ایران

عراقی کردستان میں موجود علیحدگی پسند گروپ غیر ملکیوں کے پراکسی ہیں، جنرل سنائی راد

شیعیت نیوز: ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف (رہبر معظم انقلاب) کے سیاسی عقیدتی دفتر کے سربراہ برگیڈیئر جنرل رسول سنائی راد نے کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب کی بری افواج نے عراقی کردستان کے علاقے میں علیحدگی پسندوں کے ٹھکانوں پر نئے میزائل اور ڈرون حملوں کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد ان دہشت گردوں کے باقیماندہ ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے یہ اقدام ایران کے سیاسی اور فوجی حکام کی طرف سے متعدد انتباہات کے بعد اٹھایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عراق کے شمالی علاقے ﴿کردستان﴾ کے حکام کی جانب سے ایران کے ساتھ طے شدہ سمجھوتے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔ سمجھوتے میں طے ہوا تھا کہ وہاں انقلاب مخالف قوتوں کی موجودگی، یقینی طور پر سرحد سے دور رہنی چاہیے تھا اور ان کے پاس کسی بھی قسم کے فوجی آپریشن کی سہولیات نہیں ہونی چاہیے تھیں۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ اس معاہدے کے باوجود ان گروہوں نے ایرانی سرحد کے آس پاس یا قریبی فاصلے پر آپریشنل بیس کیمپس تعمیر کرنا شروع کر دیئے اور یہ کام ہیڈ کوارٹر کے تربیتی مرکز کی بنیاد پر انجام پا رہا تھا کہ جہاں ماضی میں عراق پر غیرملکی قبضے کے چند سال بعد غیر ملکی عناصر کی نقل و حرکت عام ہو گئی تھی اور نہ صرف غیر ملکی انٹیلی جنس سروسز کے عناصر نے ان کی میٹنگوں میں شرکت کی بلکہ کچھ غیر ملکی عسکری حکام نے ان ہیڈ کوارٹرز کا دورہ بھی کیا اور ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ساتھ ہی ان گروہوں کو ملک کے مغربی حصوں یا سرحدوں کے ساتھ اور ملک کے اندر کے علاقوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردی کی کارروائیاں سونپی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ کردستانی حکام کو متعدد بار ان کیمپوں کو ختم کرنے اور معاہدوں پر عمل درآمد کے بارے میں متنبہ کیا گیا لیکن بدقسمتی سے ان انتباہات کے باوجود تخریبی کاروائیاں جاری رہیں یہاں تک کہ ان کیمپوں کو نشانہ بنانے اور تباہ کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں : مغرب کے لیے مفادات اہم ہے نہ انسانی حقوق، علی باقری کنی

