اہم ترین خبریںمقالہ جات

ایم ڈبلیو ایم کا سیاسی اتحاد اور تکفیریوں کی چیخیں

جھنگ میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی میں اقتدار کی رسہ کشی کے دوران احمد لدھیانوی نے ہاتھ دکھایا اور الیکشن کمیشن کو کہا کہ معاویہ اعظم کالعدم جماعت کا رہنما ہے اور اس کے دہشتگردوں کیساتھ رابطے ہیں

شیعیت نیوز: حالیہ عام انتخابات بہت سے حوالوں سے ’’تاریخی‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ دھاندلی کے بھی ریکارڈ قائم ہوئے ہیں اور تکفیریوں کو بھی پہلی بار عبرتناک شکست ملی ہے۔

عمران خان نے اپنے سپورٹرز کو کہا تھا کہ ’’خوف کے بت توڑ دو‘‘ اور پاکستان کے تمام عوام نے اس پر لبیک کہا اور خوف کے بت توڑتے ہوئے گن پوائنٹ پر ووٹ لینے والوں کو بھی مسترد کردیا۔

بہت سے تکفیری اور کالعدم جماعتوں کے رہنما دھونس دھاندلی اور گن پوائنٹ پر لوگوں کو خوفزدہ کرکے ووٹ بٹور لیا کرتے تھے۔

مگر اس بار ایسا نہ ہو سکا۔ پورے پاکستان میں نام بدل کر اور پارٹیاں تبدیل کرکے الیکشن میں حصہ لینے والے تکفیریوں کو پاکستانی عوام نے عبرتناک انجام سے دوچار کیا ہے۔

جھنگ میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی میں اقتدار کی رسہ کشی کے دوران احمد لدھیانوی نے ہاتھ دکھایا اور الیکشن کمیشن کو کہا کہ معاویہ اعظم کالعدم جماعت کا رہنما ہے اور اس کے دہشتگردوں کیساتھ رابطے ہیں۔

احمد لدھیانوی نے ریٹرننگ افسر کو تمام ثبوت فراہم کئے جس پر آر او نے معاویہ اعظم کے کاغذات مسترد کردیئے۔

مولانا احمد لدھیانوی کو نشست کی ٹکٹ ملی تھی، تاہم سپاہ صحابہ کے ووٹرز کی بدولت ہی احمد لدھیانوی کو عبرتناک شکست ہوئی۔

جھنگ کے ایک پولنگ بوتھ پر احمد لدھیانوی کے مخالف معاویہ اعظم کے حامی مولانا خالد جھنگوی نے بیلٹ باکس اٹھا لئے اور احمد لدھیانوی کو شکست سے دوچار کر دیا۔

کوئٹہ سے راہ حق پارٹی کا ایک بھی امیدوار جیت نہیں سکا۔ شیعہ نسل کشی میں ملوث رمضان مینگل بھی ہار گیا۔

کراچی سے اورنگزیب فاروقی بھی بری طرح پٹ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: آل سعود کی پاکستان میں فرقہ وارانہ مداخلت ،پی ٹی آئی اور ایم ڈیبلیو ایم سیاسی اتحاد کو مسلکی رنگ دے دیا

جھنگ سے مولوی حق نواز جھنگوی کا بیٹا مسرور جھنگوی، چترال سے تکفیریوں کا سرپرست اور معاون خصوصی عبدالاکبر چترالی بھی ہار گیا، اس کی وجہ سے جماعت اسلامی کا ووٹ بینک بھی بُری طرح متاثرہ ہوا اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

چترالی وہی ہے جس نے متنازعہ بل پیش کیا تھا۔ دوسری جانب شورکوٹ سے کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے والے آصف معاویہ سیال بھی ہار گیا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عوام نے حیران کن نتائج دیئے ہیں، آزاد امیدواروں کو سرپرائز دیا اور تکفیریوں کو مسترد کردیا ہے۔

یہ تکفیری خود تو مسترد ہوگئے، اب مجلس وحدت مسلمین کی کامیابی سے بھی نالاں ہیں۔

ان کی چیخیں آسمان کو چُھو رہی ہیں۔ انہیں اس بات کے مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ ایم ڈبلیو ایم ایک شیعہ جماعت مین سٹریم سیاست میں کیسے پہنچ گئی۔

اس پر یہ اتنے سیخ پا ہیں کہ ان کی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں۔

یہ تکفیری بھول گئے ہیں کہ پاکستان قائداعظم نے بنایا تھا، وہ شیعہ تھے۔ پاکستان کو چلانے کیلئے سرمایہ راجہ صاحب محمود آباد نے فراہم کیا تھا۔

