اہم ترین خبریںمقالہ جات

8 سال سے جبری لا پتہ ظہیر الدین بابر دہشتگرد نہیں

،ایسا محب وطن اور انسان دوست شخص ستمبر 2016ء کو لاپتہ کر دیا گیا، ان کے خانوادے اور احباب نے جس بھی سرکاری ادارے سے پوچھا تو انہوں نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ حالانکہ ظہیر الدین بابر کے اہل خانہ کے بقول کیورٹی ادارے والے کالی وردی پہن کر بلیک ویگو گاڑی میں آئے اور ظہر الدین بابر کو گاڑی سمیت فتح جنگ سے لے گئے۔ انکے ساتھ کچھ اور افراد بھی تھے، جن کو راستے میں ہی چلتی گاڑی سے دھکے دے کر نیچے گرایا گیا۔ارشاد حسین کی خصوصی رپورٹ

ظہیر الدین بابر پاکستان کا ایک ایسا بیٹا تھا، جس کا دل دکھی انسانیت، ملت، مذہب کیلئے دھڑکتا تھا، ایک ایسا انسان جو ہر وقت کسی پاک مشن پر رہے، خاص طور پر انہیں زراعت کے شعبہ میں کافی دلچسپی تھی۔ ان کا زیادہ تر وقت لوگوں کو زراعت کے جدید طریقے، پودے لگانے، میوہ دار درخت اور فرنیچر والے درخت جو زیادہ سرمایہ کے ساتھ انسان کی زندگی بدل سکیں، کیلئے انتہائی مفید مشورے دیتے تھے۔

ظہیر الدین کا بنیادی تعلق فتح جنگ سے تھا، وہاں انہوں نے زمین خرید کر خود تجربات شروع کئے تو علاقے کے متعلقہ ناظم کو معلوم ہوا تو اس نے خود ان کے زرعی رقبہ کا دورہ کرکے ظہیر الدین بابر سے اپنے علاقے میں کسانوں کو انہی طریقوں سے کام سکھانے کی درخواست کی۔

وہ دور دراز علاقوں سے کسانوں کو بلاکر سبزیاں اور پودے لگانے کے طریقے سکھانے کی ورکشاپ کرواتے تھے۔

دوسری جانب ظہیر الدین سماجی معاملات میں بھی پیش پیش رہتے تھے، انہوں نے کئی علاقوں کے تنازعات کو حل کرنے میں وہاں کے مقامی لوگوں کی مدد کی اور ان کا ہمیشہ کہنا تھا کہ اگر ہم سب ملکر اپنے سارے مسائل خود دیکھیں تو ہمیں حکومت سے کچھ بھی مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو معیاری تعلیم اور صحت کی اچھی سہولیات فراہم کرے، کسی بھی علاقے کے لئے یہ دو چیزیں بھی کافی ہیں۔ مطلب غریب ملک میں رہتے ہوئے کب تک کسی پراجیکٹ کا انتظار کیا جائے۔ جب الیکشن میں کوئی بھی امیدوار آکر وعدے کرے، بعد میں 5 سال بعد دوبارہ الیکشن میں وہی وعدہ کرکے پھر جھوٹ بولے اور عوام کی توہین کرتا رہے۔

ظہیر الدین بابر ایک مرتبہ گلگت گئے تو وہاں ایک گاوں تک جانے کے لئے گاڑیوں کا راستہ نہیں تھا، مریضوں یا جنازے کو چارپائی پر لٹا کر روڈ تک لانا پڑتا تھا، جو کافی دور بھی تھا۔ ظہیر الدین بابر نے سب گاوں والوں کو اکٹھا کرکے یہ باور کرایا کہ اگر حکومت کے انتظار میں بیٹھے رہیں کہ وہ آپ کے گاوں کے کچھ  گھروں کے لئے روڈ تعمیر کروائے اور پھر آپ اسے زیر استعمال لا سکیں تو اسی انتظار میں مزید کئی سال لگ جائینگے اور حالات سے لگ رہا ہے کہ دور دور تک ابھی اس پراجیکٹ پر کام نہیں ہونا، لہذا ہم سب ملکر یہ راستہ کیوں نہ بنائیں، تمام علاقے والوں کی مٹینگ بلائی گئی، جس میں سب گاوں والوں کو راضی کیا گیا کہ راستہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کرینگے۔