جنرل سنائی راد نے مزید کہا کہ سپاہ پاسداران کے انتباہات پر کان نہ دھرے جانے کے بعد، سپاہ پاسداران کی بری افواج نے متعدد بار مختلف ہتھیاروں سے حملے کیے اور نئے مرحلے میں سرحد کے قریب ہیڈ کوارٹر کے علاوہ اور کم گہرائی کے ساتھ گہرے علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ . البتہ چونکہ یہ انقلاب مخالف ٹھکانے بعض اوقات رہائشی علاقوں کے قریب واقع ہوتے تھے اس لیے رہائشیوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ آگ لگنے سے پہلے انقلاب مخالف ٹھکانوں اور مراکز سے دور رہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتہائی درست نشانے پر لگنے والی ٹکنالوجی کے ساتھ کیے جانے والے ان حملوں کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ان حملوں سے عام کرد شہریوں کو نقصان نہ پہنچے، اس لئے انہیں پیشگی انتباہات جاری کئے گئے بلکہ انقلاب مخالف گروپ کے اہل خانہ کا بھی خیال رکھا گیا۔ ہماری پوری کوشش تھی کہ ٹھکانوں پر حملوں کے دوران ان کے اہل خانہ کے رہائشی مراکز کو نقصان نہ پہنچے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس طرح کی کارروائی کرے، کیونکہ اگرچہ ہر ملک اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتا ہے جیسے کہ ترکیہ تاہم ایران کے معاملے میں بعض اوقات یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ ایران کو جارح اور اس کے اقدام کو غیر منصفانہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ میں جنرل سنائی راد نے کہاکہ فرق یہ ہے کہ ترکی سمیت دیگر ملکوں کے حملوں کے مقابلے میں ترکی کے مخالف گروہوں کی کھلم کھلا حمایت نہیں کی جاتی لیکن ایران کے انقلاب مخالف گروہوں کو براہ راست بیرونی ممالک کی حمایت حاصل ہے اور جیسا کہ میں نے کہا بیرونی قوتوں کے ان عناصر سے تعلقات قائم ہیں اور وہ مختلف قسم کے غیر ملکی حکام سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم ان گروہوں کی چھان بین کرتے ہیں تو ہمیں سعودی عرب کی مالی مدد اور ان کے ساتھ امریکیوں اور صیہونیوں کے انٹیلی جنس-سیکیورٹی رابطوں کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال عراق کے شہر اربیل پر میزائل حملے میں اس سے پہلے جو کچھ ہوا وہ صہیونی حکومت کے انٹیلی جنس عناصر کے ٹھکانے کو نشانہ بنانا تھا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ان گروہوں کو براہ راست غیر ملکیوں کی حمایت حاصل ہے کہا کہ میڈیا ہمارے خلاف جو نفسیاتی جنگ چھیڑ رہا ہے اس کا تعلق ان گروہوں کے درمیان موجود رابطوں اور رابطوں کی نوعیت سے ہے۔ یہ گروہ عموماً بیرونی ممالک کی سکیورٹی پالیسیوں کو فروغ دینے اور کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کرنے کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں اور درحقیقت انہیں خطے میں غیر ملکیوں کا ایجنٹ اور پراکسی سمجھا جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان گروہوں کے سربراہ عموماً یورپی ممالک میں مقیم ہیں۔ درحقیقت ان میں سے بعض ممالک کے ساتھ ان کی لابی اور روابط ایک پراکسی اور کرائے کے اہلکار کا کردار ہے جو وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دباؤ ڈالنے کے لیے ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی بار کہا ہے کہ ہماری سیکورٹی ہماری ریڈ لائن ہے اور ہمیں سیکورٹی میں خلل ڈالنے والے عناصر کے خلاف پیشگی اور جوابی کارروائیاں کرنے کا حق حاصل ہے۔ نئی صورتحال میں اسے ایک جوابی اقدام تصور کیا جانا چاہیے کیونکہ یہی گروہ ہتھیار لے کر ہمارے سرحدی علاقوں کو غیر مستحکم کر رہے ہیں اور وہ میڈیا میں اس کا اعلان کرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔

جنرل سنائی راد نے کہا کہ ان گروہوں کے سربراہان کردستان کے علاقے میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیز اور ان کے عناصر کی جانب سے ہونے والے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں اور ایران کی سلامتی کے خلاف آپریشنل کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراقی کردستان کے علاقے میں علیحدگی پسند دہشت گردوں کے باقیماندہ ٹھکانوں پر حمزہ سید الشہداء (ع) فوجی بیس کے میزائل اور ڈرون حملوں کو ان کی جانب سے درپیش خطروں، دھمکیوں اور کارروائیوں کے خلاف ایک قسم کا جوابی اقدام سمجھا جانا چاہیے جو ہمارا قانونی حق ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ عراقی کردستان کے حکام کو ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے کہ ایران کو وعدے دینے کے باوجود یہ گروہ آپریشنل ہیڈکوارٹر قائم کرنے اور ہمارے خلاف سیکورٹی مخالف اقدامات اور کارروائیاں کرنے میں کیوں سرگرم ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button