شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی شمولیت، روشن مستقبل کی نوید|ایم مہدی
جہاں تک میں سمجھتا ہوں آئندہ دنیا میں کوئی ایک سپر پاور نہیں ہوگی بلکہ مختلف طاقتور ممالک کو عروج حاصل ہوگا، جس میں بہرحال ایران، روس اور چین کو نظرانداز نہیں جاسکتا اور یہ تینوں ممالک اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہیں

شیعیت نیوز: شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 1996ء میں پانچ ممالک روس، چین، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان نے شنگھائی میں رکھی۔ یہ مغربی اداروں کے مقابلے میں ایک سیاسی، اقتصادی اور سلامتی تنظیم ہے۔ یہ تمام ممالک ”شنگھائی فائیو‘‘ کے اراکین تھے، سوائے ازبکستان کے، جو اس میں 2001ء میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کے نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔ گزشتہ ماہ سے قبل شنگھائی تعاون تنظیم کے باقاعدہ ممبر 8 تھے، جب کہ 4 ممالک افغانستان، ایران، بیلاروس اور منگولیا مبصر کی حیثیت سے شرکت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ آرمینیا، آذربائیجان، کمبوڈیا، نیپال، قطر، سعودی عرب، سری لنکا اور ترکی تنظیم کے ڈائیلاگ پارٹنر ہیں، تاہم حالیہ اجلاس میں ایرانکو تنظیم کا باقاعدہ رکن بنادیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکی گریٹ گیم کو ناکام بنانے کے پس منظر میں یہ تنظیم خاصی اہمیت کی حامل ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے، اس میں ہمارے سیارے کی نصف آبادی شامل ہے۔ اس تنظیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بدقسمتی سے جس تیزی کے ساتھ اس کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی ضرورت تھی اس طرف بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے لیکن اس کے باوجود حالیہ اجلاس خطے کے ساتھ ساتھ جمہوری اسلامی ایران کے لئے بھی بڑی اہمیت کا حامل تھا، جس سے مستقبل کی عالمی سیاست میں نہایت ہی اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران کی جہاں تک بات کریں تو امریکا نے گزشتہ چالیس سالوں سے بھی زائد عرصے میں ایران کو تنہائی کا شکار کرنے کی بھرپور کوشش کی، اقتصادی پابندیاں ہو یا ایران کی شخصیات پر پابندی، ایران سے تجارت کو بھی دیگر ممالک کیلئے محال کردیا گیا، تاہم امریکا کی پابندیوں کے باوجود ایران دنیا کے نقشے پر ایک طاقتور ملک کے طور پر جانا جاتا ہے، جو ہر میدان میں اپنے مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایم ڈبلیوایم کا شاندار اقدام ، عشق پیغمبر اعظم ص مرکز وحدت مسلمین کانفرنس میں ملک کی شیعہ سنی قیادت کو ایک چھت تلے جمع کردیا
شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کی اگر بات کی جائے تو ایران اور روس سمیت دیگر ممالک توانائی کا ذریعہ قدرتی گیس کی صورت میں رکھتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں توانائی کے بحران کا شور ہے۔ یوکرین روس جنگ کی بدولت امریکی پابندیوں کی بدولت یورپ کیلئے روس سے گیس کا حصول مشکل ہوگیا ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں یہ بحران شدت اختیار کرتا جائے گا۔ ایسے میں خود یورپی اقوام کو اپنے حکمرانوں کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جب عالمی منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے، دنیا یونی پولر ورلڈ سے ملٹی پولر ورلڈ میں تبدیل ہورہی ہے اور ریجنل پاورز طاقتور ہورہی ہیں۔ ان میں کچھ ریجنل پاورز ایسی بھی ہیں کہ جنہیں عالمی سطح پر امریکا کا متبادل سمجھا جارہا ہے، جیسے کہ چین لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں آئندہ دنیا میں کوئی ایک سپر پاور نہیں ہوگی بلکہ مختلف طاقتور ممالک کو عروج حاصل ہوگا، جس میں بہرحال ایران، روس اور چین کو نظرانداز نہیں جاسکتا اور یہ تینوں ممالک اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہیں۔ یورپی اقوام کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ مستقبل قریب میں انہیں ڈوبتے ہوئے امریکا کی کشتی میں سوار رہ کر اپنی عوام کو توانائی بحران کا شکار رکھنا ہے یا یہ کہ اپنے ملکی اور قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایران، روس اور چین سے اپنے مراسم کو مزید بہتر کرنا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ امریکا مخالف بہت سارے معاملات میں ایران، روس اور چین اہم پارٹنرز ہیں۔ لہذا آئندہ کا عالمی منظر نامہ دنیا کیلئے ایک بہتر مستقبل کی نوید دے رہا ہے۔ دنیا میں تبدیلیاں آ رہیں ہیں۔ امید ہے کہ ایشاء کی طاقت کو مزید مستحکم کیا جائے گا جو امریکی و مغربی بالادستی اور چیرہ دستی کے خلاف ایک قابل عمل قوت بن کر ابھرے گی اور یہ تیزی سے ابھرتی ایک نئی قوت ہے جس کا مستقبل روشن ہے۔