اہم ترین خبریںپاکستان

متنازعہ ترمیمی بل کوسینیٹ سےمنظوری سے پہلےقومی اسمبلی کے فل کورم سیشن میں بحث کیلئے پیش کیا جائے،مجلس علمائے شیعہ پاکستان

اس بل کی نوعیت مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر ہے تو اسلامی مکاتب فکر کو کیوں اعتماد نہیں لیا گیا اور اسلامی نظریاتی کونسل و ملی یکجہتی کونسل میں پیش کر کے بحث کیوں نہیں ہوئی جبکہ جماعت اسلامی کے تو دیگر مکاتب فکر سے گہرے روابط ہیں۔

شیعیت نیوز: مجلس علماء شیعہ پاکستان کے مرکزی صدر علامہ سید حسنین گردیزی نے دیگر علمائے کرام کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے مقدس شخصیات کی توہین کے بل پر ملت جعفریہ پاکستان کو شدید تحفظات ہیں جسے ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ہم پرامن لوگ ہیں کسی کے مقدسات کی توہین کو جائز نہیں سمجھتے ہمارے فقہاء کے نزدیک یہ حرام ہے ہم بھی امید کرتے ہیں کہ ہمارے مقدسات وعقائد کا بھی احترام کیا جائے۔ مقدس شخصیات کی توہین کے حوالے سے منظور کیا گیا بل پہلے بھی موجود تھا لیکن کیا وجہ بنی کہ اسے پھر ترمیم کر کے پاس کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ متنازعہ بل کو اسمبلی میں پیش کرنے اور منظور کروانے کا طریقہ کار ہی سرے سے Bad intention پر مبنی ہے جس کی تصدیق پیش کرنے والے رکن نے چینل پر یہ کہا کہ ہم تو اسے مخفی رکھنا چاہتے تھے۔اس بل کی نوعیت مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر ہے تو اسلامی مکاتب فکر کو کیوں اعتماد نہیں لیا گیا اور اسلامی نظریاتی کونسل و ملی یکجہتی کونسل میں پیش کر کے بحث کیوں نہیں ہوئی جبکہ جماعت اسلامی کے تو دیگر مکاتب فکر سے گہرے روابط ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں اسے منظور کروانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی، جونہی موجودہ حکومت آئی اس بل کو اپوزیشن بنچوں سے خالی معذور اسمبلی سے منظور کر لیا گیا۔ ہوتا تو یہ کہ فوجداری ترمیمی بل کے ماضی میں استعمال کو دیکھا جاتا کہ اس کا زیادہ استعمال کس کے خلاف ہوا، مسلمانوں کے یا غیر مسلم کے خلاف، میرٹ پر یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر؟اور اگر کسی بے گناہ شہری پر توہین کا غلط الزام لگے, تو الزام لگانے والے پر بھی کوئی حد مقرر ہو۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیرہ اسماعیل خان میں خانوادہ شہداء کے دھرنے کا دوسرا روز، شیعہ تنظیموں کے قائدین کی شرکت

انہوں نے کہا کہ اس متنازعہ ترمیمی بل کو منظور کروانے میں تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں ذمہ دار ہیں کیونکہ کسی نے بھی منظور ہوتے وقت اس پر نقطہ اعتراض نہیں اٹھایا، نہ بحث ہوئی کالعدم جماعتوں کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بل ہم نے جماعت اسلامی کو دیا ہے، گزشتہ تیس سالوں میں جسے کالعدم جماعتیں منظور نہ کر سکیں، یہ کام جماعت اسلامی کے کندھے استعمال کرتے ہوئے کیا گیا، لہذا جماعت اسلامی بھی زیر سوال ہے۔ اس بل کا زیادہ تر شکار مسلمان ہی ہوئے ہیں اور اگر اس بل کی اصلاح نہ کی گئی تو یہ تعصب کی آگ میں بھڑکے ہوئے متشدد تکفیری گروہ کے ہاتھوں میں آگ دینے کے مترادف ہوگا جس کی زد میں کئی معصوم لوگ آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ توہین رسالت ص کے قانون کا استعمال اپنے ذاتی عناد کے تحت ہوا اور بے گناہ لوگوں کی جانیں لی گئیں جبکہ غلط استعمال کرنے والے کے خلاف کسی قسم کی کیپیٹل سزا کا تعین نہیں کیا گیا حالانکہ اس میں اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نام پر غلط الزام لگا کر کسی کی زندگی لینے کی کوشش کی گئی ہے، اس کی سزا تو دوگنا ہو۔صحابی کی بھی تعریف کی جائے،توہین کی جامع و مانع تعریف کی جائے۔ کیا علم و ادب کے دائرے میں تاریخی حقائق لکھنا و بیان کرنا اور تجزیہ و تحلیل کرنا توہین ہے یا نہیں یا پھر غیر علمی و غیر مودّبانہ گالی گلوچ کو توہین کہتے ہیں۔؟

انہوں نے کہا کہ اسی طرح صحابہ کرام کی تعریف میں بھی مشخص کیا جائے، رسول اکرمؐ، اُن کے والدینِ گرامی اور اُن کے چچا حضرت ابو طالبؑ کی توہین کی سزا کو شامل کیا جائے۔ رسول خداؐ کو نعوذ باللہ کوئی گنہگار اور فاسق انسان اگر اپنے جیسا کہے اور لکھے تو یہ سرورِ دو عالم کی توہین ہے، اس طرح سرکار کے عظیم الشّان والدین کو اور عظیم محسن و چچا حضرت ابو طالبؑ ع کو نعوذ باللہ اگر کوئی مشرک و کافر جیسی گالیاں لکھے یا کہے تو اُسے بھی توہینِ پیغمبرؐ کی پاداش میں سزا ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: قرآن مجید کی بے حرمتی ، عالمی امن و امان کو نشانہ بنانے کے مترادف ہے، شیخ عیسی قاسم

انہوں نے کہا کہ بل کی منظوری پر زیادہ تکفیری گروہ خوش ہیں جس سے صاف ظاہر ہے انکے اہداف اور مقاصد خطرناک ہیں لہذا ریاست میں مسلکی بنیادوں پر قانون سازی ہرگز قبول نہیں کیونکہ معاشرے پر اس کے انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ سزا کے قوانین بنانے سے کوئی بھی جرم نہیں رکتا بلکہ قانون کی بالادستی اور سختی سے عملداری سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ورنہ قتل کی سزا متعین ہونے کے باوجود بھی قتل نہیں رکے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں تین دن کے اندر دوسرے جوان کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کیا گیا۔

لہذا سینیٹ اس متنازعہ ترمیمی بل کو مسترد کرے اور تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کی آراء کی روشنی میں ترامیم کر کے قومی اسمبلی کے فل کورم سیشن میں پیش کرتے ہوئے اس پر سنجیدہ بحث کی جائے اور متفقہ طور پر اسے آگے بڑھایا جائے، اس شکل میں یہ بل کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے اور ہم اسے نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ پورے ملک میں احتجاج کا پلان بھی رکھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button