پینسٹھ کی جنگ لڑنے کی ذمہ داری ایوب خان نے ایک شیعہ جنرل موسیٰ کے سپرد کی۔

اردو ادب میں مرزا غالب، میر انیس، میر تقی میر، میرزا دبیر، اکبر آلہ آبادی، قلی قطب شاہ، علی سردار جعفری، قرۃ العین حیدر، جون ایلیا سمیت درجنوں ادیب شاعروں کو نکال دیں تو اردو ادب کا دامن تہی دکھائی دیتا ہے۔

کیلی گرافی اور اسلام کا چولی دامن کا ساتھ ہے، پاکستان کے معروف ترین کیلی گرافر صادقین شیعہ گھرانے کے چشم و چراغ، برصغیر پر حکومت کرنیوالی جہانگیر کی اہلیہ نور جہاں اور شاہ جہاں کی اہلیہ ممتاز محل شیعہ تھیں۔

سلطان حیدر علی ٹیپو شیعہ تھا۔

پاکستان کو آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو بھی شیعہ تھے۔

گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج سے آزادی دلوا کر پاکستان کے حوالے کرنیوالے کیپٹن حسن اور صوبیدار میجر بابر بھی شیعہ تھے۔

لالک جان نے کارگل کی چوٹی پر جام شہادت نوش کرکے نشان حیدر لے لیا۔

یہ لالک جان بھی شیعہ تھا۔

ایئر چیف مصحف علی میر بھی شیعہ تھا، ان کے علاوہ ہزاروں ڈاکٹرز، پروفیسرز، سائنسدان، ماہرینِ معاشیات، وکلاء، دانشور، ادیب، لکھاری، صحافی شیعہ ہیں جو ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنے کارہائے نمایاں سے وطن عزیز پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں۔

پاکستان بنانے سے لیکر اسے بچانے تک ہر شعبہ، فوج سے لیکر بیوروکریسی، سیاست سے لیکر صحافت تک، طب سے ادب تک، ہر شعبے میں اہل تشیع کے کار ہائے نمایاں ایک مثال ہیں۔

اس کے برعکس تکفیری جی ایچ کیو، آرمی پبلک سکول، مہران ایئربیس، ایف آئی اے ہیڈکوارٹر، آئی ایس آئی کے دفاتر سمیت دہشتگردی کے متعدد واقعات میں ملوث پائے گئے۔ ان تکفیریوں نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔

جبکہ اہل تشیع نے پچاس پچاس جنازوں پر بھی کھڑے ہوکر امن اور ملکی سلامتی کی بات کی ہے۔

یہ تکفیری ہمیشہ استعماری قوتوں کے آلہ کار بنے ہیں اور اس آلہ کاری میں اپنے ہی وطن کا نقصان کیا ہے

لیکن اہل تشیع نے پاکستان کی پوری تاریخ میں ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے ملکی سالمیت پر آنچ آتی ہے۔ دہشت گردی کے جتنے واقعات ہوئے ہیں، سب کے تانے بانے تکفیریوں سے ملتے ہیں۔

آج ایم ڈبلیو ایم سیاسی میدان کے قومی دھارے میں آگئی ہے، تو انہیں پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔

ان کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ یہی شیعہ متحدہ مجلس عمل میں بھی تھے، یہ ملی یکجہتی کونسل میں بھی تھے، یہ شیعہ ہر وحدت کے پروگرام میں پیش پیش ہوتے ہیں، تب تو تکفیری نہیں بولے، اب سیاسی میدان میں انہیں پہلی صف میں دیکھا ہے، تو ان کے ہوش اُڑے ہوئے ہیں۔ ان کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔

یہ پاکستان شیعہ اور سنی نے مل کر بنایا تھا، پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی پاکستان کے عوام کی جماعتیں ہیں، ان میں شیعہ سنی کی تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں۔

یہ تکفیری سوچ ہے کہ وہ ہر معاملے میں شیعہ سنی کا فرق دیکھتے ہیں۔

اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کی دور اندیشی لائق تحسین ہے، جنہوں نے بہترین حکمت عملی سے پاکستان کی سب سے بڑی جماعت میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔

یقیناً پاکستان کو اس کے بنانے والے ہی بہتر انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین نے ملکی ترقی میں جو کردار ادا کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے، اس سے جہاں شیعہ سنی وحدت کو فروغ ملے گا وہیں تکفیریوں کے عزائم بھی خاک میں ملیں گے

اور تکفیریوں سے ملک کو نجات مل گئی تو پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button