شیعت نیوز اسپیشل

معرفت و عظمت دختر پیغمبر سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ

ارشاد حسین ناصر

حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختلاف ہے، لیکن معتبر روایات کی بنیاد پر آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال 20 جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ہوئی۔ اہل سنت کے مطابق آپؑ کی ولادت بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی ہے۔ منابع شیعہ میں آپ کی ولادت کی تاریخ 20 جمادی الثانی ذکر ہوئی ہے۔ دختر رسول خدا سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کائنات کی وہ عظیم اور برترین خاتون ہیں، جن کی حقیقی معرفت و پہچان کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ آپ کی معرفت کا حصول فقط قرآنی آیات اور اقوال اہلبیت سے ہی ممکن ہے۔ دختر رسول حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ کی عالم اسلام کی ایسی باعظمت خاتون ہیں، جنکی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس آسمان اور آپ کی فضیلتوں کو قرآنی آیات اور اقوال اہلبیت کی روشنی میں کئی ایک مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے فضائل کے بیان میں بہت زیادہ روایتیں وارد ہوئی ہیں، لیکن ہم فقط ان اقوال و روایات کو بیان کریں گے، جو قرآنی آیات کی تفسیر کے طور پر وارد ہوئی ہیں، اس حوالے سے کئی روایات فقط فضائل کے چند گوشوں کو بیان کرتی ہیں۔ آپ کو فاطمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ آپ کی معرفت سے عاجز ہیں۔ ایک اور مقام پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ بہترین عورتیں چار ہیں، مریم دختر عمران، فاطمہ دختر محمدؐ، خدیجہ بنت خویلد، آسیہ زوجہ فرعون۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مزید فرمایا کہ بہشت کی عورتوں میں سے بہترین عورت فاطمہ سلام اللہ علیہا یعنی فاطمہ بھشت کی عورتوں کی سردار ہے۔ مفسرین و علماء نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا وجود زمین پر تشکیل نہیں پایا بلکہ آسمان سے نازل ہوا ہے اور تقریباً قرآن کریم کی ہمسر تھیں۔

جس طرح قرآن کریم کی آیات، سورتیں روزانہ نازل ہوتی تھیں اور قرآن مکمل ہو رہا تھا، ایسے ہی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی ذات بھی دن بدن کی مدت کی بلندیوں کو طے کیا اور جب قرآن کریم مکمل ہوگا تو اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد بی بی سلام اللہ علیہا کی عمر بھی اختتام پذیر ہوگئی، لیکن بی بی سلام اللہ علیہا ہمیشہ کیلئے باقی ہیں۔ اگرچہ "انک میت و انھم میّتون” تمام انسانوں کیلئے ہے۔ جب پیغمبر اکرم ؐ  اعلان نبوت کے بعد معراج پر تشریف لے گئے تو آنحضرت ؐ نے وہاں پر ایک غذا تناول فرمائی اور جب زمین پر تشریف لائے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کے اسباب تک اور کوئی غذا تناول نہ فرمائی۔

آپ رسول خدا ؐ کے ہمراہ زبان وحی و کردار نبوت کی گواہ کے طور پر ساتھ پروان چڑھیں، سیدہ نے دو سال کی عمر میں شعبِ ابی طالب میں جو مشکلات تھیں، ان میں منازل ارتقاء و کمال طے کیں اور جب یہ وجود مقدس مکہ میں تھا تو آیات ِمکی سے آشنائی ہوئی اور ان آیات کے ہمراہ ارتقاء و کمال کی منازل طے کیں اور جب چند سال مدینہ میں تشریف لائیں تو مدنی آیات کے ہمراہ ترقی و کمال کی منازل طے کرتی رہیں۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا وجود مقدس چند راستوں سے قرآن کریم کے ساتھ رابطے میں بنا تھا۔ بعض اوقات بالواسطہ اور بعض اوقات بلا واسطہ۔ بلا واسطہ رابطہ میں دو طرح کا تھا۔ ایک بلا واسطہ رابطہ یہ تھا کہ خود پیغمبر اکرم ؐ سے آیاتِ قرآنی، تلاوت آیات قرآن، کتاب و حکمت کی تعلیم اور تزکیہ کی تعلیم حاصل کرتی تھیں، جو کہ پیغمبر اکرم ؐ کی ذمہ داری بھی تھی۔ "یتلو علیہم آیاتہ، یعلمھم الکتاب والحکمۃ و یزکیھم” تو ان چار چیزوں کو بلاواسطہ اپنے پدر بزرگوار جناب رسول خدا ؐ سے حاصل کرتی تھیں اور ہر روز پیغمبر اکرم ؐ کے ان دو شاگردوں کو امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو دربار رسالت میں ارسال فرماتی تھیں۔

