مقالہ جات

16 دسمبر اور میرے دشمن کے بچے:نذر حافی کا کالم

بھارت کا تاریخی خلائی مشن "چندریان-3” چاند پر لینڈ کر گیا تو  پھر کیا ہوا۔؟ مجھے پھر بھی دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔ بے شک میرے دشمن کے بچے میرے اپنے بچوں کی نسبت بہت زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ آیئے دشمن کے بچوں کے بجائے ذرا اپنے بچوں کی خبر لیتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے اپنے بچے اپنے ملک کی شرحِ خواندگی کے حوالے سے پریشان ہیں۔ فی الحال شرحِ خواندگی کی پریشانی تک ہی رہیئے اور تعلیم و تربیت کی تو بات ہی نہ کیجئے۔ ہمارے بچے سمجھتے ہیں کہ ہمارا موجودہ معاشرتی انحطاط، ناخواندہ اور ان پڑھ لوگوں کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اس مُلک میں جس اینٹ کو اٹھاو، اُس کے نیچے تازہ اور رِستا ہوا خون کیوں ہے۔؟ جی ہاں! کہیں بے گناہ انسانوں کا خون اور کہیں عدل و انصاف کا۔ اپنے بھائیوں کا خون بہانے اور خون میں نوالے تر کرکے کھانے کی یہ تعلیم ہمارے بچوں کو کس نے دی۔؟

تین صدیوں تک ہندوستان پر صرف مغل بادشاہوں نے حکومت کی۔ ان سے پہلے تیموری بادشاہ، سلطنت دہلی کے بادشاہ، خاندان سوری کے بادشاہ، عادل شاہی سلطنت کے بادشاہ اور دکنی بادشاہتوں کی بات کی جائے تو سالہا سال بادشاہوں نے ہندوستان میں عیش و عشرت، شکم و شہوت اور موج مستی کی تاریخ رقم کی۔ ان سب نے ہندوستان میں اپنی اپنی بڑائی اور بزرگی کا لوہا تو منوایا، لیکن یہاں کے بچوں کیلئے کوئی نظامِ تعلیم وضع نہیں کیا۔ صاحبانِ دانش جانتے ہیں کہ نظامِ تعلیم سے مراد صرف درسی کتابیں نہیں۔تعلیمی اداروں کا ماحول، اساتذہ کی قابلیت و تربیت، اساتذہ اور طلباء کا طریقہ انتخاب، درودیوار پر کنندہ نقوش و عبارات، ورزش، ہم نصابی سرگرمیاں، مالی نظام، مدیریتی و درسی منصوبہ بندی، نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) کو  مرتب کرنے سے لے کر درسی کتابوں کا محتویٰ، امتحانی طریقہ کار، حضور و غیاب کا اندراج اور سزا و حوصلہ افزائی یہ سب کچھ نظامِ تعلیم میں آتا ہے۔

ہندوستان میں صاحبِ ثروت اور صاحبِ حیثیت لوگ اپنے بچوں کیلئے کچھ اُجرت مقرر کرکے اتالیق یا اساتذہ رکھتے تھے۔ صد ہا سال یہ اتالیق زیادہ تر بڑے لوگوں کے گھروں میں جا کر اُن کے بچوں کو کچھ نہ کچھ لکھنا پڑھنا اور صرف و نحو سکھاتے رہے۔ اکثر لوگ اتالیق کا بندوبست نہیں کرسکتے تھے، لہذا اُن کے بچے اگر تعلیم حاصل کرنا چاہتے تو دور دراز کے مدارس یا خانقاہوں کا رُخ کرنے پر مجبور تھے۔ اس صورتحال میں شرح خواندگی کی سطح کا انتہائی کم ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ رہا انگریزوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا زمانہ، تو  اُنہیں صرف اپنے نظم و نسق سے غرض تھی۔ جب 1830ء میں لارڈ میکالے ہندوستان آیا تو ہندوستان میں عوام کیلئے کوئی سرکاری نظامِ تعلیم تھا ہی نہیں۔

