دیوبند مدارس بچوں سے بدفعلی کا مرکز بن گئے،خصوصی رپورٹ سامنے آگئی
بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم ساحل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں جنوری سے جون 2023ء تک اوسطاً 12 بچے روزانہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔

شیعیت نیوز: آپ صرف گذشتہ چند مہینوں کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔
آپ کو پے درپے دینی مدارس کے حوالے ایسی افسوسناک خبریں ملیں گی، جیسے: اسلام آباد تھانہ رمنا کے علاقے میں دینی مدرسہ میں زیر تعلیم طالبہ لاپتہ ہوگئی۔
دریں اثناء نئی آبادی علی پور میں واقع مدرسہ کے قاری کی طرف سے بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کرنے پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔
تھانہ شہزاد ٹاون میں ناصر نے مقدمہ درج کروایا کہ قاری عبدالرحمن نے اس کے بیٹے کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کیں، مدرسہ کے دیگر دو طلباء نے بھی بتایا کہ قاری انکے ساتھ بھی غلط حرکات کرچکا ہے۔
چکوال میں دینی تعلیم کے مدرسہ میں طالب علموں سے زیادتی کا افسوس ناک واقعہ سامنے آگیا۔
زیادتی کا نشانہ بننے والے ایک طالب علم کے والد نے تھانہ میں مدرسہ کے دو اساتذہ کے خلاف درخواست دے دی۔
چکوال میں 14 طلباء کو مدرسہ کے اساتذہ زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔
متاثرہ تمام طلباء کی عمریں 12 اور 14 سال کے درمیان ہیں۔ ملزمان بچوں کو چاقو سے ڈراتے اور ان کے جسم پر Z کانشان بناتے تھے۔
حالات اتنے سنگین ہیں کہ تھانہ نارتھ کینٹ لاہور میں ایک طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ لاہور کے رہائشی ایک مفتی صاحب تین سال سے اُسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ناصبی مولبی ابتسام الہیٰ ظہیر کا طالبانی جرگہ :بچوں سے بد فعلی کے مرتکب کالعدم سپاہ صحابہ کے مجرم کو عام معافی
یہ کسی چھوٹے موٹے یا نوجوان مفتی کی بات نہیں ہو رہی۔ موصوف گزشتہ تقریباً 25 سال سے مدرسہ منظور الاسلامیہ میں بطور معلم کام کر رہے تھے۔
اس کے ساتھ ہی وہ مذہبی جماعت جمیعت علماء اسلام کے لاہور سے رکن بھی تھے۔
طالب علم کا کہنا تھا کہ جب وہ درجہ رابعہ یعنی چہارم میں پہنچے تو امتحانات کے دوران اس وقت کے نگران مفتی نے ایک اور طالب علم سمیت ان پر امتحانات میں نقل کا الزام عائد کرتے ہوئے تین برس کے لیے ان کے وفاق المدارس کے امتحانات پر بیٹھنے پر پابندی عائد کر دی۔
طالب علم نے پولیس کو مزید بتایا کہ مفتی نے ان سے کہا کہ اگر "وہ انھیں خوش کر دیا کریں گے تو میں وفاق المدارس والی پابندی بھی ہٹوا دوں گا اور امتحانات میں بھی پاس کروا دوں گا۔
طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ اس کے بعد مفتی ہر جمعہ کے روز تقریباً 10 یا 11 بجے انھیں طلب کرتے تھے اور ان کے ساتھ غلط کاری کرتے تھے۔
تین سال تک بلیک میل ہونے کے بعد تنگ آکر طالب علم نے مدرسہ انتظامیہ کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مفتی کے خلاف شکایت کی۔
مدرسے کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ مفتی صاحب بزرگ اور نیک آدمی ہیں، وہ ایسا فعل نہیں کرسکتے۔
طالبِ علم کے مطابق اس پر "مایوس ہو کر اس نے خود اس واقع کی ویڈیوز چوری بنانا شروع کیں۔”
طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ یہ ثبوت اس نے وفاق المدارس العربیہ کے ناظم مولانا حفیظ جالندھری کو بھی پیش کیے۔
اس نے پولیس کو چند آڈیو کالز کی ریکارڈنگ بھی ثبوت کے طور پر فراہم کی، جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ کس طرح مفتی نے مسلسل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
یہ تو کچھ بھی نہیں، اس سے کئی گنا زیادہ ایسی خبریں گوگل پر سرچ کرکے دیکھ لیجئے۔
یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی مدارس کو سماج کی تربیّت کے حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
شدّت پسندی ہو یا جنسی بے راہروی، اس کے ڈانڈے جا کر کچھ دینی مدارس سے ہی ملتے ہیں۔ مدارس لوگوں کو جیسے ترغیب دیتے ہیں۔
لوگ وہی کچھ کرتے ہیں۔
بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم ساحل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں جنوری سے جون 2023ء تک اوسطاً 12 بچے روزانہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