اہم ترین خبریںمقالہ جات

خطے کی تین بڑی طاقوں کی تہران میں بڑی بیٹھک

یہ تعاون آستانہ مذاکرات کے نام سے انجام پانے والے مذاکراتی سلسلے کی روشنی میں انجام پا رہا ہے

شیعیت نیوز: ایران کے دارالحکومت تہران میں ترکی، روس اور تہران کے درمیان سہ فریقی سربراہی اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔ سیاسی ماہرین اس اجلاس کو کئی لحاظ سے خطے کیلئے انتہائی اہم اور اسٹریٹجک قرار دے رہے ہیں۔ ایران، ترکی اور روس گذشتہ ایک عرصے سے خطے میں امن و امان کے قیام کیلئے باہمی تعاون کرتے آ رہے ہیں۔

یہ تعاون آستانہ مذاکرات کے نام سے انجام پانے والے مذاکراتی سلسلے کی روشنی میں انجام پا رہا ہے۔ اس وقت خطے کے اہم ترین ایشوز میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے شدت پسندانہ اقدامات اور شام میں موجود سکیورٹی بحران شامل ہیں۔ تہران میں منعقد ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے مختلف ممکنہ اہداف و مقاصد بیان کئے جا رہے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔

1)۔ بیرونی مداخلت کے مقابلے میں علاقائی تعاون
حال ہی میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے مقبوضہ فلسطین اور سعودی عرب سمیت مشرق وسطی خطے کا دورہ کیا ہے۔ اس دوران ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی توجہ ایک بار پھر مشرق وسطی یا مغربی ایشیا خطے پر مرکوز کرنا شروع ہو گیا ہے۔ جو بائیڈن یہ تصور کر رہے تھے کہ وہ اپنے اس دورے کے ذریعے خطے کے سکیورٹی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے ایک نئی لہر ایجاد کریں گے۔ انہوں نے غاصب صہیونی رژیم اور عرب ممالک میں قربتیں بڑھانے کی کوشش بھی کی جبکہ دوسری طرف انرجی کے سستے ذخائر حاصل کرنے کیلئے بھی کوشاں رہے۔ اس تناظر میں تہران میں منعقد ہونے والا حالیہ سربراہی اجلاس خودمختار خارجہ پالیسی اور علاقائی سطح پر باہمی تعاون کی بہترین مثال پیش کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:جنوبی ایشیا کا پائیدار امن بھی مسئلہ کشمیر سے جڑا ہے، علامہ ساجد علی نقوی

2)۔ شام سے متعلق ترکی کی پالیسیاں
خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک شروع ہونے سے پہلے ترکی اور شام کے درمیان بہت اچھے اور دوستانہ تعلقات استوار تھے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ چند عشروں سے شدید سیاسی اور جغرافیائی تنازعات بھی پائے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے تعلقات دوستانہ ہی رہے۔ اسی تناظر میں بیسویں صدی کے آخری عشرے میں ترکی اور شام کے درمیان دوستانہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کیلئے چند اہم اقدامات انجام پائے جن میں سے ایک انقرہ اور دمشق کے درمیان آدانا معاہدہ طے پانا تھا۔ کچھ عرصے بعد رجب طیب اردگان نے ترکی کے پہلے وزیراعظم کے طور پر شام کا دورہ کیا۔ ان کے علاوہ ترکی کے وزیر خارجہ داود احمد اوگلو نے بھی دسیوں بار دمشق کا دورہ کیا۔ یاد رہے داود احمد اوگلو ترکی اور شام کے درمیان دوستانہ تعلقات کے ماسٹر مائنڈ جانے جاتے تھے۔

شام میں سکیورٹی بحران جنم لینے کے بعد ترکی اور شام کے درمیان تعلقات کی نوعیب میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں۔ رجب طیب اردگان اور ان کی ٹیم نے شام سے متعلق انتہائی خطرناک پالیسیاں اختیار کر لیں۔ ترک حکومت نے وسطی ایشیا، یورپ اور امریکہ سے آنے والے تکفیری دہشت گرد عناصر کو شام میں داخلے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی اور یوں دنیا بھر سے شام کیلئے جانے والے داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کیلئے ترکی بہترین روٹ میں تبدیل ہو گیا۔ ترک حکومت سلفی تکفیری دہشت گرد عناصر کی مدد سے شام میں ایک وابستہ حکومت برسراقتدار لانے کی خواہاں تھی۔ اس مقصد کیلئے انقرہ نے بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا۔ لیکن آخرکار داعش کے خاتمے کے بعد یہ منصوبہ ناکامی کا شکار ہو گیا۔ اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ترکی شام سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی، بھٹو کے پوتے ذوالفقار جونیئر کا جرمن فلم فیسٹیول میں شرکت سے انکار

تہران میں سربراہی اجلاس کے انعقاد سے پہلے شام کے کرد نشین علاقے میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس نے امید کی کرن روشن کر دی ہے۔ ترکی کی سرحد کے قریب عین العرب یا کوبانی نامی ایک کرد نشین قصبہ واقع ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں سے ترکی کی جانب سے اس قصبے پر ممکنہ فوجی چڑھائی کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ حال ہی میں ترکی کے ذرائع ابلاغ نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کوبانی قصبے میں واقع ایک پہاڑی پر شام کا قومی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ شام میں سکیورٹی بحران رونما ہونے کے بعد کرد نشین علاقے میں قومی پرچم لہرائے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ دوسری طرف اس اقدام کے نتیجے میں ترکی کا فوجی حملہ بھی ٹل گیا ہے۔ لہذا اسے مقامی کرد انتظامیہ کی جانب سے ترکی کے فوجی حملے سے بچنے کیلئے ایک سکیورٹی حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔

روس کے اعلی سطحی حکومتی عہدیدار اس سے پہلے کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ کرد نشین علاقوں پر ترکی کے فوجی حملوں سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہاں شام کا قومی پرچم نصب کر دیا جائے۔ یوں ترکی ان علاقوں پر فوجی حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ ایران اور روس شام کے اتحادی ممالک ہیں۔ شام کے کرد نشین قصبے عفرین کی انتظامیہ نے یہ بات نہیں مانی جس کے نتیجے میں اسے ترکی کی فوجی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ عین العرب یا کوبانی میں کرد انتظامیہ اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی خواہاں ہے۔ ترکی اور شام کے درمیان 900 کلومیٹر سے زیادہ مشترکہ سرحد پائی جاتی ہے۔ ترکی کی جانب سے شام کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور حق خود ارادیت کا احترم ہی خطے میں پائیدار امن کا باعث بن سکتا ہے۔

تحریر: علی احمدی

متعلقہ مضامین

Back to top button