اگر کچھ لوگ اپنے طور پر کوشش اور جدوجہد کرکے کسی علمی مقام یا منصب تک پہنچتے بھی تھے تو انہیں بھی یہ ڈکٹیٹر اور آمر بادشاہ مذہبی مناظروں اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں الجھا کر رکھتے تھے۔ لوگ مذہبی مناظروں میں ڈھول بجاتے، دھمال ڈالتے، علماء کی فرقہ وارانہ لڑائیوں اور بادشاہوں کی جارحانہ مہمات میں اپنی جانیں گنواتے اور ڈکٹیٹر حضرات رنگ رلیاں مناتے۔چنانچہ برصغیر پاک و ہند میں لارڈ میکالے نے 1830ء میں ایک ایسا اسکول سسٹم متعارف کرایا، جو بنیادی طور پر صرف ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریز سرکار کیلئے مقامی نوکر اور دیسی تابعدار پیدا کرنے کیلئے تھا۔ ظاہر ہے کہ فارسی، سنسکرت اور عربی زبان میں ایسے افراد اور ایسے آلہ کار تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے لئے انگریزی زبان کا سہارا لیا گیا۔ لارڈ میکالے کا یہ نظامِ تعلیم فقط ہندوستانیوں کیلئے تھا جبکہ خود انگلستانی بچوں کے لئے ایک جُدا نظامِ تعلیم تھا۔

ہمارے ہاں تقسیمِ ہند تک یہی لارڈ میکالے کا نظامِ تعلیم رائج رہا۔ 1947ء میں ہندوستان تقسیم ہوا۔ اس کے بعد پاکستان میں جتنی اہمیت جنگی ترانوں، کرکٹ، میوزک، ملالہ، عافیہ صدیقی اور مہسا امینی کو دی گئی، اگر اتنی بھی نظامِ تعلیم کو دی جاتی تو آج ہماری قومی حالت ایسی نہ ہوتی۔ کہنے کو تو 1947ء میں ہی پہلی آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 1947ء سے لے کر آج تک وطن عزیز میں تقریباً 22 تعلیمی  کانفرنسز منعقد اور آٹھ تعلیمی پالیسیاں مرتب ہوچکی ہیں۔ یہ تمام کانفرنسز اور تعلیمی پالیسیاں لارڈ میکالے کے بنائے ہوئے سسٹم پر عملاً بالکل اثر انداز نہیں ہوسکیں۔ نہ صرف یہ کہ اثر انداز نہیں ہوسکیں بلکہ لارڈ میکالے کے طریقہ کار کو ناقص منصوبہ بندی یا مکمل سوچ و بچار کے ساتھ مزید پختہ بھی کیا گیا۔

 

یہ بھی پڑھیں:16دسمبر 2014،سانحہ آرمی پبلک اسکول، تاریخِ پاکستان کا ناقابل فراموش اور قیامت خیز دن

وجہ صاف ظاہر ہے کہ یکساں سرکاری معیاری تعلیمی نظام جتنا بھی مفید ہو، اس سے ہمارے سیاستدانوں، وڈیروں، جاگیرادروں، سرمایہ داروں، اربابِ اقتدار و اختیار اور صاحبانِ مال و جاہ کو کیا غرض! ان کے اپنے بچوں کیلئے بہترین اور مہنگے تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ باقی رہے غریبوں کے بچے تو اُنہیں وڈیروں، طاقتوروں اور اشرافیہ کے بچوں کے برابر تعلیمی سہولیات اور تحقیقی امکانات   دینا کسی طور بھی ممکن نہیں۔ غریبوں کے بچوں کی تعلیم کیلئے نہ ہی تو بجٹ ہے اور نہ ہی آسمان سے کوئی من و سلویٰ نازل ہوتا ہے۔ بھلا اپنے نوکروں، کمیوں،  غلاموں اور خادموں کے بچوں کو ملکی خزانے سے معیاری تعلیم دینا کہاں کی سمجھداری ہے!۔

