اہم ترین خبریںمقالہ جات

شہیدِ میڈیا باسط علی کون تھا؟عظیم سبزواری کی خصوصی تحریر

مجلس وحدت المسلمین اور شیعت نیوز نے اپنی ویب سائٹ پر شہید کی شہادت کی خبر اپنے کارکن و نمایندہ کے طور پر چلائی۔

 شیعیت نیوز: یوں تو میری شہید باسط علی سے کوئی ملاقات نہیں تھی لیکن 2010 تا یوم شہادت فیس بک پہ شہید سے بات چیت رہی۔

21 جنوری 2014 کو مستونگ میں ایران سے آنے والی زائرین کی بس کی وڈیو بنانے کے لئیے جانے والے باسط علی کو تکفیری دہشتگردوں نے نشانہ بنا کر شہید کردیا۔

اس شہید کی انوکھی بات یہ تھی کے یہ پاکستانی تشیع کا وہ واحد شہید ہے جو ابلاغی محاذ پر شہید ہوا۔

آپ پوچھیں گے یہ ابلاغیاتی شہید کیا ہوتا ہے؟
جیسے ایک جنگ میں ایک سپاہی اپنے ملک یا ایک مجاہد اپنے دین کے لئے شہید ہوتا ہے ویسے ہی جنگ نرم کے محاذ پر بھی لوگ کام کرتے ہوئے شہید ہوتے ہیں۔

البتہ انکا تناسب بہت کم ہوتا ہے کیونکہ یہ در پردہ یا کسی جگہ بیٹھ کر کام کر رہے ہوتے ہیں جہاں انکی زندگی کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔

لیکن حالیہ دور میں یہ چیز مزید واضع ہوگئی ہے جب اسرائیل نے غزہ پر اپنی جارحیت میں 7 اکتوبر 2023 سے لے کر 21 جنوری 2024 تک لگ بھگ 120 صحافیوں اور سوشل میڈیا کی شخصیات کو ہدف بنا کر شہید کیا ہے تاکہ وہ اسکے جرائم کو آشکار کرنے سے پیچھے ہٹ جائیں۔

شہید باسط علی ان اولین افراد میں سے ہیں جنہوں نے پاکستان میں اس محاذ پر شہادت پائی۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر 2012/2013 تک بیت زیادہ کام نہیں ہوتا تھا، نہ ہی اس میں اس طرح سے پیسہ تھا جیسے آج یوٹیوب یا انسٹاگرام سے لوگ کماتے ہیں۔

حتیٰ کے سمارٹ فون کی فراوانی بھی عام نہ تھی اور لوگوں کا رجحان ابھی اس جانب بننا شروع ہوا تھا نہ کے بہت پختہ تھا۔

سرکاری ہوں یا سیاسی پارٹیاں یا بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز ان سب کے آفیشل اکاؤنٹ ابھی فعال بھی نہ تھے نہ ہی اس طرح سے اپڈیٹ کی بہتات تھی جیسے آج۔ البتہ اداکاروں اور فنکاروں کے نام پر آئی ڈیز نے ابھی دھوم مچانی شروع کی تھی۔

اسی لئیے اگر کوئی کارکن اس دور میں اس محاذ پر آواز اٹھاتا اور کام کرتا تو یہ بے لوث اور بغیر لالچ کے کام کرنے کے علاؤہ شمار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہی خصوصیت اور خلوص شہید باسط علی میں موجود تھا۔

آج سے 10 سال قبل کے کوئٹہ مین شیعہ ہزارہ نسل کشی کا بازار گرم تھا، چاہے 2010 کا یوم القدس کا دھماکہ ہو (70 شہداء) یا 2013 کے دو بڑے دھماکہ ہوں (220 شہید) یا آئے روز کی ٹارگٹ کلنگ ہو شہید باسط علی اور انکی ٹیم سرگرم رہتی۔
کربلائے کوئٹہ کے فیس بک پیج سے پہلی بار سوشل میڈیا سے وہ خبریں آنی شروع ہوئیں جو اس سے پہلے آسانی سے نہ ملتی تھیں۔

کب کہاں اور کتنے شیعہ ہزارہ کو انکے چہرے کے خاص منگول نقوش کی وجہ سے شناخت کر کے شہید کردیا گیا یہ کربلائے کوئٹہ کی ٹیم نے اپڈیٹ کرنا شروع کیا۔

