مشرق وسطی

قطر کا عالمی برادری سے اسرائیل پر این پی ٹی میں شامل ہونے کے لئے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ

شیعیت نیوز: ویانا میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سالانہ اجلاس میں قطر کے مندوب نے ایک بار پھر صیہونی حکومت سے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا۔

مہر خبررساں ایجنسی نے خلیج الجدید کے حوالے سے خبر دی ہے کہ قطر کی ایٹمی ہتھیاروں کی ممانعت کی قومی کمیٹی کے سربراہ عبدالعزیز سلمان الجابری نے ایک تقریر میں کہا کہ اقوام متحدہ کی 1974 کی قراردادیں اور سلامتی کونسل کی1981 اور 1991 قرارداد 487 اور 687، اسی طرح بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مختلف فیصلہ جات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کے رکن نہیں ہیں،ضرور اس معاہدے پر دستخط کریں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ صیہونی حکومت نے نہ صرف اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں بلکہ ایجنسی کے معائنہ کاروں کو بھی اپنی ایٹمی تنصیبات کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : شام میں امریکہ کی دہشت گردوں کے ساتھ شراکت داری ہے، بشار اسد

قطر کے نمائندے نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اس عمل کو درست کرنے اور مذکورہ قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تل ابیب کا جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی میں شامل ہونا اور اسرائیل کی تمام ایٹمی تنصیبات کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں رکھنا جوہری ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطیٰ کے لیے اہم شرط ہے۔

قطر کے نمائندے نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل سے کہا کہ وہ ایجنسی کے اس جمود کو توڑنے کے لئے اقدام کرے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ (غاصب) صیہونی حکومت کے ایٹمی مسائل پر ایجنسی کے فیصلہ ساز حکام کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے۔

اس سے قبل قطر سمیت بعض عرب ممالک نے اگست 2022 میں جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے جائزہ اجلاس کے دوران صیہونی حکومت سے اس معاہدے میں شامل ہونے اور وسیع پیمانے پر تباہی کے تمام ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطیٰ کی تشکیل کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اگرچہ صیہونی حکومت خطے میں خطرات کا ایک اہم ذریعہ ہے لیکن اس نے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون نہیں کیا ہے۔

مغربی ممالک کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق صیہونی رجیم کے پاس تقریباً 200 ایٹمی بم ہیں۔

دریں اثنا، بعض مغربی ذرائع نے صیہونی رجیم کے پاس بڑی مقدار میں یورینیم اور پلوٹونیم کی موجودگی کی اطلاع دی ہے، جس کی وجہ سے تل ابیب مزید 100 ایٹمی بم بنانے کے قابل ہو گیا ہے۔
اس کے باوجود صیہونی حکومت کی ایٹمی تنصیبات کسی کی نگرانی یا معائنے میں نہیں ہیں۔

صیہونی حکومت کے پاس سات ایٹمی ری ایکٹر ہیں جن میں ڈیمونا سب سے نمایاں ہے اور اس حکومت کے رہنما کسی کو ان ری ایکٹرز کے قریب جانے یا ان کا معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button