اہم ترین خبریںسعودی عرب

ایرانی اثر ورسوخ کے مقابل امریکی رویہ، سابق سعودی انٹیلیجنس چیف بھڑک اُٹھے

سابق سعودی انٹیلیجنس چیف نے کہا کہ خلیج فارس کا یہ خطرہ "خطے میں ایرانی اثر و رسوخ" ہے اور دعوی کیا کہ ایران نہ صرف حوثیوں (انصاراللہ یمن) کو سعودی استحکام تباہ کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے بلکہ وہ ان سے بحیرۂ احمر و خلیج فارس سمیت تمام اہم سمندری گزرگاہوں کے امن و استحکام کو متاثر کرنے کے لئے بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔

شیعیت نیوز: سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف و سعودی شہزادے ترکی الفیصل نے عرب میڈیا کے ساتھ گفتگو میں اعلان کیا ہے کہ سعودی شاہی رژیم امریکی رویے کے باعث شدید مایوس ہو چکی ہے۔ عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ترکی الفیصل کا کہنا تھا کہ سعودی رژیم شدت کے ساتھ یہ محسوس کر رہی ہے کہ امریکہ نے اسے تنہاء چھوڑ دیا ہے جبکہ امریکہ کو چاہئے تھا کہ وہ سعودی شاہی رژیم کے ساتھ مل کر خلیج فارس کے مبینہ خطرے کا مقابلہ کرتا۔

سابق سعودی انٹیلیجنس چیف نے کہا کہ خلیج فارس کا یہ خطرہ "خطے میں ایرانی اثر و رسوخ” ہے اور دعوی کیا کہ ایران نہ صرف حوثیوں (انصاراللہ یمن) کو سعودی استحکام تباہ کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے بلکہ وہ ان سے بحیرۂ احمر و خلیج فارس سمیت تمام اہم سمندری گزرگاہوں کے امن و استحکام کو متاثر کرنے کے لئے بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔

سعودی شہزادے نے دعوی کیا کہ انصاراللہ یمن کے نام کو دہشتگرد تنظیموں کی امریکی فہرست سے نکال دینے کا نتیجہ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات پر اس تنظیم کے حملوں میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے۔ ترکی الفیصل نے کہا کہ امریکی صدر نے اپنی انتخاباتی کمپین کے دوران کہا تھا کہ سعودی عرب کو ایک طرف کر دیا جائے گا لہذا اب عملی طور پر حوثیوں کے خلاف سعودی عرب کے مشترکہ آپریشنز میں عدم شرکت کے ذریعے جوبائیڈن نے اپنے انتخاباتی وعدے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عراق، اربیل کے خبات علاقے پر پھر راکٹ حملہ، اس بار ریفائنری نشانے پر

سعودی شہزادے نے کہا کہ جوبائیڈن نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے ساتھ کبھی ملاقات نہیں کرے گا اور دعوی کیا کہ عملی طور پر ایسا ہی ہے درحالیکہ سعودی عرب مدتوں قبل سے یمنی جنگ کے پرامن حل کی تلاش میں ہے تاہم انصاراللہ یمن اس کے ساتھ اتفاق نہیں کر رہی۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب کی نام نہاد مدد اور سمندری قزاقی و اسلحے کی اسمگلنگ کے بہانے سے بحیرۂ احمر اور آبنائے باب المندب میں اپنی موجودگی کو بڑھا لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ آئے دن کے اپنے اشتعال انگیز اقدامات کے ذریعے یمن میں برقرار ہونے والی جنگ بندی کو بھی توڑنے کے درپے ہے۔

دوسری جانب ترکی الفیصل نے سعودی عرب و امارات پر یمنی حملوں کی بات ایک ایسے وقت میں کی ہے جب یمنی حکام کا اپنا کہنا ہے کہ یہ حملے مظلوم یمنی عوام اور ان کے انفراسٹرکچر پر گذشتہ 8 برس سے سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی مسلسل بمباری کا ایک جواب ہے۔ علاوہ ازیں یمن میں جنگ بندی کے برقرار ہو جانے کے باوجود بھی سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی جانب سے نہتے یمنی عوام کا سخت ترین زمینی، سمندری و ہوائی محاصرہ ختم نہیں کیا جا رہا جس کے باعث خوراک یا ایندھن کا حامل کوئی بحری بیڑہ یمن تک نہیں پہنچ پا رہا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button