کچھ ہی دنوں میں ازخود روڈ بنایا گیا اور گاڑیاں گھروں تک جانے لگیں، جس پر کچھ ہی اخراجات آئے، سب نے ملکر ہزاروں میں نہیں بلکہ چند سو روپے ہر گھر سے لیکر گھر تک راستہ خود بنا لیا۔ اسی طرح بعض مقامات پر گندم اور آلو کے بیج اچھی طرح استعمال کرنے سے کچھ علاقوں والے بے خبر تھے، انہوں نے اچھے بیج استعمال کرنے کا مشورہ دیا اور کچھ علاقوں کو محکمہ زراعت سے بیج لے کر پہنچائے، مٹی کے ٹیسٹ کرائے، تب کہیں جاکر وہاں کے لوگوں کو زمینوں کی اہمیت کا پتہ چل سکا۔ایسے بے شمار کام جو وہ سرانجام دیتے تھے، مگر ایسا محب وطن اور انسان دوست شخص ستمبر 2016ء کو لاپتہ کر دیا گیا،

ان کے خانوادے اور احباب نے جس بھی سرکاری ادارے سے پوچھا تو انہوں نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ حالانکہ ظہیر الدین بابر کے اہل خانہ کے بقول کیورٹی ادارے والے کالی وردی پہن کر بلیک ویگو گاڑی میں آئے اور ظہر الدین بابر کو گاڑی سمیت فتح جنگ سے لے گئے۔

انکے ساتھ کچھ اور افراد بھی تھے، جن کو راستے میں ہی چلتی گاڑی سے دھکے دے کر نیچے گرایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:قوم کابہترین سپوت ظہیر الدین بابر۔۔۔۔جبری گمشدگی کے اذیت ناک4برس
ظہیر الدین بابر کے لواحقین نے ہر سکیورٹی ادارے کے متعلقہ افسر سے رابطہ کیا کہ یہ ہمارا بندہ واپس کریں، اگر ان پر کوئی جرم یا الزام ہو تو عدالت میں پیش کریں، مگر سب خاموش تماشائی بنے رہے۔

ظہر الدین بابر آئی ایس آئی کے سابق چیف محترم جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے گاوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے آئی ایس آئی چیف کی ذمہ داری سنبھانے سے پہلے بھی کئی دفعہ وعدہ کیا تھا کہ ہم ان کو ڈھونڈ نکالیں گے۔

لیکن کچھ نہیں ہوسکا۔ چند دن قبل اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اس شدید سردی میں اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے بیٹھے رہے، لیکن ان کی بھی کسی نے نہیں سنی۔ معلوم نہیں اس ملک میں کوئی قانون یا کوئی آئین ہے بھی یا نہیں۔؟

کیسے کسی محب وطن شہری کو بغیر کسی عدالتی کارروائی یا قانون کے، غائب کر دیا جاتا ہے۔؟

 اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے یا ذمہ داران ہی قانوں کی دھجیاں بکھیرنے لگیں تو عام عوام سے قانون پر عمل کرنے کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔؟ میں ظہیر الدین بابر کو نہ تو ملزم یا مجرم اور نہ ہی اس مٹی کے ساتھ حیانت کار سمجھتا پوں، بلکہ وہ ایک نیک سیرت، پرہیزگار اور محب وطن اتحاد بین المسلمین کے لئے جان دینے والا شہری تھا۔

وہ ہرگز دہشتگرد یا وطن فروش نہیں ہوسکتا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button