ایک واقعہ جو بہت معروف ہے، میں مذکورہ ہے کہ امام حسن ؑنے دربار رسالت ؐ سے واپس آکر والدہ ماجدہ کو اپنا سبق سناتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ اے مادرِ گرامی!مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آج بزرگوار ہستی مجھے دیکھ رہی ہے۔ اس واقعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ امام حسنؑ صرف ایک دن اپنی مادر گرامی کو سبق نہیں سنایا بلکہ روزانہ کی رپورٹ دیتے تھے کہ رسول خدا ؐ نے کیا فرمایا، لیکن اُس دن حضرت علی علیہ السلام نے پردے کے پیچھے سے اپنے بیٹے کی باتوں کو سُنا۔ روزانہ ہی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا حسنین کریمینؑ کو رسول خدا ؐ کے حضور بھیجا کرتی تھیں اور بعد میں ان سے پوچھا کرتی تھیں کہ آج کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔؟رسول خدا ؐ نے کیا فرمایا؟ آیت کا کس طرح معنی کیا؟ اس آیت کو فلاں آیت کے ساتھ رسول خدا ؐ نے کیسے ہم آہنگ کیا؟ تو حضرات حسنین  ؑرپورٹ دیتے تھے اور آخر میں پدر بزرگوار سے مذاکرہ فرماتی تھیں اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے ان دو سفیروں کے علاوہ تیسرا سفیر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام تھے، جنہیں رسول خدا ؐ نے باب مدینۃ العلم قرار دیا تھا۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام بھی تحریری اور مرتب احوال دیا کرتے تھے کہ آج یہ آیت نازل ہوئی، پیغمبر اکرم ؐ نے اس کا اس طرح معنی کیا، اس کی یوں تفسیر کی۔۔۔۔ تو یہ طریقے تھے کہ جن سے ایک بلاواسطہ اور دو بالواسطہ تھے۔ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ اپنی پیاری دختر کے بارے ارشاد فرمایا ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی، عرش سے اللہ تعالیٰ کا منادی ندا دے گا، لوگو اپنی آنکھیں بند کر لو، تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جائیں۔ یہ کیا کم اہمیت ہے کہ لسان وحی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہؑ سے فرمایا کہ خدا تیرے واسطے سے غضب کرتا ہے اور تیری خوشنودی کے ذریعے خوشنود ہوتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کو جناب فاطمہ س سے زیادہ سچا نہیں دیکھا۔

امام محمد باقرؑ نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم، اللہ نے فاطمہ کو علم کے وسیلہ سے فساد اور برائیوں سے محفوظ رکھا ہے۔ امام جعفر صادق ؑنے اپنی جدہ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا ہے، جناب فاطمہؑ کو اللہ تعالیٰ کے یہاں نو ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہراء، فاطمہ کے نام رکھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ برائیوں اور فساد سے محفوظ اور معصوم ہیں، اگر حضرت علیؑ نہ ہوتے تو فاطمہ سلام اللہ علیہا کا کوئی ہمسر نہ ہوتا۔ سوال کیا گیا کہ جناب فاطمہ کا نام زہراء کیوں رکھا گیا؟ ایک فرزند اہلبیت نے یوں جواب دیا؛ اس لئے کہ خدا نے آپ کو اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا ہے، آپ کے نور سے زمین اور آسمان اتنے روشن ہوئے کہ ملائیکہ اس نور سے متاثر ہوئے اور وہ اللہ کے لئے سجدہ میں گر گئے اور عرض کیا خدایا یہ کس کا نور ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری عظمت کے نور سے ایک شعلہ ہے کہ جسے میں نے پیدا کیا ہے اور اسے آسمان پر سکونت دی ہے، اسے پیغمبروں میں سے بہترین پیغمبرؐ کے صلب سے پیدا کروں گا اور اس نور سے دین کے امام اور پیشوا پیدا کروں گا، تاکہ لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کریں، وہ پیغمبرؐ کے جانشین اور خلیفہ ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button