مشرق وسطی

ریاض اور ابوظہبی کے درمیان اختلافات، یمن مخالف اتحاد کا عبرتناک انجام، عرب میڈیا

شیعیت نیوز: عرب میڈیا کے مطابق ریاض اور ابوظہبی کے درمیان اختلافات اقتصادی اور سیاسی میدان سے عبور کرتے ہوئے سرحدوں تک پہنچ گئے ہیں۔

عربی ویب سائٹ 21 نے خبر دی ہے کہ جدہ میں ہونے والے عرب سربراہان مملکت کے اجلاس سے متحدہ عرب امارات کے امیر محمد بن زائد النہیان کی غیر حاضری نے ریاض اور ابوظہبی کی دوستی کے بارے میں کئی سوالات جنم دیے ہیں۔

’’کیا ریاض اور ابوظہبی کا اتحاد اپنے انجام کو پہنچ گیا؟‘‘ کے عنوان سے سرخی لگا کر ویب سائٹ نے مبصرین کے لئے تجزیہ کا موقع فراہم کیا ہے۔ اگرچہ بعض ذرائع نے اس حوالے سے کہا ہے کہ بن زائد یورپی ممالک کے دورے پر ہونے کی وجہ سے جدہ کانفرنس میں شریک نہ ہوسکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں سعودی عرب اور عرب امارات کے اعلی حکام باہمی اجلاسوں میں شرکت کرنے سے گریز کررہے ہیں جوکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور خراب تعلقات کی دلیل ہے۔

ویب سائٹ نے اپنے تبصرے میں مزید لکھا ہے کہ یمنی بحران کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات رونما ہوئے جس کی وجہ سے یہ اتحاد ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان انصاراللہ کے خلاف اتحاد کی تشکیل کے بعد سے ہی اختلافات کی خبریں زیرگردش رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : اسرائیلی فوج جارحیت جاری، بلاطہ کیمپ میں تین فلسطینی جوان شہید

ذرائع کے مطابق عرب امارات یمنی ساحلوں، جزیرہ سقطری پر قبضہ اور جنوبی کونسل برائے انتقال کی حمایت چاہتا ہے۔ اس حوالے سے عرب امارات نے 2020 کے اوائل میں ہی اتحادی ممالک کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سعودی عرب نے اس اعلان کے بعد کہا تھا کہ عرب امارات نے یکطرفہ اقدام کرکے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق دونوں ممالک کے تعلقات کا جائزہ لینے والے اس حقیقت سے ناآگاہ ہیں کہ دونوں ممالک کی معیشت ایک جیسی ہے کیونکہ دونوں تیل اور پیٹرولیم مصنوعات پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ دونوں معیشت کے اس انحصار کو ختم کرنے کے لئے مختلف منصوبے شروع کررہے ہیں۔ سعودی عرب نے نیوم منصوبہ شروع کررکھا ہے جبکہ عرب امارات خود کو تجارتی مرکز بنانے کے لئے بندرگاہوں اور غیر ملکی کمپنیوں پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے اقدامات متصادم اور سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ عرب امارات نے چین صدر کی موجودگی میں سعودی عرب میں ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کی اسی طرح محمد بن سلمان نے عرب امارات میں ہونے والے چھے ملکی اجلاس میں جانے سے گریز کیا۔ بعد میں عرب امارات نے بھی اردن میں شام، مصر اور عراق کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا کیونکہ اس اجلاس میں سعودی عرب بھی شرکت کررہا تھا۔

ویب سائٹ نے دونوں ملکوں کے درمیان میڈیا پر جاری جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ سفارتی اور سیاسی محاذ ہونے والی محاذ آرائی کے علاوہ سعودی ذرائع ابلاغ نے بھی عرب امارات کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ ملک کے مشہور صحافی عرب امارات کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ دونوں ممالک گذشتہ سالوں کے دوران باہمی اختلافات کو چھپاکر رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن دونوں ملکوں کے اعلی حکام کی جانب اجلاسوں میں عدم شرکت اور تیل اور یمن کے مسئلے پر اختلافات نے اندرونی حالات کو فاش کردیا ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق دونوں ممالک خطے میں قائدانہ کردار کے خواہش مند ہیں اور اقتصادی سرگرمیوں کو مکمل طور پر اپنی نگرانی میں لینے کا آرزو اس اتحاد کی جڑوں کو دیمک کی چاٹ رہا ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات کے درمیان کشیدگی سیاسی اور اقتصادی میدانوں سے نکل کر سرحدوں تک پہنچ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق الغویفات سرحد پر بحرانی حالات ہیں۔ تجارتی سامان لدے ٹرکوں کو سعودی سرحدی محافظوں نے بارڈر کراس کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button