ماضی کے طاقتوروں، بادشاہوں اور امیرزادوں کی طرح آج کے حکمرانوں، طاقتوروں، مال داروں اور سیاستدانوں نے بھی اپنے بچے تو سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھانے ہی نہیں ہوتے۔ لہذا انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ سرکاری نظامِ تعلیم کو بدلنے اور اسے معیاری بنانے کیلئے، بجٹ خرچ کریں۔ ویسے بھی خرچ کرنے سے خزانہ خالی ہوتا ہے اور غریبوں پر خرچ کرنے کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں۔ غریبوں کی تعلیم و تربیّت سے ہمیں کیا ملے گا؟ اگر روٹی، کپڑا اور مکان چاہیئے تو جان لیجئے کہ ہمارے ہاں روٹی، کپڑے اور مکان کا تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم لوگ تو اوپر کی کمائی، ڈھٹائی، بے حیائی، ملاوٹ، کرپشن، رشوت، بھیک، دھونس اور فراڈ کو تعلیم کہتے ہیں۔ یہی تعلیم لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام سے چھلکتی تھی اور یہی تعلیم آج بھی ہمارے ہاں کے تعلیم یافتہ افراد میں بدرجہ اتم دکھائی دیتی ہے۔

آج میرے بچے اتنے تعلیم یافتہ ہیں کہ وہ ڈاکٹر بن کر بھی لوگوں کو بے ہوش کرکے اُن کے گردے نکال لیتے ہیں اور تھانے و کچہریوں میں عوام کے لہو سے لقمے تر کرکے کھاتے ہیں۔ میرے تعلیم یافتہ بچوں کے باعث میرے ملک میں دودھ سے لے کر دوائی تک ہر چیز میں ملاوٹ ہے، نوکری سے لے کر کسی ڈاکٹر سے معائنہ کرانے کی باری تک، حتی کہ عدالت میں پیش ہونے کیلئے ہرکارے کو اور بجلی کا میٹر لگوانے کیلئے میٹر ریڈر کو رشوت دینا لازمی امر ہے۔ ہمارا یہ حال ناخواندہ اور ان پڑھ لوگوں کی وجہ سے نہیں ہوا۔ ہمیں اس حال تک پہنچانے میں بڑے  بڑے تعلیم یافتہ اور پالیسی میکرز کا ہاتھ ہے۔ آپ جتنے بھی مظلوم ہیں، متعلقہ اداروں کی کرسیوں پر براجمان افراد کی مٹھی گرم کئے بغیر آپ ایک درخواست یا ایف آئی آر تک درج نہیں کرا سکتے۔

تفتان سے لے کر ریمدان بارڈر تک ہر طرف ہماری اعلیٰ تعلیم کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ اسٹریٹ کرائم، اسمگلنگ، منشیات، دہشت گردی اور لینڈ مافیا کے بعد اب سائبر کرائم کی بھرمار!۔ کیا ناخواندہ یا ان پڑھ لوگ ملک کو اس طرح نوچ اور لوٹ رہے ہیں۔؟ جُرم کو نفع بخش کاروبار میں ناخواندہ عوام نے بدلا ہے یا ہمارے نام نہاد تعلیم یافتہ طبقے نے۔؟ سنا ہے کہ ہمارا دشمن ان دِنوں بہت پریشان ہے۔ اُسے جب سے یہ خبر ہوئی ہے کہ ہم نے اُس کے بچوں کو پڑھانے کا عزم ِ صمیم کر لیا ہے، تب سے اُس کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ اگرچہ اُس کا تاریخی خلائی مشن "چندریان-3” چاند پر لینڈ کر گیا ہے، لیکن اُس کے بچے کیا جانیں کہ برادر کُشی کتنا منافع بخش کاروبار ہے۔؟

متعلقہ مضامین

Back to top button