ان کاموں کی وجہ سے ایک اہم کام جو پاکستان کی تاریخ میں رقم ہوا وہ جنوری 2013 اور فروری 2013 کے بڑے دھماکہ تھے۔

انکی اپڈیٹ اور تفصیلات سوشل میڈیا پر گردش کرنا شروع ہوئیں تو پورے پاکستان سے یکجہتی اور ہمدردی کے غرض سے آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ پریس اور الیکٹرونک میڈیا نے ان خبروں کو دبایا اور صرف سانحہ تک محدود رکھنے کی کوشش کی۔

مگر کربلائے کوئٹہ اور ایم ڈبلیو ایم کی ٹیم کا کام جاری رہا۔

شہید باسط علی مجلس وحدت مسلمین کے میڈیا انچارج بھی تھے۔ شہدا کے لواحقین نے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا کے جب تک حکومت ہماری مانگوں کو پورا نہیں کرتی تو ہم اس ٹھٹھرتی سردی میں لاشوں کو رکھ کر بیٹھے رہیں گے۔

یہ باتیں بھی کسی میڈیا چینل نے اوائل میں نہ دکھائی تو سوشل میڈیا کی بدولت یہ پورے ملک میں پھیلنے لگیں تو پاکستان میں جگہ جگہ لوگ چوک چوراہوں پر آکر بیٹھ گئے۔

دھرنا دینے والوں کی ہم آواز بننے کے لئے سوشل میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ہوں کچھ دن کے دھرنوں کے بعد حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے اور بلوچستان حکومت کو گھر جانا پڑا۔راجہ پرویز اشرف کو بطور

وزیر اعظم اسکا اعلان کرنا پڑا اور یوں پورے پاکستان نے یہ بات رقم ہوتے دیکھی کے سوشل میڈیا پر بے لوث کام کرنے والوں نے کیا نتیجہ دیا۔

اس سب کے بیچ میں اپنا کیمرہ اٹھائے، اپنا موبائل فون ہاتھ میں لئیے باسط علی یہ ساری تاریخ محفوظ کر رہا تھا۔ مسلسل وہ معلومات پھیلاتا رہتا جو زمینی حقائق سے آشنا رکھتیں اور لوگوں کو معلومات ملتی رہتیں۔ باسط علی جنگ نرم کے سپاہیوں میں سے شمار ہوچکا تھا۔

شہید باسط علی کوئٹہ میں شیعت نیوز کے نمائندہ بھی تھے جب وہ 21 جنوری کو مستونگ گئے تو ایک شیعہ زائرین سے بھری بس کو عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا جس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی۔

یہ بھی پڑھیں:سانحہ مستونگ کوئٹہ کو دس سال بیت گئے ،کالعدم لشکر جھنگوی کے قاتل دہشت گرد آج بھی آزاد

یہ بس پاک۔ایران سرحدی علاقے تافتان سے آرہی تھی جسے مستونگ کے علاقے درین گڑھ میں نشانہ بنایا گیا۔

اس دھماکہ میں 29 افراد شہید ہوئے اور ساتھ میں شہید باسط علی بھی جام شہادت نوش کر گئے۔

شہید باسط علی کی قسمت کہیں کے سانحہ مستونگ کی کوریج کرنے والا سوشل میڈیا پہ کوئی زیادہ کام نہ کر پایا۔

نہ ہی اسکے بعد ہونے والے دھرنوں کو سوشل میڈیا پر زیادہ کوریج ہوئی۔

البتہ ملکی ذرائع ابلاغ نے 2013 کے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے سانحہ کو اور اسکے دھرنے کو معمول سے تھوڑی بڑھ کر کوریج ضرور دی۔

مجلس وحدت المسلمین اور شیعت نیوز نے اپنی ویب سائٹ پر شہید کی شہادت کی خبر اپنے کارکن و نمایندہ کے طور پر چلائی۔

شہید سے آخری بات چیت میں جو جنوری 2014 کے اوائل میں ہوئی یہی طے پایا کے کوئٹہ کے حوالہ سے اردو کے ساتھ اب انگلش میں بھی کام کیا جائے گا۔

البتہ چند دن بعد ہی باسط کو اپنی آخرت کی طرف کوچ کر جانا تھا یہ معلوم نہ تھا۔

باسط علی علمدار روڈ کوئٹہ کے قبرستان میں ان کئی افراد کے ساتھ دفن ہیں جنکی شہادتوں کی کوریج وہ اور انکی ٹیم کرتی رہی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button