یار بھی ہیں مددگار بھی ہیں لہذا شام کی اس اندرونی جنگ سے سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اسرائیل کو ہورھا ہے اور اس کے ساتھ ان تکفیریوں کو بھی۔
لیکن غزہ کے موضوع نے امت کو بیدار کر دیا ہے اگرچہ سوشل میڈیا پر ان کے پروپیگنڈے جاری ہیں لیکن غزہ نے امت کے اندر جو بیداری پیدا کی ہے اس کے نتیجے میں انشاء اللہ تعالی ان کے یہ پروپیگنڈے دم توڑ جائیں گے۔
زائل ہو جائیں گے اور عملا شام کے اندر تکفیریوں کو شکست فاش ہوگی۔
اور اس سے زیادہ شکست ہوگی جو ان کو پہلے شہید قاسم سلیمانی کے ہاتھوں اٹھانی پڑی تھی چونکہ وہ تجربات سامنے ہیں اس جنگ کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ترکی جیسا منافقانہ پالیسی رکھنے والا ملک بھی اس واقعے کی وجہ سے اور اس جنگ کی وجہ سے بے نقاب ہو چکا ہے
اور دنیا کو پتہ چل چکا ہے کہ کتنا بڑا نفاق ترکی کے ان مذہبی سیاستدانوں کے اندر چھپا ہوا ہے
اور انشاءاللہ انے والا وقت حزب اللہ کی مقاومت کی حماس کی کامیابی کا وقت ہے
اور اسرائیلیوں اور صہیونیوں کی شکست کی نوید لے کر ائے گا اور وہ وقت دور نہیں ہے