اسماعیل ہنیہ کی مظلومانہ شہادت پر تکفیریوں کا سوشل میڈیا پر زہریلا پراپیگنڈہ
وہ اس موقع سے سوء استفادہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے، فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے، حماس کو مقاومتی بلاک میں کمزور کرنے اور ہمسایہ اسلامی ملک سے عوام کو متنفر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شیعیت نیوز: اس حقیقت کو ہر ذی شعور انسان جانتا اور سمجھتا ہے کہ اس وقت کرہ ارض پر اسرائیل و امریکہ کا کوئی حقیقی دشمن ہے تو وہ صرف ایران ہے۔ ویسے تو روئے زمین پر 52 اسلامی ممالک موجود ہیں، مگر ایران کے علاوہ باقی سارے اسلامی ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ و اسرائیل کے غلام بنے ہوئے ہیں
۔45 سال سے زیادہ عرصہ امریکہ اور اس کے نمک خواروں نے مختلف طریقوں سے ایران کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور طرح طرح کے حربوں کو استعمال کرتے ہوئے اسے جھبہ مقاومت سے پیچھے ہٹانے کی جدوجہد کی، مگر اس پورے عرصے میں انہیں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ اس طویل عرصے میں ایران کے خلاف امریکہ نے جو بھی نقشہ کھینچا.
وہ نقش برآب ثابت ہوا۔ ایران نہ صرف کمزور نہیں ہوا، بلکہ ہر میدان میں اس نے ترقی کی۔ تعلیم و تربیت کا میدان ہو یا ثقافت کا میدان، سیاسی و عسکری میدان ہو یا ٹیکنالوجی و اقتصادی میدان، غرض ہر میدان میں وہ آج اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، وہ خود کفیل ہے اور استقلال و آزادی کی نعمت سے مالا مال ہے۔
امریکہ و اسرائیل کے خلاف مزاحمتی مورچہ سجا کر مقاومت کرنے کو اس نے اپنا ہدف بنا لیا اور کسی بھی وقت وہ اپنے ہدف سے سر مو کے برابر بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ ہوا۔ دوسری طرف سے امریکہ و اسرائیل نے بھی ایران کو کمزور کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں، اس پر اقتصادی پابندی لگا کر مغلوب کرنے کی کوشش کی گئی.
جب پوری دنیا کے سامنے ان کی رسوائی اور ناکامی روز بروز عیاں ہوتی گئی تو دنیا والوں کے سامنے اپنی شرمندگی پر پردہ ڈالنے کے لئے اور ان کے سامنے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہم اب بھی دنیا کے طاقتور تریں ملک ہیں، ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں سب سے آگے ہیں وغیر۔۔ وہ ایسی حرکت کرنے پر اتر آئے، جسے دنیا کے باشعور افراد اور عقلاء عالم نامردگی اور زنانہ حرکت سے تعبیر کرتے ہیں.
پوری دنیا اس بات کو سمجھتی ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسروں کے گھر میں جا کر رات کی تاریکی میں حملہ کرنا شجاعت نہیں بلکہ انتہائی بزدلی کی علامت ہے۔ اس طرح کے بزدلانہ حملے نہ صرف اسرائیل کے لئے باعث خسارہ ہیں بلکہ یقیناً یہ اس کی مکمل نابودی کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔
بدون تردید اسماعیل ہنیہ اسلامی جہاد کی عظمت و اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ انہوں نے فلسطین اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا اپنی پوری توانائی سے دفاع کیا، اسرائیل کی سازشوں کو ناکامی سے دوچار کیا۔ انہوں نے قرآنی تعلیمات سے روشنی لیتے ہوئے ایرانی عادل و فقیہ قیادت سے مشورہ لیکر اپنے مقاومتی بلاک کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کرنے کی عادت اپنائی۔ شھید اسماعیل ہنیہ کے ایرانی قیادت سے راہنمائی لینے کو ہی اسرائیل اپنے لئے موت کی گھنٹی سمجھتا تھا۔
جب مرحوم کی مظلومانہ شہادت کی خبر میڈیا و سوشل میڈیا پر نشر ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ دنیا بھر، خاص طور پر عرب ممالک اور پاکستان کے تکفیری گروہوں نے مختلف جہتوں سے ایران کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔
تاریخ میں یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے، بلکہ ہر ملک میں فل سکیورٹی کے باوجود ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں، جس کی کچھ مثالیں یہ ہیں: پوری دنیا کا آقا بننے کا خواب دیکھنے والے ملک امریکہ میں صدر جان ایف کینیڈی کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ کی آرزو ہی شہادت تھی، سو وہ اپنی مراد کو پاگئے۔ البتہ اس سے دشمن کی قبیح حرکت کی قباحت میں کمی ہرگز نہيں آتی۔ اسے جلد یا بدیر اپنے کئے کی سزا بہرحال بھگتنا پڑے گی۔
پلانینگ کے بغیر، نفع و نقصان کو بھانپے بغیر، بصیرت اور سوچ و بچار کے بغیر اندھا دھند حملہ کرنا احمق اور بے وقوف کا کام تو ہوسکتا ہے، مگر عاقل کا کام ہرگز نہیں۔ عقل و خرد رکھنے والے دشمن سے بدلہ لینے کے لئے جلدی بازی سے کام لئے بغیر تمام زوایا سے سوچتے ہیں اور کافی غور و خوض کرکے دشمن کی ایسی جگہ وار کرتے ہیں.
اسی معیار کے مطابق ہمیں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے حادثے کو دیکھنا چاہیئے، تاکہ تکفیریوں کے پراپیگنڈوں کو سمجھ سکیں۔ بہر صورت تمام مسلمانوں سے ہماری یہ گزارش ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے حوالے سے خدارا تکفیریوں کے پراپیگنڈے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